مراٹھا تحریک کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی
قیادت کسی ایک جماعت کے ہاتھوں میں نہیں ہے۔ سارے مراٹھا اس بارمتحد ہیں ۔
ایک مراٹھا کا مطلب ہے سارا مراٹھا سماج ایک جٹ ہے اور لاکھ مراٹھا کا
مظاہرہ ہر مقام پر ہورہا ہے۔ اس احتجاج میں شریک مظاہرین کے متعلق یہ بتایا
جاتا ہے ۲یا ۵ یا ۱۰ ، لاکھ اس میں مخفف ہے۔ نندوربار جیسے علاقہ میں بھی
جوکہ گجرات کی سرحد پر واقع ہے ۲لاکھ لوگ شریک تھے اور احمدنگر میں تو دس
لاکھ لوگ شامل ہوئے تھے ۔ اس سلسلے کی آخری کڑی ممبئی میں ۸ اکتوبر کو
ہوگی جہاں ۲۰ لاکھ مراٹھوں کی شرکت متوقع ہے اور اس کے بعد ممکن ہے دیویندر
فردنویس کو بھی آنندی بین کی طرح بلی کا بکرہ بناکر سیاست کے مرگھٹ پر
بھینٹ چڑھا دیا جائے۔ بی جے پی والے اگر مراٹھوں کو اپنے ساتھ لے کر چلتے
تو ممکن ہےیہ درگت اتنی جلدی نہیں بنتی لیکن جن کے دماغ میں کبرو غرور کا
خناس گھس جائےان کی عقل ایسے ہی ماری جاتی ہے۔
مراٹھا سماج کے اندر احساس محرومی کا جو لاوہ پک رہا تھا وہ کوپرڈی کی عصمت
دری سے پھٹ پڑا۔ مراٹھوں کےلئے اس بات کا تصور محال تھا کہ کوئی دلت نوجوان
مراٹھا لڑکی کی عزت لوٹ کر اس کا قتل کردےگا۔ اپنی شدید سیاسی و سماجی بے
وزنی نے انہیں بے چین کردیا اور اسی کے بطن سے یہ احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔
مراٹھوں کا اولین مطالبہ ہے ۱۴ سالہ نابالغ لڑکی کی عصمت دری کرنے والے
درندوں کو سرِ عام پھانسی دی جائے۔ اس مطالبے کی حمایت ہر ذی ہوش انسان کرے
گا ۔ ملت اسلامیہ اس معاملے میں کسی پس و پیش کا شکار نہیں ہے اس لئے کہ
دین اسلام بھی اسی طرح کی کڑی سزا کا علمبردارہے ۔ مظاہروں کی کامیابی
مراٹھا رہنماوں کی توقع سے زیادہ تھی اس لئے انہوں نے اپنے مطالبات میں یکے
بعد دیگرے اضافہ کرنا شروع کردیا۔ پہلے تو ریزویشن کی بات آئی اور اس کے
بعد دلت اور پسماندہ ذاتوں پر مظالم کے خلاف وضع کردہ قانون کی منسوخی کا
مطالبہ بھی سامنے آیا۔ اس میں تازہ اضافہ شیوسینا کے اخبار سامنا کا تضحیک
آمیز کارٹون ہے ۔
ریزرویشن کا مطالبہ آج کل ایک فیشن بن گیا ہے۔ ہریانہ کے جاٹ، راجستھان کے
گوجر،گجرات کے پٹیل اور مہاراشٹر کے مراٹھے وہ لوگ ہیں جو برسوں اقتدارمیں
رہےلیکن اب ریزرویشن کی تحریک چلارہے ہیں ۔ حکومت پہلے تو اسے نظر انداز
کرتی ہے پھر قانون بنادیتی ہے جسے دستور کا حوالہ دےکر عدالتیں مسترد
کردیتی ہیں ۔ مہاراشٹر میں مراٹھوں اور مسلمانوں کے ریزرویشن کا یہی حشر
ہوچکاہے۔ دستور میں ۵۰ فیصد کی قید کے چلتے اضافی ریزرویشن ممکن نہیں ہے۔
ترمیم کے بغیر کسی طبقہ کو شامل کرنے کے سبب پہلے سے مستفید ہونے والوں کی
حق تلفی ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ شردپوار ان لوگوں کو متاثر کئے بغیر
ریزرویشن کی بات کرتے ہیں ۔ سماجی انصاف کے مرکزی وزیرمملکت رام داس
اٹھاولے بھی دستوری ترمیم کے ذریعہ مذکورہ قید کو۵۰ سے ۷۵ فیصد کرکےبراہمن
سمیت دیگر طبقات کو ریزرویشن دینے کے حق میں ہیں لیکن بی جے پی تو دور
کانگریس کیلئے بھی اس تجویز پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے ۔ منڈل کمیشن کے بعد
وی پی سنگھ کا عبرت ناک انجامساری دنیا کے سامنے ہے اور بی جے پی تو ویسے
ہی شہروں کی پارٹی ہے۔
مراٹھوں کا تیسرا مطالبہ دلتوں اور دیگر پسماندہ ذاتوں کے خلاف مظالم کے
خاتمہ کا قانون کی منسوخی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے سبب بےگناہ مراٹھوں
کے خلاف شکایت درج کرواکر انہیں پریشان کیا جاتا ہے۔ یہ الزام اگر درست بھی
ہوتو اس کا علاج غلط استعمال کو روکنے کی تدابیر ہے نہ کہ قانون کومسترد
کردینا ۔ اس طرح کی دلیل تو ہرقانون کے خلاف دی جاسکتی ہے لیکن اس کا بہانہ
بنا کر اسے منسوخ کرناکہاں کی دانشمندی ہے ؟ یہی وجہ ہے کہ اول الذکر دو
مطالبات کی حمایت جس طرح امت کرسکتی ہے اسی طرح اس تیسرے تقاضے کی حمایت
مناسب نہیں ہے ۔ اس سلسلے میں یہ احساسِ جرم آڑے نہ آئے کہ اس موقف کا
مراٹھا سماج سےہمارے باہمی خوشگوار تعلقات پر کیا اثر پڑے گا۔ اگر کوئی کسی
کے ۴ میں سے ۳ مطالبات کی حمایت کرے اور ایک کی نہ کرے تو اس میں کوئی
قباحت نہیں ہونی چاہئے۔
دلتسماج کے جولوگ ان مظاہروں سے اور ہماری حمایت سے پریشان ہیں ان کو بھی
ہمیں بتانا چاہئے کہ مراٹھوں کے مطالبات میں سے صرف ایک ایسا ہے جو ان کے
خلاف ہے اور ہم اس کی حمایت نہیں کرتے ۔ ہماری حمایت یا مخالفت اصولی ہے۔
امت مسلمہ جس چیز کو حق سمجھتی ہے اس کی حمایت اور جسے ناحق سمجھتی ہے اس
کی مخالفت کرتی ہے اور ایسا کرتے ہوئے اس کو نہ تو کسی کی بیجا خوشنودی کا
خیال آتا ہے اور نہ کسی کی ملامت کا خوف ستاتا ہے۔ دلت اور دیگر پسماندہ
طبقات پر مظالم سے تحفظ کا قانون (پی او اے) خصوصی توجہ کا مستحق ہے۔آزادی
سے قبلگول میز کانفرنس کے دوران گاندھی جی کھلے طور چھواچھوت کے خلاف ہو
گئےتھے۔ گاندھی جی نے کہاتھاہمارے پاس کوئی بااثر قانون ہونا چاہئے جو
ہمارے ملک کے لوگوں کو نام نہاد اعلیٰ ذات کے ذریعہ کئے جانے والے ظلم و
ستم سے بچائے اور نسلی امتیازکو جرم قراردے۔ گاندھی جی کو خدشہ تھا’’ کہ
کہیں چھواچھوت برقرار رہنے کی صورت میں ہندو مذہب ختم نہ ہو جائے‘‘۔
دستور ہند کی شق ۱۷ نے چھوت چھات کا خاتمہ کردیا اور کسی بھی صورت میں اس
پر عملدرآمد اور اس پابندی کو نافذالعمل کرنے میں کوتاہی کو پی سی آر
ایکٹ (۱۹۵۵) کے تحت جرم قرار دیا۔ ۱۹۸۹ میں یہ محسوس کیا گیا کہ قانون کی
موجودگی کے باوجود نسلی تفاوت کی بنیادپر ظلم و ستم کا سلسلہ رکا نہیں ہے
اس لئے خصوصی قانون بنایا گیا جس کے ذریعہ ان جرائم سے نمٹنے کی خاطر خصوصی
عدالتوں کا قیام اور مظلومین کی بازآبادکاری کیلئے تفصیلی مراعات بیان کی
گئیں۔ ان دستوری تحفظات کے باوجودیہ محسوس کیا گیا کہ پسماندہ ذاتوں اور
قبائل کے خلاف ہونے والے جرائم میں اضافہ ہورہا ہے۔ ۲۰۱۳ کے دوران پسماندہ
ذاتوں کے مظالم کی تعداد ۳۹۴۰۸ تھی اور جو ۲۰۱۴ میں بڑھ کر ۴۷۰۶۴ تک پہنچ
گئی ۔ یہ ایسے واقعات ہیں جن پر شکایت درج کرائی جاسکی ۔ جن لوگوں کو ڈرا
دھمکا کر روک دیا گیا ان کا تو کوئی حساب ہی نہیں ہے۔ اس صورتحال میں گزشتہ
یوپی اے سرکارنے مزید اصلاحات پیش کیں جسے این ڈی اے حکومت نے اپریل ۲۰۱۶
میں منظوری دی تاکہ کوئی مجرم قانونی موشگافی کا فائدہ انہ اٹھاسکے اور
مظلومین کی قرار واقعی مدد کی جائے۔۔ پہلے یہ جرائم ڈھکے چھپے انداز میں
ہوتے تھے لیکن اونا گواہ ہے کہ اب کھلے عام ہونے لگے ہیں، گئو بھکت ویڈیو
بناکراسےفخریہ پھیلاتے ہیں۔
ایک طرف تو قومی سطح پر یہ محسوس کیا جاتا ہے کہ اس قانون کے نفاذ میں
کوتاہی ہے اور مظالم بڑھ رہے ہیں دوسری جانب اس کے غلط استعمال کا نعرہ
بلند کرکے اس کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے ۔غلط استعمال کے حق میں
سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اس کے تحت درج مقدمات میں صرف ۵ فیصد
لوگوں پر جرم ثابت ہوتا ہے لیکن مہاراشٹر میں تو ۲۰۱۱ کے اندر دیگر مقدمات
میں بھی ۴ء۵ فیدص لوگوں کو سزا ملی ہے ۲۰۱۲ اور۲۰۱۳میں بھی سزا یافتہ ۳ء۶
فیصدسے کم ہیں تو کیا اس منطق سے تعزیرات ہند کو ہی منسوخ کرنے کا مطالبہ
کیا جائیگا۔ کسی بھی چیز کے غلط استعمال کو روکنے کا طریقہ اس پر پابندی
نہیں ہے اس طرح تو دستور کا بیشتر حصہ منسوخ ہوکر رہ جائیگا ۔ اس بابت ۱۰
سال قبل رونما ہونے والے مشہور زمانہ کھیرالانجی مقدمہ کا حوالہ دیا جاسکتا
ہے جس میں چار دلتوں کو دن دہاڑے ایک مجمع نے قتل کردیا ۔اس سانحہ پر ملک
بھرمیں احتجاج ہوا۔۵۰ ملزمین پرخصوصی عدالت میں مقدمہ درج کیا گیا۔ سماعت
کے دوران ملزمین کی تعداد گھٹ کر۱۱ ہوگئی ان میں سے ۸ کو سزائے موت سنائی ۔
خصوصی عدالت نے یہ فیصلہ دوسال کے اندر کردیا مگر پھر اس کے خلاف ہائی کورٹ
میں اپیل کی گئی ۔ ہائی کورٹ نے اسے پی او اے کے بجائے عام قانون کی خلاف
ورزی قرار دیا۔عالمی سطح پر اس قدر مشہور مقدمہ کے ساتھ اگریہ ہوسکتا ہے تو
دیگر معاملات میں کیا ہوتا ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ خیر ہائی
کورٹ نے اس بہیمانہ قتل کے مجرمین کو سزائے موت کے بجائے ۲۵ سال قید بامشقت
کی سزا سنائی ۔ اب یہ مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ۔ ایک مجرم کا
انتقال ہوچکا ہے کوئی نہیں جانتا کہ آخری فیصلہ آنے تک کتنے زندہ بچیں
گے۔ اس مثال شاہد ہے کہ تمام تر ترمیمات کے باوجود یہ قانون کس قدر غیر
موثر ہے اور اس کے غلط استعمال کا دعویٰ کتنا کمزور ہے۔ ویسے چونکہ یہ
مرکزی حکومت کا وضع کردہ قانون ہے کوئی ریاستی حکومت اس کومنسوخ تو درکنار
اس سے سرمو انحراف بھی نہیں کرسکتی۔ مہاراشٹر کی بی جے پی حکومت اس طرح کا
قانون اقلیتوں کے تحفظ کیلئےبھی وضع کررہی ہے امکان یہ ہے آئندہ اسمبلی
اجلاس میں وہ پیش ہوجائے اور دیگر جماعتوں کی مخالفت کے سبب ناکام ہوجائے۔
حکومت اس کے ذریعہ خود کو مسلمانوں کا بہی خواہ اور دیگرجماعتوں کو ان کا
دشمن ثابت کرنے کی کوشش کرے گی لیکن مسلمان ایسے احمق بھی نہیں کہ ان
کھلونوں سے بہل جائیں ۔ وہ بی جے پی کی چال، چرتر اورچہرے سے خوب واقف ہیں۔
|