لافانی حسن
(Prof Abdullah Bhatti, Lahore)
خالقِ کائنات نے بلا شبہ اپنی تخلیق کی
انتہا اُس وقت کی جب خدا نے اپنے محبوب سرتاج الانبیا ء ﷺ کو تخلیق کیا وہ
نور مجسم وہ جسم اطہر جس نے شاہِ دو عالم کی روح کا گہوارہ بننا تھا اُس کی
رعنائیوں دلبرائیوں لا فانی حسن کا کیا عالم ہو گا وہ جسم اطہر جس نے اندازِ
الہی کی جلوہ گا ہ بننا تھا اُس کی عظمت اور شان کیا ہو گی خالق کا ئنات نے
اپنے ہر نبی اور رسول کو بے پنا ہ حُسن بخشا، حُسن کے ساتھ ساتھ جسمانی
عیوب سے بھی پا ک رکھا تا کہ ان کا کو ئی بھی جسمانی نقص پیغامِ حق کو قبول
کر نے میں رکا وٹ نہ بنے یہ حقیقت روز اول سے روشن ہے کہ داعی کی جسمانی
ساخت کی دلکشی دلا آویزی لوگوں کے دلوں میں گھر کر جا ئے کیونکہ ھا دی برحق
کی رسالت قیا مت تک تھی اور آپ محبوب خدا اور سردار الانبیاء ختم الرسل ﷺ
بھی تھے اِس لیے حسن و رعنا ئی کے تمام جلو ے آپ ﷺ کے جسم اطہر میں سمو
دئیے گئے تھے نبوت کے بعد جب آقا پا ک ﷺ نے دعوت اسلام دینی شروع کی تو کفا
ر مکہ نے آپ ﷺ پر طرح طرح کے الزاما ت لگا نے شروع کر دئیے نو رِ رحمت کی
مخا لفت میں پو رے عرب میں الزامات کی تیز آندھی چل رہی تھی انہی دنوں ایک
اعرابی دُریتیم ﷺ کے حضور آیا آپ ﷺ کے چہرہ انوار کے حسن کی تا با نیوں کی
تاب نہ لا سکا اور بو ل اٹھا آپ ﷺ کو ن ہیں تو نو ر مجسم نے دلنواز تبسم سے
اپنا نام بتایا تو اعرابی کہنے لگا اچھا آپ وہی محمد ﷺ ہیں جسے قریش کذاب
کہتے ہیں تو رسول اقدس ﷺ نے فرمایا ہاں میں وہی ہوں تو وہ بدو بے ساختہ پکا
ر اٹھا کہ یہ نور سے چھلکا چہرہ کسی جھو ٹے کا ہر گز نہیں ہو سکتا پھر اُس
بد و نے آپ ﷺ سے پو چھا آپ ﷺ کس چیز کی دعوت دیتے ہیں تو نبیو ں کے سردار ﷺ
نے دین اسلام کی دعوت دی تو وہ بدو اُسی وقت اسلام کے نور میں نہا گیا نو
رمجسم کے لا فانی حسن کے جلوؤں کا یہ عالم تھا کہ جس کو بھی اﷲ تعالی نے
ذوق سلیم کی نعمت سے نواز رکھا تھا وہ جیسے ہی با رگاہِ رسالت میں آتا تو
آپ ﷺ کے لا فانی حسن کو دیکھ کر آپ ﷺ کے سحر میں جکڑ ا جا تا اور ہر ایک کی
زبان سے بے ساختہ نکلتا ۔ ترجمہ’’ سر مبارک سے لے کر قدم ناز تک جہاں بھی
نگا ہ پڑتی ہے ہر عضو کا بانکپن یہی کہتا ہے کہ صرف مجھے ہی دیکھتے رہو اور
صرف میری رعنایوں میں ہی کھو ئے رہو ‘ ‘ ۔ جسمانی خدو خال اور لا فانی لا
زوال حسن کے ساتھ ساتھ آقا پاک ﷺ کی روح کے جلو ے آپ ﷺ کے جسم اطہر سے
چشموں کی طرح ہر وقت پھوٹتے رہتے آپ ﷺ کے چہرہ انور پر ہر وقت تجلیات الہی
کی برسات ہو تی رہتی اِس نور سے متا ثر ہو کر ام معبد کی زبان سے بے ساختہ
نکلا تھا ’’ جبین سعادت چمک رہی ہے چہرہ انوار سے دمک رہا ہت ہمہ نہ غرور
ہے اور نہ نخو ت‘‘ ، جمال مصطفوی ﷺ کا لا فانی حسن اِس کمال کا تھا کہ غضب
کی مقنا طیسی کشش تھی حسن و رعنا ئی کی نر می کے ساتھ ہیبت اور وقار کی
اتنی حسین آمیزش کہ فرط جلال سے آپ ﷺ کی طرف آنکھیں نہیں اُٹھتی تھیں ۔ آپ
ﷺ کے لا فانی حسن کے با رے میں حضرت ہند بن ابی ہا لہ کی روایت حضرت امام
حسن ؓ سے اِسطرح مروی ہے ترجمہ : میں نے اپنے ماموں ہند بن ابی ہا لہ سے
رسول کریم ﷺ کے حلیہ مبا رک کے با رے میں پو چھا کیونکہ وہ کسی چیز کی
حقیقت بیان کر نے میں بہت مہا رت رکھتے تھے مجھے اُن کی اِس مہا رت پر یقین
تھا کہ وہ جو بھی بتا ئیں گے وہ مجھے ہمیشہ یا د رہے گا انہوں نے اسطرح
بیان کیا ۔ رسول کریم ﷺ لوگوں کی نگا ہوں میں بڑے جلیل القدر اور عظیم
الشان دکھا ئی دیتے تھے ۔ حضور ﷺ کا چہرہ مبا رک اِس طرح چمکتا تھا جس طرح
چودھویں رات کا چاند چھوٹے قد والے لمبے اور طویل قد والے سے کم، سر مبارک
بڑا تھا گیسوئے مبا رک زیادہ گھنگریلے نہ تھے اگر موئے مبا رک الجھ جا تے
تو حضور ﷺ مانگ نکال لیتے تھے ورنہ حضور ﷺ کے گیسو کا نوں کی لو سے نیچے نہ
جا تے کانوں کی لو تک آویزاں تھے چہرہے کا رنگ چمکدار تھا پیشانی مبارک
کشادہ تھی ۔ابرو مبارک با ریک بھرے ہو ئے تھے لیکن با ہم ملے ہو ئے نہ تھے
دونوں کے درمیان ایک رگ تھی جو غصہ کے وقت پھول جا تی تھی ناک مبارک اونچی
تھی ۔ اس کے اوپر نو ربر س رہا ہو تا تھا دیکھنے والا گمان کر تا کہ یہ
اونچی ہے د اڑھی مبا رک گھنی تھی دونوں رخسار ہموار تھے دہن مبا رک کشادہ
اور دندان مبا رک چمکدار اور شاداب تھے ۔ دندان مبا رک کھلے تھے ۔ بالوں کا
خط جو سینہ سے ناف تک چلا گیا تھا وہ با ریک تھا گردن مبا رک یوں تھی جیسے
چاندی کی گڑیا کی صاف گردن ہو تما م اعضاء متعدل تھے اور ان کا اعتدال آشکا
ر تھا ۔ شکم اور سینہ مبا رک ہموار تھا سینہ کشادہ تھا دونوں کندھوں کے
درمیان کا فی فا صلہ تھا ہڈیوں کے جوڑ مضبوط تھے سینہ کی ہڈی اور ناف کے
درمیان بالوں کا خط ملا ہوا تھا ۔ اِس کے علاوہ سینہ اور شکم با لوں سے صاف
تھا دونوں با زوؤں دونوں کندھوں اور سینہ کے اوپر والے حصے میں بال اُگے ہو
ئے تھے دونوں با زوؤں کی ہڈی لمبی تھی ۔ ہا تھ مبا رک کشادہ تھے دونوں
ہتھیلیاں پرُ گو شت تھیں اور دونوں پا ؤں بھر ے ہو ئے تھے دونوں پا ؤں کا
درمیانی حصہ اٹھا ہوا تھا جب قدم اٹھا تے تو قوت سے اٹھا تے رکھتے تو جماکر
رکھتے آہستہ خرام مگر تیز رفتار جب چلتے تو معلوم ہو تا کہ بلندی سے پستی
کی طرف تشریف لے جا رہے ہیں جب کسی کی ظرف التفات فرماتے تو ہمہ تن ملتفت
ہو ئی نگا ہیں جھکی ہو ئی ہو تیں آپ ﷺ کی نظر زمین کی طرف طویل ہو تی تھی
بنسبت آسمان کی طرف ، آپ ﷺ کا دیکھنا گہرا مشاہدہ ہوا کر تا تھا آپ ﷺ حسنِ
تدبیر سے اپنے صحابہ کو شاہراہ ہدا یت پر چلا تے جس سے ملا قات فرماتے پہلے
خود سلا م کر تے نبی رحمت ﷺ کے منہ مبا رک کا لعاب زخمی اور بیماروں کے لیے
با عثِ شفا تھا فتح خیبر کے دن آپ ﷺ نے حضرت علی ؓ جو کہ آشوب ِ چشم میں
مبتلا تھے اپنا لعاب دہن حضرت علی ؓ کی آنکھوں میں لگا یا تو وہ فوراً
تندرست ہو گئے جیسے کبھی آشوب چشم تھی ہی نہیں اور پھر کون نہیں جانتا ہجرت
مدینہ کے وقت غار ثور میں جب کسی چیز نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے پا ؤں پر
کا ٹا تو نبی رحمت ﷺ نے اپنا لعا ب مبا رک لگا یا اور درد یوں ختم ہوا جیسے
کبھی تھا ہی نہیں اور ایک بد زبان عورت آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی آپ ﷺ
قدید تنا ول فرما رہے تھے اُس نے سوا ل کیا کہ مجھے بھی عطا فرما ئیں آپ ﷺ
نے جو قدید سامنے پڑا تھا اُس میں سے اسے دے دیا تو اُس عورت نے عرض کیا یا
رسول اﷲ ﷺ اپنے منہ میں سے عطا کریں آپ ﷺنے منہ سے نکال کر اُسے عطا کیا وہ
کھا گئی اُس دن کے بعد اُس کی بد کلا می شیریں زبانی میں بدل گئی ۔ یوم
حدیبیہ کے دن لشکر اسلام نے چاہ حدیبیہ کا سارا پا نی نکال لیا تو پانی کا
ایک قطرہ بھی با قی نہ بچا جب نبی رحمت ﷺ کو بتا یا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا
ایک برتن پانی کا بھر کر لاؤ آپ ﷺ نے اُس پانی کا وضو کیا اور ایک کلی مبا
رک خا لی کنویں میں ڈال دی اور فرمایا کہ ذرا ٹھہر و اور پھر عاشقان رسول ﷺ
نے دیکھا کہ کنویں میں اِس قدر پا نی جمع ہو گیا کہ بیس دن تک تمام فوج اور
اونٹ اِس پا نی سے اپنی پیاس بجھا تے رہے ۔
|
|