آسمان وفا کے چمکتے ستارے شہدائے کربلاؓؓ
(Ghulam Abbas Siddiqui, Lahore)
حجاز سے ایک مختصر قافلہ مقدس عزم
لئے نکلتا ہی ہے کہ خوبصورت حسین و جمیل امیر قافلہ کے سامنے حضرت عبداﷲ
ابن عباسؓ رکاوٹ بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں منت سماجت کرتے ہیں کہ ہزاروں خطوط
لکھنے والوں کی دعوت پر بے وفاؤں کے شہر کوفہ کی طرف قصد نہ کریں ان لوگوں
نے آپ کے والد محترم سے بھی بے وفائی کی حتی ٰکہ انہیں شہید کر دیا گیا
لیکن امیر قافلہ رخت سفر کا عزم صمیم کر چکے ہیں لیجئے امیر قافلہ کے چچیرے
بھائی عبداﷲ بن جعفرؓ نے مدینہ منورہ سے پیغام بھیجا کہ آپ سفر کا ارادہ
ترک کر دیں اسوقت آپ ؓ ہی ہدایت کا نشان اور ارباب ایمان کی امیدوں کا مرکز
ہیں لیکن رسول اﷲ ﷺکی گود میں کھیلنے والے جنتی نوجوانوں کے سردار کا لقب
پانے والے نواسہ رسول جگر گوشہ بتول ؓ سیدنا امام حسینؓ کو کوئی روکنے میں
کامیاب نہ ہو سکا کیونکہ آپ اہل کوفہ سے وعدہ کر چکے تھے بالآخر قافلہ جانب
منزل رواں دواں ہو گیا اہل حجاز امیر کارواں کو سلام عقیدت پیش کرنے سے نہ
رہ سکے اور آپ کو حسرت بھری نگاہوں سے الوداع کہہ رہے تھے ان کے دل ،دماغ،
آنکھیں رو رہے تھے کہ نواسہ رسول جہاں جا رہے ہیں وہاں ان کی زندگی کو خطرہ
ہے روئے زمین پر خاندان رسو ل کی پاکیزہ مقدس نشانی امام حسینؓ مستقبل قریب
سے بے خبرچلے جا رہے تھے کہ صفاح کے مقام پر مشہور اہل بیتؓ شاعر فرزدق سے
ملاقات ہوئی استفسار پر اُس نے امام عالی مقام سیدنا حسین بن علی ؓ کو
بتایا کہ اُن کے دل آپ کے ساتھ مگر تلواریں یزیدکے ساتھ ہیں معلومات کے اس
تبادلے کے بعد بھی سفر جاری رکھا زردد کے مقام پر پہنچ کر معلوم ہوا کہ آپ
ؓ کے سفیر حضرت مسلم بن عقیل ؓ کو یزیدی حکومت کے گورنر کوفہ عبداﷲ بن زیاد
نے اعلانیہ قتل کر دیا کسی کے کان میں جوں تک نہ رینگی اہل قافلہ میں سے
بعض نے کہاکہ اب بھی وقت ہے کہ واپس لوٹ چلیں اہل بیت ؓ کے معاملہ میں آپ
کواﷲ کاواسطہ دیتے ہیں لیکن طرف داران مسلم بن عقیلؓ نے بد لہ لیے بغیر
جانے سے انکار کر دیا اس پر امام عا لی مقام ؓنے ساتھیوں کی طرف نظر اُٹھا
کر دیکھااور ٹھنڈی سانس لے کر کہا ان کے بغیر زندگی کا کوئی مزہ نہیں سفر
جاری رکھا راستے میں بدوؤں کی بھیڑ آپ کے ساتھ مل گئی کہ کوفہ جا کر اہلبیت
ؓکے ساتھ مل کر خوب آرام کریں گے مسلم بن عقیلؓ کی شہادت کی خبر سن کر بدو
رفو چکر ہو گئے قادسیہ سے جو ں ہی آگے بڑھے عبیداﷲ بن زیاد والئی عراق کے
عامل حصین بن نمیر تمیمی کی طرف سے حُر بن یزید ایک ہزار فوج کے ساتھ نمو
دار ہوا انہیں عبید اﷲ بن زیاد کے روبرو قافلہ حسینی کو پیش کرنے کا حکم
تھا امام حسینؓ نے حرکے سپاہیوں کے سامنے خطبہ دیا ،اے لوگو اﷲ کے سامنے
اور تمہارے سامنے میرا عذر یہ ہے کہ میں اپنی طرف سے یہاں نہیں آیا ہوں
میرے پاس تمہارے خطو ط پہنچے ہیں قاصد بار بار دعوت دینے آئے کہ ہمارا کوئی
امام نہیں آپ آئیے تا کہ آپ کے ہاتھ اﷲ ہمیں جمع کر دے اگر اب بھی تمہاری
حالت یہی ہے تو میں آ گیا ہوں اگر مجھ سے عہد وپیماں کے لیے تیار ہوتو میں
تمہارے شہر چلنے کے لئے آمادہ ہوں اگر ایسا نہیں ہے بلکہ تم میری آمد سے نا
خوش ہو تو میں واپس چلا جاتا ہوں جہاں سے آیا ہوں،سب پر خاموشی چھائی رہی
اسی اثنا میں ظہر اور عصر کی امامت امام حسینؓ نے کروائی سب نے آپ کے پیچھے
نماز ادا کی حر بن یزید نے حضرت حسین ؓ سے التماس کیا کہ مجھے آپ کے پاس
رہنے کا حکم ہے یہاں تک کہ کوفہ پہنچا دوں اگر آپ کو منظور نہیں تو راستہ
بدل لیں اگر آپ پسند کریں تو خود بھی یزید یا عبیداﷲ کو لکھئے شاید کوئی
مخلصی کی صورت پیدا ہو جائے اور آپ کے معاملہ میں میں امتحان سے بچ جاؤں ۔
حضرت امام حسینؓ کا کوفہ کی طرف سفر کرنے کا مقصد یزید کی حکومت کا خاتمہ
یا یزید ی حکومت کو اسلامی نظام کے تحت لانا تھاکیونکہ وہ یزید کی حکومت کو
خلافت نہیں سمجھتے تھے وجہ یہ تھی کہ یزید اپنے والد محترم حضرت سیدنا امیر
معاویہ ؓ کی وفات کے بعد اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد خلافت کی اصل رو ح
سے رو گردانی کر چکا تھا شرعی قباحتیں پیدا ہو گئی تھیں اہل کوفہ بھی یزید
کی حکومت پر رضا مند نہ تھے اس لئے حضرت امام حسینؓ نے ابتداسے ہی خلافت
اسلامیہ میں نظام باطل کی آمیزش( بندوں کے بنائے خدائی حدود کے مقابل
قوانین کے اجراء) کے خلاف اعلان بغاوت کیا یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ
سیدنا امیر معاویہ ؓ کی خلافت اور حضرت امیر معاویہؓ کا یزید کو مشاورت سے
خلیفہ مقرر کرنا شرعی اعتبار سے درست تھا اسی لیے امام حسینؓ خاموش رہے
لیکن سیدنا امیر معاویہؓ کی وفات کے بعد جب یزید نے نظام خلافت سے بغاوت کی
تو امام حسینؓ اہل بیت ؓکے ہمراہ میدان عمل میں اتر پڑے اما م حسینؓ کا ایک
خطاب پیش کیا جا رہا ہے جس سے یزید کی پوزیشن واضح ہو جاتی ہے،اے لوگو
!رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا جو کوئی ایسے حاکم کو دیکھے جو ظلم کرتا ہے خدا کی
قائم کی ہوئی حدیں توڑتا ہے احد شکنی کرتا ہے اور دیکھنے والا دیکھنے پر
بھی نا تو اپنے فعل سے اس کی مخالفت کرتا ہے نہ قول سے تواﷲ ایسے لوگوں کو
اچھا ٹھکانہ نہیں بخشے گا دیکھو یہ شیطان کے پیرو بن گئے ہیں رحمان سے سرکش
ہو گئے ہیں فساد ظاہر ہے حدود الٰہی معطل ہیں مال غنیمت پر ناجائز قبضہ ہے
خدا کے حرام کو حلال اور حلال کو حرام ٹھہرایا جا رہا ہے میں ان کی شرکشی
کو حق و عدل سے بدل دینے کا سب سے زیادہ مستحق ہوں تمہارے بے شمار خطو ط و
قاصد میرے پاس پیام بیعت لے کر آئے ہیں تم عہد کرچکے ہو نہ مجھ سے بے وفائی
کرو گے نہ مجھے دشمنوں کے حوالہ کرو گے اگر تم اپنی اس بیعت پر قائم رہو تو
یہ تمہارے لئے راہ ہدایت ہے کیونکہ میں حسینؓ بن علی اورؓ فاطمہؓ کا بیٹا
ہو ں،رسول اﷲﷺ کا نواسہ ہوں میری جان تمہاری جان کے ساتھ ،میرے بچے تمہارے
بال بچوں کے ساتھ ہیں مجھے اپنا نمونہ بناؤ اور مجھ سے گردن نہ موڑو لیکن
اگر ایسا کرو گے بلکہ اپنا عہد توڑ دو اور اپنی گردن میری بیعت سے نکال دو
تو یہ تم سے بعید نہیں تم میرے باپ بھائی اور عمزاد مسلم ؓ کے ساتھ ایسا کر
چکے ہو وہ فریب خردہ ہے جو تم پر بھروسہ کرے لیکن یاد رکھو تم نے اپنا ہی
نقصان کیا اور اب بھی اپنا ہی نقصان کرو گے تم نے اپنا ہی حصہ کھو دیا اپنی
قسمت بگاڑ دی جو بد عہدی کرئے گا جو اپنے خلاف بد عہدی کرئے گا ۔
حر بن یزید آپؓ کے حق میں تھا اور آپؓ کی حفاظت کر رہا تھا چار قاصد کوفہ
سے آپؓ کے پاس آئے اور شہر کی صورت حال سے آگاہ کیا کہ صورت حال ہمارے حق
میں نہیں ہے کاروان اہل بیت ؓکے قاصد قیس بن میسر کو بطور قاصد کوفہ بھیجا
تو عبید اﷲ ابن زیاد نے ان کو قتل کر ڈالا اس کی اطلاع بھی آپؓ کو دی گئی
جس پر آپ ؓ نے حق پر قائم رہنے کی اﷲ کے حضور دعا فرمائی اس خبر کے بعد ابن
زیاد کے نام خط آیا جس نے صورت حال کشیدہ کر دی خط میں آپ پر سختی کا حکم
تھا خط کے اگلے دن عمر بن سعد کوفہ والوں کی چار ہزار فوج لے کر آ پہنچا
عمر نے آتے ہی حضرت حسینؓ کو پیغام بھیجا کہ آپ کیوں تشریف لائے؟ آپ نے وہی
جواب دیا جو حر کو دیا اس پر عمر خوش ہو گئے لیکن دوسری طرف ابن زیاد نے
اہل بیتؓ پر سختی اور بچ کر نہ جانے کا حکم نامہ بھیج دیا یہ پیغام شمر لے
کر آیا حکم نامہ میں یہ تھا کہ اگر عمر بن سعد حکم کی تعمیل نہ کرئے تو اسے
معزول کر کے قیا دت سنبھال لیناحضر ت امام حسینؓ نے کوفی فوج کو تین تجاویز
پیش کیں 1۔مجھے یزید کے پاس لے چلو اپنا معاملہ ان سے مل کر حل کر لوں گا
2۔مجھے کسی اسلامی سرحد پر جانے دیا جائے3۔مجھے مکہ واپس جانے دیا جائے
۔لیکن کوفی فوج یزید کی بیعت یا جنگ پر بضد رہی۔ امام حسینؓ نے بیعت کی
بجائے جنگ کو ترجیح دی۔
حق و صداقت، آزادی و حریت کے ان پیکروں کو مشیت دیکھ کر رشک کر رہی تھی
ملائکہ بھی بنی آدم کے مقصد اولیں کا نظارہ دیکھ کر ورطۂ حیرت میں ڈوبے
ہوئے تھے کیونکہ ایسا پر عزم ، خاندان ِ نبوت کے مقدس نفوس کے کارواں نے اس
طرح جمعیت کی شکل میں دین الٰہی (بقائے خلافت )کے لئے کسی بھی نبی کے اہل
بیت نے خود کو اس طرح پیش نہیں کیا تھا اب وقت عظیم سعادت حاصل کرنے کا
قریب آ رہا تھا وہ سعادت جس کی خواہش امام حسینؓ کے نانا حضرت محمد مصطفیﷺ
نے کی تھی قدرت وہ سعادت اب حضرت حسین ؓ اور اہل بیت کو دینے جا رہی ہے
معرکہ حق و باطل وادی کربلا میں وقوع پذیر ہونے میں بہت قلیل وقت رہ گیا
تھا نظام باطل کے علمبردار یزید کی فوج محافظین نظام خلافت کا گھیراؤ کر
چکی تھی جب دشمن قریب آ گیا تو آپ نے دشمن کو اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر
خطا ب کیا کہ ،لوگو میری بات سنو جلدی نہ کرو اگر میرا عذر معقول ہو اور تم
اسے قبول کر سکو اور میرے ساتھ انصاف کرو تو یہ تمہارے لئے خوش نصیبی کا
باعث ہو گا تم میری مخالفت سے باز آجاؤلیکن اگر سننے کے بعد بھی میرا عذر
قبول نہ کرو اور انصاف سے انکار کر دو تو پھر مجھے کسی بات سے بھی انکار
نہیں ہے تم اور تمہارے ساتھی ایکا کر لو مجھ پر ٹوٹ پڑو مجھے ذرا بھی مہلت
نہ دو میرا اعتماد ہر حال میں پروردگار عالم پر ہے اور وہ نیکو کاروں کا
حامی ہے۔پھر آپ نے ایک لمبی پر مغز تقریر فرمائی،لوگو میرا حسب نسب یاد کرو
سوچو میں کون ہوں، پھر اپنے گریبان میں منہ ڈالواور اپنے ضمیر کا محاسبہ
کرو خوب غور کرو کیا تمہارے لئے میرا قتل کرنا اور میری حرمت کا رشتہ توڑ
ناروا ہے؟ کیا میں تمہارے نبی کی بیٹی کا لڑکا اور اسکے عم زاد کا بیٹا
نہیں ہوں؟ کیا سیدالشہداء حمزہؓ میرے باپ کے چچا نہیں تھے ؟کیا ذوالجنا حین
جعفر الطیارؓ میرے چچا نہیں ہیں؟ کیا تم نے رسول اﷲﷺ کا یہ مشہور قول نہیں
سنا کہ آپﷺ میرے اور میرے بھائی کے حق میں فرماتے ہیں سیدا لشباب اہل ا
لجنۃ (جنت میں نو عمروں کے سردار)اگر میرا یہ بیان سچا ہے اور ضرور سچا ہے
کیونکہ واﷲ میں نے ہوش سنبھالنے سے بعد سے لے کر آج تک کبھی جھوٹ نہیں بولا
تو بتلاؤ کیا تمہیں برہنہ تلواروں سے میرا استقبال کرنا چاہیے؟اگر تم میری
بات کا یقین نہیں کرتے تو ہم میں ایسے لوگ موجود میں جن سے تصدیق کر سکتے
ہو جابر بن عبداﷲؓ سے پوچھو۔ابوسعید خدریؓ سے پوچھو سہل بن سعد ساعدیؓ سے
پوچھو زید ارقم ؓسے پوچھو انس بن مالکؓ سے پوچھو وہ تمہیں بتائیں گے انہوں
نے میر ے اور میرے بھائی کے بارے میں رسول اﷲﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے یا
نہیں؟ کیا یہ بات بھی تمہیں میرا خون بہانے سے نہیں روک سکتی؟ اس وقت روئے
زمین پر بجز میرے کسی نبی کی لڑکی کا بیٹا موجود نہیں میں تمہارے نبیﷺ کا
بلاواسطہ نواسہ ہوں مجھے کس لئے شہیدکرنا چاہتے ہو؟کیا میں نے کسی کی جان
لی ہے کسی کا خون بہایا ہے کسی کا مال چھینا ہے کہو کیابات ہے؟ آخر میرا
قصور کیا ہے؟
آپؓ نے بار بار پوچھا کسی کوفی نے جواب نہیں دیا جنگی صورتحال دیکھ کر زہیر
بن القین اور حربن یزید کو فی لشکر کو خیر باد کہہ کر جانثاران اہل بیت ؓ
میں شامل ہو گے ان دونوں حضرات نے اہلبیت ؓ کے ساتھ مرنے جینے کا عزم کر
لیا کیونکہ ان پر یہ حقیقت منقشف ہو چکی تھی کہ حسین ؓ حق پر ہیں ۔قارئین
کرام خلفائے راشدین ؓ کی فکر کے علمبردار حسینی قافلہ اور طاغوتی نظام کے
علمبردار یزیدی لشکر میں فرداً فرداًلڑائی کا آغاز ہو گیا عبداﷲ بن عمیر
الکلبی پہلے جانثار ہیں جو حسینی لشکر کی نمائندگی کرتے ہوئے میدان جنگ میں
اُترے عبداﷲ کے مقابلے میں دو یزیدی فوجی آئے ان کا کام تمام کر دیا یزیدی
فوج نے حملہ کیا تو لشکر حسینی نے کسی نقصان کے بغیر روک لیا اور وہ بھاگ
گئے اب عام جنگ شروع ہو رہی تھی میدان کربلا میں مسلم بن عوسجہ پہلے شہید
ہیں جنگ میں حر بن یزید نے شیر کی طرح حملے کئے لڑائی پوری ہولناکی سے جاری
تھی اب دوپہر ہو گئی تھی میدان کربلا کی ریت کے ذرے حرارت سے گر م ہو چکے
تھی گرمی اتنی تھی کہ طائر بھی اپنے گھونسلوں سے باہر نکلنے سے اجتناب کر
رہے تھے شدید گرمی اور پانی کی کمی کے باوجود خاندان نبوت کے چشم و چراغ
علم جہاد بلند کئے ہوئے تھے کوئی فوج اس وقت تک غلبہ حاصل نہ کر سکی عمر بن
سعد نے خیموں کو جلانے کا حکم دیا اور خیمے جلا دیئے گئے گمسان کی جنگ میں
کئی طرف داران حسینؓ شہید ہو چکے تھے عبداﷲ بن عمیر الکلبیؓ اورانکی بیوی
ام وہب ؓ بھی شہید ہو چکی تھیں ابو تمامہ عمر وبن عبداﷲ صادری نے خود کو
امام حسینؓ کی حفاظت کے لئے پیش کر دیا تھوڑی دیر کے بعد حسینی قافلے کے
سپہ سالار حبیب بن مظاہر اور حر بھی شہید کر دیئے گئے حضرت کے ساتھیوں نے
ـ"صلوۃ الخوف" ادا کی آپؓ کے لشکر کے سپہ سالار بھی مقابلے کے بعد جام
شہادت نوش کر چکے تھے دو غفاری بھائیوں اور جابری لڑکوں کی شہادت کے بعد
حضرت حنظلہ بن اسعدؓ نے با ٓواز بلند دشمن سے خطاب کیا کہ ،اے قوم! حسینؓ
کو قتل نہ کروایسا نہ ہو کہ اﷲ تم پر عذاب نازل کرئے لیکن اقتدار کے نشے
میں دھت یزیدی فوج کسی کی کوئی بات نہیں سن رہی تھی انہوں نے حنظلہ بن اسعد
کو بھی شہید کر دیا غرض یکے بعد دیگرے تمام اصحاب شہید ہو گئے ان کے بعد اب
اہل بیتؓ اور بنی ہاشم ؓ کی باری تھی سب سے پہلے آپ کے صاحبزادے علی اکبرؓ
سامنے آئے ان کو بھی دشمنوں نے شہید کر دیا ان کے بعد اہل بیتؓ اور بنی
ہاشمؓ کے دوسرے جان فروش شہید ہوتے رہے قاسم ؓبن حسنؓ بن علیؓ بھی امر ہو
گئے اہل بیت ؓ کے شہیدوں کو دیکھ کر اہل بیت ؓکی خواتین نے بلند آواز سے
رونا چیخنا شروع کر دیا حضرت حسین ؓ نے ان سے کہا کہ ماتم نہ کریں شرعی
حدود میں رہیں رسول اﷲﷺ کا اسوہ حسنہ اپنے سامنے رکھیں جب دشمنوں نے حضرت
حسین ؓ کو گھیر لیا آپ شجاعت ثابت قدمی اور بہادری سے لڑتے رہے لڑائی کے
دوران اچانک تیر آیا اور آپ کے خلق میں پیوست ہو گیا آپ نے تیر کھینچ لیا
پھر اپنے ہاتھ منہ کی طرف اُٹھائے تو دونوں چلو خون سے بھر گئے آپؓ نے خون
آسمان کی طرف اچھالا اور خدا کا شکر ادا کیا الٰہی میرا شکوہ تجھ ہی سے ہے
دیکھ تیرے رسول ﷺ کے نواسے ؓسے کیا برتاؤ کیا جا رہا ہے؟ دشمن چاہتا تو آپ
کو بہت پہلے شہید کر ڈالتا مگر یہ گناہ کوئی اپنے سر لینا نہیں چاہتا تھا
آخر شمر ذی الجوشن نے کہا تمہارابرا ہو کیا انتظار کر رہے ہو؟ کیوں کام
نہیں کرتے؟ اب ہر طرف سے نرغہ ہوا آپؓ نے پکار کر کہا کیا میرے قتل پر ایک
دوسرے کو ابھارتے ہو؟ واﷲ میرے بعد کسی بندے کے قتل پر بھی خدا اتنا نا خوش
نہیں ہو گا جتنا میرے قتل پر ناخوش ہو گا۔
مگر اب وقت آ چکا تھا اپنے خالق حقیقی اور اپنے نانامحمدرسولﷺ سے ملنے کا
۔دیکھتے ہی زرعہ بن شریک تمیمی لعنتی نے آپؓ کے ہاتھ کو زخمی کیا پھر شانے
پر تلوار ماری، سنان بن انس نحفی لعنتی نے بڑھ کر نیزہ مارا اور آپ زمین پر
گر گئے اور جام شہادت نوش کر گئے آپ کے جسم پر نیزے کے تینتیس زخم اور
تلوار کے چونتیس گھاؤ تھے سنان بن انس نے ہی آپؓ کا سر تن سے جدا کر کے
خولی بن یزید کے حوالے کیا حضرت امام حسین ؓ نے کربلا کی سرزمین پر قربانی
دے خاک کربلا پر احسان عظیم کیا اسی کے متعلق شاعر نے خوب کہا ہے کہ
اے کربلا کی خاک اس احسان کو نہ بھول تڑپتی ہے تجھ پر لاشِ جگر گوشہ بتولؓ
اسمائے گرامی شہدائے کربلا : آسمان وفا کے وہ 72ستارے یعنی جانثاران امام
حسین ؓ جو آفتاب اہل بیت حضرت امام حسین ؓ اور 18 بنی ہاشم کے ہمراہ زمین
کربلا میں شہادت کے رتبے کو پا کر امر ہو گئے ان میں ۱۔ حضرت امام حسین ؓ،
۲۔ حضرت عباسؓ بن علی ؓ ، ۳۔حضرت علی اکبرؓبن حسین ؓ ؓ ،۴۔َ حضرت علی اصغرؓ
بن حسین ؓ، ۵۔ حضرت عبداﷲؓ بن علیؓ، ۶۔حضرت جعفرؓ بن علی ؓ،۷۔حضرت عثمانؓ
بن علی ؓ ، ۸۔حضرت ابو بکرؓبن علی ؓ، ۹۔حضرت ابوبکر ؓبن حسنؓ بن علی ؓ،
۱۰۔حضرت قاسم ؓبن حسنؓ بن علی ؓ، ۱۱۔حضرت عبداﷲؓ بن حسن ؓ،۱۲۔حضرت عونؓ بن
عبداﷲؓ بن جعفرؓ، ۱۳۔حضرت محمد ؓبن عبداﷲؓ بن جعفر ؓ، ۱۴۔حضرت عبداﷲ ؓ بن
مسلم ؓبن عقیل ؓ،۱۵۔حضرت محمدؓبن مسلمؓ،۱۶۔حضرت محمد ؓبن سعیدؓ بن عقیل
ؓ،۱۷۔حضرت عبدالرحمان ؓ بن عقیلؓ،۱۸،حضرت جعفر ؓ بن عقیل ؓ،۱۹۔حضرت انس ؓ
بن حارث ؓ،۲۰۔حضرت حبیب بن مظاہر ؓ، ۲۱،حضرت مسلم بن عوسجہ الاسدیؓ،۲۲۔حضرت
قیس بن مشاہرؓ ،۲۳۔حضرت ابو ثمامہ عمروبن عبداﷲؓ،۲۴۔حضرت بور یرہمدانی
ؓ،۲۵۔حضرت حنالہ بن عمرؓ،۲۶۔حضرت عابس الشاکری ؓ،۲۷۔ حضرت عبدالرحمان راہبی
ؓ، ۲۸۔حضرت سیف بن مالک العبدیؓ،۲۹۔حضرت عمر بن عبداﷲ ہمدانی ؓ،۳۰۔حضرت
حضرت شوذب بن عبداﷲ الہمدانیؓ،۳۱۔ حضرت جنادہ بن حارث السلمانیؓ،۳۲۔حضرت
مجمع بن عبداﷲ العامذیؓ ،۳۳۔حضرت نافع بن ہلال الجملیؓ،۳۴۔حضرت حجاج بن
مسروق المدحجیؓ،۳۵۔حضرت عمربن قرظتہ الانصاریؓ،۳۶۔حضرت عبدالرحمان
الارجبیؓ،۳۷۔حضرت جنادہ بن کعب الخزرجیؓ،۳۸۔ حضرت عمر بن جنادالانصاری
ؓ،۳۹۔حضرت نعیم بن العجلان الانصاریؓ،۴۰۔حضرت سعد بن حنظلہ
التمیمیؓ،۴۱۔حضرت زہیر ابن قینؓ،۴۲۔حضرت سلمان بن مضارب الانماری ؓ،۴۳۔
حضرت سوید بن عمارالاتماریؓ، ۴۴۔ حضرت عبداﷲ بن بشر الخثعمی،۴۵۔حضرت یزید
بن زیاد الہدلیؓ،۴۶۔حضرت حارث بن عمر والقیس الکندی ؓ،۴۷۔حضرت زاہربن عمر
الکندیؓ،۴۸۔حضرت بشر بن عمر الکندیؓ،۴۹۔ حضرت عبداﷲ بن عروہ الغفاری ؓ، ۵۰۔
حضرت جون بن حوی غلام الغفاری،۵۱۔حضرت عبداﷲ بن عمیر الکلبیؓ،۵۲۔حضرت عبداﷲ
بن یزید العبدی ؓ،۵۳۔حضرت سالم بن عامر العبدیؓ، ۵۴۔حضرت قاسم بن حبیب
ؓ،۵۵۔ حضرت زہیر بن سلیم الازدی ؓ، ۵۶۔حضرت نعمان بن عمر الراسبیؓ،۵۷۔حضرت
یزید بن شبیت ؓ،۵۸۔حضرت امر بن مسلم العبدی ؓ،۵۹۔حضرت سیف بن مالک ؓ،
۶۰۔حضرت جابربن حجازجی ؓ، ۶۱۔حضرت مسعود بن حجاج التیمیؓ،۶۲۔حضرت
عبدالرحمان بن عروہ الغفاریؓ،۶۳۔حضرت باقر بن حئیؓ، ۶۴۔حضرت عمار بن حسان
الطائیؓ، ۶۵۔حضرت ضرغامہ بن مالک التغلبیؓ، ۶۶۔حضرت کنانہ بن عتیق
التغلبیؓ،۶۷۔حضرت حجاج بن بدر التیمیمی السعدی،۶۸۔حضرت حربن یزید
الریاحیؓ،،۶۹۔حضرت حابلہ بن علی الشیبانیؓ،۷۰۔حضرت قناب بن عمرؓ،۷۱۔حضرت
عبداﷲ یقطرؓ،۷۲۔حضرت غلام ترکی ؓ۔ |
|