ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین ؓ

محرم کے مہینے کا آغاز ہو چکا ہے ۔محرم اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے ۔ محرم کے آغاز کے ساتھ ہی حضرت امام عالی مقام سیدنا امام حسین ؓ کی بے مثال اور عظیم قربانی کی یا د تازہ ہو جاتی ہے ۔ محرم الحرام میں ہونے والا یہ واقعہ رہتی تاریخ تک زندہ رہے گا ۔ حضرت امام حسین ؓ اور یزید کی جنگ جو درحقیقت معرکہ ء حق و باطل تھی ۔ بہتر اصحاب کا مقابلہ ایک ہزار افراد سے تھا ۔ یہ جنگ نہ تو حکومت کے لیے تھی اور نہ ہی اس جنگ کا مقصد دنیاوی جاہ و جلال تھا بلکہ یہ جنگ دین کی سربلندی اور بقاء کے لیے لڑی گئی ۔

دین ابراہیمی کا آغاز قربانی سے ہوا جب ایک عظیم باپ نے حکم ِ خداوندی کو پورا کرنے کے لیے اپنے عزیز از جان بیٹے کو اپنے ہاتھوں سے قربان کرنے کا قصد کیا ۔ اﷲکے حکم کی تکمیل کی خاطر کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کرنے کی یہ اعلیٰ ترین مثال ہے ۔اﷲ نے اس قربانی کو قبول فرما کر حضرت اسماعیل ؓ کو بچا کر ان کی جگہ جنت سے مینڈھا بھیج کر اس کو حضرت ابراہیمؓ کے ہاتھوں ذبح کروایا جب یہ دین ابراہیمی اپنی انتہا کو پہنچا تو قربانی کے لیے نواساء رسولﷺ ، جگر گوشہء بتول، اور ان کے خاندان کا انتخاب کیا گیا ، دین کی سربلندی کے لیے ان اصحاب نے قربانی کا حق ادا کیا ۔خود سے تعداد میں کہیں زیادہ افراد کے ساتھ صرف اور صرف دین کی بقاء کی خاطر لڑ جانا ، شہید ہو جانا ، یہاں تک کہ چھ ماہ کے بچے بھی شہاد ت کے لیے پیش کر دینا صرف اور صرف امام عالی مقام ہی کا ظرف ہے ۔اﷲ نے قربانی قبول فرمائی اور خانوادہ ء رسول ﷺ کے تمام سپوتوں نے جام شہادت نوش کیا ۔

بظاہر اس جنگ میں یزید کو کامیابی حاصل ہوئی لیکن درحقیقت امام عالی مقام ؓ اور ان کے خانوادے کے خون نے دین کی سرزمین کو اپنے لہو سے سینچ کر یہ ثابت کر دیا کہ حق کبھی جھکتا نہیں ، کبھی بکتا نہیں ۔ جہاں دین کی سربلند ی منظور ہو وہاں عارضی حیات کوئی معنی نہیں رکھتی ۔ اس عارضی حیات پر ابدی زندگی کو فوقیت دینے والے درحقیقت امر ہو جاتے ہیں ۔ حضرت امام حسین ؓ کی ذات ِ بابرکات صرف مسلمانوں ہی کے لیے نہیں بلکہ اقوام ِ عالم کے لیے مشعل ِ راہ ہے ۔ تمام مذاہب کے راہنماؤں، دنیا میں کامیاب ترین تحریکوں کے بانیوں نے امام عالی مقام ؓ کی ذات سے فیض حاصل کر کے اپنے پیروکاروں کو ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی ہدایت کی ۔

حضرت امام حسین ؓ کی ذات بابرکت کے بارے میں سکھ مذہب کے پیشوا بابا گرو نانک کا ایک واقعہ بیان کرتی چلوں ۔ بابا گرو نانک نے ایک دن اپنے مرید سے کہا ـ۔" حسینؓ کا غم منایا کر"و۔ مرید نے حیران ہو کر کہا ۔" نہیں ۔ وہ تو مسلمانوں کے پیشوا ہیں "۔ باباجی نے کہا ۔"تم میرے مرید ہو میں تمھیں حکم دیتا ہوں کہ گھر جاؤ اور اپنی بہن سے شادی کرؤ "۔ مرید نے پریشان ہو کر کہا ۔ "بابا جی ! میرا ضمیر اجازت نہیں دیتا" ۔ باباجی مسکرائے اور بورے ۔" ارے پاگل اس ضمیر کو تو حسین کہتے ہیں ۔ حسین ؓ مسلمانوں کے نہیں ضمیر والوں کے گروہیں" ۔

صرف مذہبی پیشواؤں کا ذکر ہی کیا موقوف حضرت امام عالی مقام ؓ کی ذات بابرکات دنیا کی بڑی بڑی تحرکوں کے بانی نیلسن منڈیلا نے اپنی تحریک کی کامیابی کے لیے مشعل ِراہ امام عالی مقام کو بناتے ہوئے کہا "میں نے بیس سال جیل میں گزارے ایک رات میں نے فیصلہ کیا کہ میں حکومت کے تمام شرائط و ضوابط پر دستخط کر کے ہار مان لوں لیکن اسی لمحے مجھے امام حسین ؓ اور کربلا کے لمحات کا خیال آیا ۔ امام حسین ؓ نے مجھے آزادی اور حق ِ خود ارادیت کے لیے طاقت دی اور میں لڑا "۔ نیلسن منڈیلا کی اس تحریر نے ثابت کیا کہ کسی واقعہ کو لکھ لینا ، اس قر بانی کا غم منا لینا ،ہی کافی نہیں بلکہ اس واقعہ سے سبق سیکھ کر اس پر عمل کر لینا ہی اصل کامیابی ہے ۔یہی نہیں ہندوں کے راہنما ماہتاما گاندھی نے کہا ".میں نے حسین سے سیکھا کہ مظلوم ہوتے ہوئے کامیابی کیسے حاصل کی جائے "

تھامس کریل کا کہنا ہے کہ ہمیں کربلا کے سانحہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ اگر دل میں خدا کی سچی محبت موجود ہو تو عددی برتری حق اور باطل کی جنگ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی ۔ عددی اعتبار سے اتنا فرق اور حسین ؓ کی فتح عجائبات میں سے ایک ہے ۔ڈاکڑ علامہ محمد اقبال کی امام عالی مقام ؓ سے محبت سے کون واقف نہیں ۔
بیان اگر سرِ شہادت کی تفسیر ہو جائے
مسلمانوں کا قبلہ روضہ ء شبیر ہو جائے
مسجد کی صفوں سے کبھی مقتل کی طرف دیکھ
توحید تجھے شبیر کے سجدوں میں ملے گی
مٹا دو ظلم جہاں جہاں بھی دکھے
اس سے بہتر نہیں ہو گا انتقام ِ حسینؓ

حضرتؓ کی یزید سے جنگ ، حق پر ڈٹ جانا یہاں تک کہ اپنی جان کی پرواہ نہ کرنا ، دین کی خاطر اپنی آخری سانس تک نہ جھکنا ، نہ بکنا وہ تمام اوصاف ہیں جو اگر آج کے مسلمان میں پیدا ہو جائیں تو اسلام پھر سے سربلندی حاصل کر سکتا ہے ۔ ہماری پستی کی وجہ ہی یہی ہے کہ ہم نے اپنے اسلاف کے کارنامے یاد تو رکھے ، ان کارناموں کو تاریخ میں درج بھی کیا ، اپنی نسلوں کو بھی ان کے کارنامے سنائے اپنے اسلاف کے اوصاف کو سنایا لیکن ان اوصاف کو اپنایا نہیں ۔ ہمارے حکمرانوں سے لیکر عوام تک مغرب کے پروردہ ہیں ۔ اس کے برعکس غیر مسلموں نے ہمارے اسلاف کے اوصاف کو اپنا کر دنیا میں سربلندی حاصل کی ۔ آج اقوام ِ عالم میں مسلمان جن پستیوں کا شکار ہیں اس کا سبب کوئی اور نہیں خود مسلمان ہیں جن کی صفوں میں میر جعفر ، میر صادق اور یزید جیسے حکمران موجود ہیں جو اپنی آخرت کو بھلا کر صرف اور صرف دنیا کی خاطر ایمان اور ضمیر بیچ چکے ہیں ۔اگر مسلمان حکمرانوں کا ضمیر زندہ ہوتا تو دنیا میں کہیں مسلمان ظلم و ستم کا شکار نہ ہوتے ۔ فلسطین اور کشمیر کے مسلمان صرف اسی وجہ سے آج ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے ہیں کہ ان کے مسلمان بھائی ان کی مدد کرنے کو تیار نہیں ۔ برما میں مسلمانوں کا بربریت سے قتل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دنیا میں حضرت ِ شبیرؓ کے ماننے والے والے تو بہت ہیں لیکن ان نقشِ پا ء پر چلنے والا کوئی نہیں ۔

حالات کا تقاضا ہے کہ مسلمان اپنی صفوں کو درست کریں ، اپنی صفوں میں موجود میر جعفر اور میر صادق کو پہچان کر ان کا قلعہ قمع کر یں ۔ ان بہتر کے لشکر کی طرح کفر کے مقابلے میں ڈٹ جائیں ۔تاکہ کسی میں مسلمانوں کی طرف میلی آنکھوں سے دیکھنے کی جرات باقی نہ رہے ۔
 
Maemuna Sadaf
About the Author: Maemuna Sadaf Read More Articles by Maemuna Sadaf: 165 Articles with 164357 views i write what i feel .. View More