مقام اہلبیت عظام ؓ

اﷲ تعالی نے تمام انسانوں کی رہنمائی کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی و رسول اس دنیا میں مبعوث فرمائے درجہ بدرجہ ان کے مراتب بھی مقرر فرمائے انبیاء کا سردار سیدنا محمد مصطفی احمد مجتبی ﷺ کوبنایا امت محمدیہ کو ساری امتوں کا سردار قرار دیا انبیاء کرام کے بعد صحابہ کرام ؓ کی عظیم جماعت کا مقام اعلیٰ و ارفع ہے۔ صحابی رسول ؓ اس ہستی کو کہتے ہیں جس نے ایمان کی حالت میں اپنی زندگی میں آقائے نامدار ﷺ کا دیدار کیا ہو یا آپ ﷺ کی مجلس پائی ہو ،اس کارخانہ کائنات میں صحابہ کرام ؓ میں سے ایک مقدس گروہ اہلبیت ؓکاہے اہلبیتؓ سے مراد وہ اہل ایمان جو حضور ﷺ کے اہل خانہ ،(گھر والے) تھے یعنی آپ ﷺ کی بیویاں ،بیٹے ۔۔۔۔۔ حضور ﷺ کی دلی خواش تھی کہ اﷲ تعالیٰ حضرت فاطمہ ؓ ،حضرت علی ؓ،حضرت حسن ؓ، حضرت حسین ؓ حضرت سلمان فارسی ؓ ،حضرت زید ؓ ۔۔۔۔۔ کو بھی اہلبیت میں شامل فرمالیں ،نبی اکرم ﷺ کی اس دعا کو اﷲ تعالی نے قبول فرما لیا اور ان حضرات کو بھی اہلبیت ؓ میں شامل کردیا گیااس طرح آقائے دوجہاں ﷺ کی خواہش کی تکمیل فرمادی گئی قرآن کہتا ہے کہ ـ ـ ترجمہ: اﷲ تو یہی چاہتا ہے کہ(نبی کریم ﷺ) کے گھر والو! تم سے ہرناپاکی کو دور رکھے اور تمھیں خوب پاک کر کے صاف رکھے (الاحزاب33)۔
حضرت امام حسن ؓ،حضرت امام حسین ؓ ،شہدائے کربلاؓکی شان فضائل،منقبت،رفعت بیان کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اہلبیت عظام ؓ کا متفرق مقام و مرتبہ نبی کریم ﷺ کے ارشادات کی روشنی میں کیا جائے تاکہ اہل ایمان کے دل میں محبت اہلبیتؓ کے ذخیرہ میں اضافہ ہو ۔

٭آقا مدنی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا اپنی اولاد کو تین خصلتیں سیکھاؤ اپنے نبی ﷺ کی محبت،اہل بیتؓ کی محبت اور قرآن ۔
٭جب آقا ئے نامدار ﷺ نجران کے عیسائیوں سے مباہلہ کے لئے تشریف لیجانے لگے تو حضور ﷺ نے اپنی لاڈلی ،نور نظر، لخت جگر سیدہ فاطمہؓ ،حضرت علیؓ،حضرت حسنؓ،حضرت حسین ؓ ؓکو ساتھ لیکر نصاریٰ نجران کے ساتھ مباہلے کیلئے تشریف لے گئے تو اس وقت بھی آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے اﷲ ! یہ میرے اہل بیت ؓ ہیں چنانچہ نصاریٰ کے پادری نے جب نورانی چہروں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ اے ساتھیو! بے شک ایسے چہرے والے دیکھ رہاہوں کہ اگر یہ اﷲ پاک سے سوال کریں کہ وہ پہاڑوں کو اپنی جگہ ہٹادے تواﷲ تعالیٰ انکی دعا کی برکت سے پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہٹا دیں گے ان سے مباہلہ نہ کرو ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے اور روئے زمین پر قیامت تک کوئی نصرانی باقی نہ رہے گا ۔
٭حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ حضور ﷺ صبح کے وقت ایک اُونی منقش چادر اُوڑھے ہوئے باہر تشریف لائے انکے پاس حضرت حسن ؓ آئے تو آپ ﷺ نے انھیں اس چادر میں داخل فرما لیا پھر حضرت حسین ؓ آئے اور وہ بھی انکے ہمراہ چادر میں داخل ہوگئے پھر سیدہ فاطمہ ؓ آئیں انھیں بھی چادر میں داخل کرلیا پھر حضرت علی ؓ آئے تو آپ ﷺ نے انھیں بھی چادر میں داخل کرلیاپھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی ـ اﷲ تعالی تو یہی چاہتا ہے کہ (اے نبی کریم ﷺکے ) گھر والو!تم سے ہر ناپاکی کو دور رکھے اور تمھیں خوب پاک صاف کردے ۔(مسلم)
٭حضرت ابو سعید خدری ؓ فرماتے ہیں کہ آقائے دوجہاں ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے جس کسی نے میرے اہل بیتؓ سے بغض رکھا اﷲ پاک اس کو جہنم میں داخل کرے گا
٭حضرت عبداﷲ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ میرے اہل بیت ؓ کی مثال نوح کی کشتی کی طرح ہے جو اس میں سوار ہوگیا وہ نجات پا گیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا وہ غرق ہو گیا ۔

امام شافعی ؒ کا ارشاد
امام شافعی ؒ کا ارشاد ہے کہ اور جب میں نے لوگوں کو دیکھا کہ بیشک وہ ان لوگوں کی روش پر چل رہے ہیں جو ایک ہلاکت اور جہالت کے سمندروں میں غرق ہیں تو میں اﷲ کا نام لیکر نجات کے سفینوں میں سوار ہوگیا وہ نجات کے سفینے نبی اکرم ﷺ کے اہل بیتؓ ہیں اور میں نے اﷲ کی رسی کو تھام لیا اور وہ انکی محبت ہے جیسا کہ ہمیں اسی کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا گیا ہے۔

مندرجہ بالا فرامین رسول ﷺ اور امام شافعی ؒ کا فرمان اہل ایمان کو درس عظیم دے رہا ہے کہ اہل بیت ؓ کی محبت ایمان ہے جس کے دل میں اس طبقہ کی محبت نہیں وہ اہل ایمان نہیں بلکہ اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔اے اہل ایمان !اپنے ایمان کی آبیاری محبت و عشق اہل بیت ؓ سے کر یہی راہ نجات ہے ۔

حضرت امام حسن ؓ اور حضرت امام عالی مقام سیدنا حسین ؓ کی پیدائش
حضور ﷺ کے بڑے نواسے حضرت امام حسن ؓ ہیں آپ ؓ 3 ہجری کو پیدا ہوئے جبکہ ا،مام حسین ؓ 5شعبان4ہجری کو مدینتہ الرسول ﷺ میں پیدا ہوئے اور اسی دن عقیقہ کیا فرمان رسول ﷺ ہے کہ حضرت ہارون نے اپنے بیٹوں کا نام شبیر وشبر رکھا میں نے بیٹوں کا نام انہی کے نام پر حسن ؓو حسینؓ رکھا ،آپ ؓ کی گھٹی میں لعاب رسول اور کانوں میں اذان صورت میں صدائے رسالتﷺ گھونجی ۔

حسنین کریمین ؓکی فضلیت میں ارشادات نبوی ﷺ
٭حضور ﷺ نے حضرت حسن ؓ کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ یہ میرا بیٹا مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح کروائے گا۔
٭وصال رسول ﷺ سے چند دن قبل حضرت سیدہ فاطمہ حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ! اپنے بیٹوں کو بھی کچھ عنائیت فرما دیں تو ارشاد فرمایا حسنؓ کو اپنا حلم اور حسین ؓ کو اپنی شجاعت و کرم بخشتا ہوں۔
٭ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ جس نے ان دونوں (حسنین کریمین ؓ ) سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا ۔
٭حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک بار رسول اﷲ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے حضرت حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ بھی آپ ﷺ کے ساتھ تھے آپ ﷺ نے ایک کندھے پر حضرت امام حسین ؓ اور دوسرے پر امام حسین ؓ کو اٹھا یا ہوا تھا آپ ﷺ کبھی حضرت حسن ؓ کو چومتے اور کبھی سیدنا امام حسین ؓ کو چومتے آرہے تھے آپ ﷺ ہمارے پاس پہنچ گئے ایک شخص نے پوچھا یا رسول اﷲ ﷺ ! کیا آپ ﷺ کو ان (سیدنا حسنین کریمین ؓ) سے محبت ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا جس نے ان محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی جس نے ان سے عداوت کی اس نے مجھ سے عداوت کی ۔
٭حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ ! صبح کی نماز کیلئے نکلے تو چھ ماہ روزانہ حضرت سیدہ فاطمہؓ کے گھر کے قریب سے گزرتے اور فرماتے اے اہل بیتؓ ! نماز قائم کرو اﷲ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم سے نجاست کو دور رکھے اور تم کو پاک صاف کردے ۔
٭حضرت بریدہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ ہم سے خطاب فرما رہے تھے کی اچانک حضرت حسنؓ اور حضرت حسین ؓ سرخ قمیض زیب تن کئے گرتے پڑتے آگئے رسول اﷲ ﷺ منبر سے اترے اور انھیں اٹھا لیا اور اپنے سامنے بیٹھا کر فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد تو ایک آزمائش ہے میں ﷺ نے ان بچوں کو لڑکھڑاتے دیکھا تو مجھ سے رہا نہ گیا اور اپنی بات قطع کرکے انہیں اٹھا لیا۔
٭آمنہ کے در یتیم ﷺ نے فرمایا حسنؓ اور حسینؓ نوجوانان جنت کے سردار ہیں۔
٭حضور ﷺ نے حسنین کریمین ؓ کو سینہ مبارک سے لپیٹا ہوا ہے اور فرما رہے ہیں اے میرے اﷲ ! مجھے ان سے محبت ہے تو بھی ان سے محبت کر۔
٭حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ہم رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھ رہے تھے جب آپ ﷺ سجدے میں گئے تو حسن ؓ اور حسین ؓ کود کر آپ ﷺ کی پیٹھ مبارک پر بیٹھ گئے جب آپ ؓ نے سجدہ سے سر اٹھایا تو ان دونوں کو پکڑ کر آرام سے نیچے بیٹھا دیا آپ ﷺ دوبارہ سجدے میں گئے تو پھر دونوں پہلے کی طرح کود کر آپ ﷺ کی پیٹھ مبارک پر سوار ہوگئے حتیٰ کہ آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے ان کو گود میں بیٹھا لیا ،حضرت ابو ہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ کیا میں انہیں انکی ماں کے پاس چھوڑ آؤں اسی اثناء میں بجلی چمکی تو آپ ﷺ نے فرمایا اپنی ماں کے پاس چلے جاؤحضرت ابو ہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ حسن ؓ اور حسین ؓ کے اپنی ماں تک پہنچنے تک بجلی کی روشنی قائم رہی ۔
٭حضور ﷺ نے فرمایا حسین منی انا من الحسین ( حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں )

حضور اکرم ﷺ کے آنسو
حضرت بی بی ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ پیغمبر اسلامﷺ ؓ امام حسین ؓ کو اپنے سینہ اقدس پر لٹا کر پیار فرما رہے تھے اور اس کے ساتھ روبھی رہے تھے وہ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا یارسول اﷲ ﷺ رونے کا سبب کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اے ام سلمہ ! ابھی جبرائیل وحی لیکر آئے تھے اور ساتھ یہ مٹی بھی لائے تھے اور کہا کہ آپ ﷺ کا یہ نواسہ ؓ تین دن بھوکا پیاسا میدان کربلا میں شہید کردیا جائے گا ام سلمہ ؓ یہ مٹی اسی جگہ کی ہے اسے حفاظت سے رکھنا اور جس دن یہ مٹی سرخ ہوجائے تو سمجھ لینا میرا نواسہ شہید ہوگیا ہے ام سلمہ ؓ نے ایک شیشی میں وہ مٹی ڈال دی ان کا روزانہ کامعمول تھا کہ اس شیشی پر نگاہ کرتیں عاشورہ محرم الحرام کے دن قریب عصر ام سلمہ ؓ نے پیغمبر اسلام ﷺ کو خواب میں دیکھا بہت پریشان ہیں سراقدس پرعمامہ مبارک نہیں ہے اور خاک آلود ہیں عرض کیا یارسول اﷲ ﷺ آپ ﷺ کی یہ کیفیت کیا ہے ؟ فرمایا تمہیں معلوم نہیں میرا نواسہ حسین ؓ کربلامیں شہید ہوگیا ہے ،ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں گھبرا کر بیدار ہوئی اب جو شیشی پر نگاہ پڑھی تو دیکھا وہ خون آلود ہوچکی تھی۔

عہد خلافت راشدہ ؓ اور اہل بیت ؓ
خلفائے راشدین ؓ کے عہد میں اہل بیت ؓ کی بہت تعظیم کی جاتی تھی خلفائے راشدین ؓ اہل بیت ؓ کا بہت احترام کرتے تھے تاریخ اسلام بے شمار ایسے واقعات پر شاہد ہے جن سے یہ حقیقت آشکارا ہوتی ہے کہ خلفائے راشدین ؓ اور اہل بیت عظام ؓ کے درمیان بہت پیارو محبت ،ادب واحترام کا لازوال رشتہ تھا خلیفتہ الرسول ،خلیفۂ بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کا فرمان عالیشان ہے کہ بیٹا علی ؓ کا مشابہ نبی کریم ﷺ کے ہے ۔اپنے عہد میں سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے حیرہ کے علاقہ کے فتح پر قیمتی چادر حضرت خالد بن ولید ؓ کے ہاتھوں حضرت امام حسین ؓ کی خدمت میں تحفہ پیش کی جسے آپ ؓ نے قبول فرمالیا ،حسنین کریمین ؓ ،حضرت فاطمہ ؓ کو عہد صدیقی و فاروقی میں خصوصی پروٹوکول دیا گیا سیدنا علی المرتضی ؓ چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہے امام عدل و حریت خلیفہ ثانی سیدنا فاروق اعظم ؓ نے سیدنا حسنین کریمین ؓ کو اپنے عہد میں بدری صحابہ ؓ کے برابر وظائف جاری فرمائے۔

ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق ؓ کے صاحبزادے سیدنا حسین ؓ سے اپنے بچپن میں الجھ پڑے تو امام حسین ؓ نے ان سے کہا کہ تو ہمارے غلام کا بیٹا ہے یہی الفاظ ابن عمر ؓ نے بطور شکایت سیدنا عمر فاروق ؓ کو بتلائے تو خلیفہ ثانی نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اے میرے بیٹے امام حسین ؓ کے پاس جاؤ اور ان سے کہہ دو کہ یہی الفاظ تحریر کر کے نیچے اپنے دستخط کردیں حضرت امام حسین ؓ نے ابن عمر ؓ کے مطالبے پر وہی الفاظ تحریر کردئیے جب تحریر حضرت عمر ؓ کے پاس پہنچی تو آپ ؓ نے اس تحریر کو چوما اور سر پر رکھ کر فرمانے لگے بیٹے جب میں دنیا سے رخصت ہوجاؤں تو میری میت کے ساتھ میرے سینے پر اس تحریر کو بھی رکھ دینا جب فرشتے پوچھیں گے تم کون ہو ؟ تو میں جواب دوں گا میں اس گھرانے(اہل بیت ؓ)
کا غلام ہوں۔ سبحان اﷲ

عہد فاروقی میں جب ملک قصریٰ سے شہزادی شہربانو مال غنیمت میں آئیں تو شوریٰ نے فیصلہ کیا کہ اس شہزادی کی شادی شہزادے کے ساتھ کردی جائے ساتھ ہی حضرت عمر ؓ سے اپنے بیٹے سے نکاح کرنے کا بھی کہا گیا تو اس پر حضرت عمر ؓ نے فرمایا ہمارے پاس ایک حقیقی شہزادہ بھی ہے جسکی عزت و توقیر میرے بیٹے سے کہیں زیادہ ہے اس شہزادی کا نکاح اس شہزادے کے ساتھ ہونا چاہئے استفسار پر حضرت عمر ؓ نے فرمایا وہ شہزادہ حضرت امام حسین ؓ ہے اس کے بعدشہربانو کا نکاح حضرت امام حسین ؓ سے کردیاگیا۔

جب خلیفہ ثالث سیدنا عثمان ؓذوالنورین ؓ کے مکان کا بلوائیوں نے گھراؤ کرلیا تو دروازے پر حضرت امام حسین ؓ اور حضرت امام حسن ؓ نے پہرہ دیابلوائیوں کودروازے سے حملہ کرنے کی جرات نہ ہوئی تو مکان کے پیچھے سے حملہ کرکے خلیفہ ثالث سیدنا عثمان ؓ کو شہید کردیا مندرجہ بالا واقعات اس امر کا بین ثبوت ہیں کہ خلفائے راشدین ؓ اور اہل بیت عظام ؓ میں محبت واحترام کا رشتہ تھا ان مقدس ہستیوں میں اختلا ف کا واویلاکرنے والے جھوٹے ہیں ۔ اہل ایمان کو ان اسلام دشمنوں کے جھوٹے پروپیگنڈے کی طرف توجہ نہیں دینی چاہیے۔

سیدنا حسنین کریمین ؓ اور حضرت سیدنا امیر معاویہ ؓ
رسول اﷲ ﷺ کے عظیم المرتبت نواسوںؓ سے سیدنا امیر معاویہ ؓ کا بھی( قرآن کی آیت کی روشنی کہ صحابہ کرام ؓ آپس میں محبت کرنے والے ،نرم دل اور کفار کے مقابلے میں سخت ہیں ) اخوت و بھائی چارے،محبت وپیار،ادب واحترام کا تعلق تھاحضرت امام حسین ؓ کا خلیفہ پنجم سیدنا امیر معاویہؓ کے حق میں دستبردار ہوکر رضا مندی سے خلافت کا منصب ان ؓ کے سپرد کرنا ،امام حسین ؓ کا 12سال تک عہد سیدنا امیر معاویہ ؓ کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا اور اسلامی نظام خلافت کے بنیادی اصولوں اور اقدار سے ہٹ جانے والے یزید کے خلاف اعلان بغاوت کرنا اس حقیقت کا زندہ وجاوید ثبوت ہے کہ کہ سیدہ فاطمتہ الزہرہ ؓ کے جگر گوشےؓ کے نزدیک سیدنا امیر معاویہ ؓ کا عہد خلافت اسلام کے نظام خلافت کا آئینہ دار تھاعہد سیدنا معاویہ ؓ میں بھی شیرخدا حضرت علی ؓ کے صاحبزادگان وظیفہ لیتے رہے لیکن جب یزید نے اسلامی نظام خلافت سے منہ پھیرا تو حضرت امام حسین ؓ سینہ سپر ہوگئے واْضح رہے کہ مسلمانوں پر حضرت امیر معاویہ ؓ کی وکالت کرنا فرض ہے کیونکہ ان کی خلافت و حکومت کو سیدنا امام حسین ؓ نے قبول کیا ،سیدنا امیر معاویہ ؓ صحابی رسول ہیں انکی منقبت میں متعدد ارشادت نبوی وارد ہوئے ہیں ایک اعزاز سیدنا امیر معاویہ ؓ کو کاتب وہی ہونے کا بھی حاصل ہے اسلام یزید کی مزمت کا حکم دیتا ہے لیکن ساتھ ہی سیدنا امیر معاویہؓ سمیت کسی بھی صحابی ؓکی شان میں گستاخی کرنے والے کو دائرہ اسلام سے خارج اور دنیا و آخرت میں ناکام ونامرادقرار دیتا ہے کیونکہ بیٹے کی غلط کاریاں باپ کے ذمہ ڈالنا خلاف شرع ہے جس طرح حضرت نوح اپنے بیٹے کی غلط کاریوں کے ذمہ دار نہیں اسی طرح سیدنا امیر معاویہ ؓ بھی اپنے بیٹے یزید کی غلط کاریوں سے بری الذمہ ہیں۔

حدیث قسطنطیہ اور یزید
عمیرؓ بن اسود عنسی کہتے ہیں کہ وہ عبادہ بن صامتؓ کی خدمت میں آئے وہ حمص کے ساحل پر اپنی عمارت میں اترے ہوئے تھے اور انکے ساتھ ان کی اہلیہ ّبنت ملحان بھی تھیں عمیر ؓ کہتے ہیں ان سے ام حرام ؓ نے یہ حدیث نکل کی کہ انہوں نے رسول اﷲ ﷺ سے سنا ،فرماتے تھے کہ پہلا لشکر میری امت میں جو بحری جہاد کرے گا (اس نے خود پر جنت کو) واجب کرلیاام حرام ؓ نے عرض کیا یارسول اﷲ ﷺ میں ان سے ہوں نبی پاک ﷺ نے فرمایا تو ان میں ہے پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا میری امت میں جو قیصر کے شہر پر حملہ کرے گا بخش دیا جائے گاام حرام ؓ نے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ میں ان میں ہوں ؟ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا نہیں۔(بخاری شریف 2924)

اس حدیث کی روشنی میں چند نادان لوگ جان بوجھ کر یا مغالطے سے یزید کو بھی اس حدیث کا مصداق ٹھہراتے ہیں کہ یزید اس لشکر میں شامل تھاحقیقت اس کے برعکس ہے اس ظالم ،بدبخت ،یزید کی پیدائش وکی پیڈیا کے مطابق 11شوال26ہجری بمطابق 23 جولائی647عیسوی ہے جبکہ اس شہر پر پہلی لشکر کشی عہد عثمانی میں حضرت سیدنا امیر معاویہ ؓ نے 32ہجری دوسری مرتبہ43ہجری ،تیسری مرتبہ44ہجری اور چوتھی مرتبہ46 ہجری کو ہوئی ان لشکروں میں یزید ہرگز شامل نہیں تھا ہا ں البتہ 50 ہجری کی لشکر کشی جسے حضرت معاویہ ؓ نے حضرت سفیان بن عوف ؓ کی قیادت میں بلاد روم پر حملہ کرنے بھیجا اپنے بیٹے یزید کو بھی ان کے ساتھ جانے کا کہا مگر وہ ساتھ نہ گیا اور آرام طلبی کو پسند کیا تو سیدنا امیر معاویہ ؓ نے قسم اٹھا لی کہ اب اپنے بیٹے یزید کو ہر حال میں بھیجے گا تاکہ مجاہدین کی طرح اسے بھی مصائب پہنچیں پھر اسے جبرا جانا پڑا ۔حدیث میں تو پہلے لشکر کا تذکرہ ہے اگر بالفرض اس لشکر کو بھی پہلا لشکر مان لیا جائے تو یزید اس کا حصہ نہ تھا کیونکہ اسے مجبورا جانا پڑا خوشی سے نہیں ۔یزید کی بے جا حمایت کرنے والے اب بھی اپنا قبلہ درست کرلیں تو اب بھی ہدایت کی سبیل نکل سکتی ہے۔
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 244824 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.