یکساں سول کوڈکا نفاذ :
(Iftikhar Rahmani, India)
موت کھولے ہے منھ گویا!
ملک کی جمہوریت کی شام ہوچکی، بھگوائیت اور برہمنیت نئے زاویے اور مختلف
النوع جہات سے ملکی قوانین اور پرسنل لاء پر حاوی ہونا چاہتی ہے جس کے لئے
توڑ جوڑ، سازشیں اور برہمنی فریب کی تمام کوششیں ازبر کرلی گئی ہیں اور ان
ہی موجودہ ایام جو کہ جمہوریت اور سیکولرزم کے لئے زہرِہلاہل ہیں، کیلئے
عددی طاقت کا بے مثال مظاہرہ کیا گیا تھا گویا ہندوازم کی بقا اور اس کے
تحفظات پر عمل درآمد ہر ایک فردبشر ہر لازم ہے، برہمنیت کی تاریخ یوں تو
قدیم ہے؛ لیکن اس کہنگی کے باوجود لاینحل معموں میں الجھی ہوئی ہے۔ چانکیہ
کے علاوہ کوئی مردمیدان ایسا دور دور تک نظر نہیں آتا جو درست خطوط کی
رہنمائی کرے، الاّ یہ کہ برہمنی فریب کا مظاہرہ ہو۔ جب سے مرکز پر ایک
مخصوص طبقہ کا تسلط ہوا ہے، نت نئے شوشے چھوڑے جارہے ہیں تاکہ ملک کے عوام
مبینہ ڈھائی سال کی ناکامیوں پر سوال نہ اٹھائے، الغرض مبینہ برہمنی افکار
اور اس کی شاطرانہ چالوں کے بموجب اسلام کو اپنے مقررہ قوانین کی مدافعت
کیلئے اقدامات کرنے پڑ رہے ہیں؛ کیونکہ اس سے صرف اسلامی عائلی نظام ہی
متأثر نہیں ہوتا؛ بلکہ ملی تشخص بھی یکساں سول کوڈ کی زد میں آکر مجروح
ہوجاتا ہے ، اسلامی عائلی نظام اور شریعت محمدی کامل، اکمل اور مکمل ہے۔
انسانیت اور بودوباش کے کسی بھی پہلو کو تشنہ نہیں چھوڑا :قول باری ہے ” آج
میں نے تمہارے دین کو مکمل (جامع و مانع) بنادیا، اپنی نعمتیں تم پر پوری
کردی اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کیا “ (المائدة آیت نمبر ۳) اور اسی
طرح دوسری جگہ صاف لفظوں میں درج ہے م نے آپ کے لئے دینی امر میں ایک طریقہ
بنایا ہے؛ لہذا آپ اسی طریقہ پر چلیں اور نفس پرستوں کی بات کو نہ مانیں "
(جاثیہ آیت نمبر ۱۸) ان مندرجہ بالا پیش کردہ ترجمہ کی آیتوں میں علماء امت
اور فقہاء اسلام نے شرعی قوانین پر تصلب اور مداومت کیساتھ قائم رہنے کا
حکم مستنبط کیا ہے، آیت شریفہ بغیر تردد کے شرع پر قائم رہنے کا حکم دیتی
ہے، مفسرین نے ادلہ اربعہ کتاب، سنت، اجماع اور قیاس سے مستنبط مسائل کے
علاوہ دوسری شق اور منہاج سے مستنبط مسائل و احکام کے تئیں بیزاری اور برأت
کا اعلان کیا ہے امام رازی وغیرہ جیسے مفسرین نے شدت کے ساتھ ممانعت کی ہے؛
کیونکہ یہی شریعت کا مزاج و منہاج ہے، مرکزی سرکار یکساں سول کوڈ کے نفاذ
کی بات کرتی ہے اور اسے ممکن العمل بنانا بھی چاہتی ہے تو صاف جان لینا
چاہیے کہ ” جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے اس کی پیروی کریں اور اس
کے سوا کسی اور کی پیروی نہ کریں “(الاعراف آیت نمبر ۳) اس واضح قرآنی
اعلان اور واشگاف جمہوری دفعات کی اجازت کے بعد یکساں سول کوڈ کا نفاذ
غیرآئینی اور ناروا ہوگا؛ کیوں مسلم طبقہ ابتدا سے تادم تحریر؛ بلکہ قیامت
تک قرآنی فرامین سے اعراض نہیں کرسکتا اور نہ یکساں سول کوڈ کو برداشت
کرسکتا ہے، مرکزی سرکار نے خانہ جنگی کا بگل بجایا تو ہے؛ لیکن اس میں
کامیابی کبھی یک قلم نہیں مل سکتی؛ چوں کہ یہ مذہبی آزادی پر قدغن ہے ۔
آخرش بھارتی سرکار اتنی شدومد کے ساتھ کیوں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کیلئے
پرعزم ہے؟ چونکہ آرایس ایس نے مکمل ہندو راشٹر کا خواب دیکھا تھا جس خواب
کی تعبیر بھی مل گئی، ۲۰۱۴ کے عام انتخابات میں اسے بھاری اکثریت بھی ملی،
بھگوا نواز جماعت اور افراد سے یہ عہد بھی کیا گیا تھا کہ رام مندر کی
تعمیر کے ساتھ بقول خویش ” کٹرواد“ (یعنی مذہبی تحفظات و آزادی پر قدغن) کا
بھی خاتمہ ہوگا، کالا دھن کا وعدہ تو جملہ ثابت ہوا، کالا دھن نہ آسکا،
البتہ اقلیت؛ بلکہ مسلمانوں کے عائلی نظام پر براہِ راست یلغار آسان تر
ہوگئی،امیر شریعت رابع ؒ نے اپنی تالیف ” مسلم پرسنل لاء “ میں یکساں سول
کوڈ کی اصل حقیقت بیان کی،لکھا: ” اصل مقصود دستور میں دیئے گئے بنیادی حق
(مذہبی و ثقافتی آزادی) کو ختم کرنا اور ملی امتیازات کو مٹا کر پورے
معاشرے میں یکسانیت پیدا کرنا ہے، دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ
اس تحریک کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان جو اپنے عقیدے کے مطابق کتاب و سنت اور
فقہ اسلامی کو ہی واجب الاتباع سمجھتے ہیں اور بہ حالات موجودہ کم از کم جن
چند مسائل کے اندر انہیں اپنی شریعت کے مطابق عمل کی آزادی ہے، اسے بھی ختم
کرکے عام انسانی خواہشات کی اتباع اور انسانوں کے بنائے ہوئے اصول و قوانین
کی بالاتری تسلیم کرلینے پر مجبور کردیا جائے “(مسلم پرسنل لاء ص۱۴) امیر
شریعت علیہ الرحمۃ نے تقریبا ۳۰/سال قبل ہی اس کی پیشنگوئی کردی تھی کہ
یکساں سول کوڈ کا نفاذ ملی تشخص کو مجروح کرنا اور مذہبی و ثقافتی آزادیوں
پر مکمل طور سے قدغن لگانا ہے تاکہ مسلمان اپنے شناخت و امتیاز سے عاری
ہوکر ہویٰ پرستی پر مبنی انسانی قوانین کی برتری و تفوق تسلیم کرلینے پر
مجبور ہوجائے ۔
شرعی امور اور ان کے مصادر انسانی مقررہ اصول پر مبنی نہیں ہیں طلاق ثلاثہ،
تعددازدواج، فسخ، ہبہ، وراثت وغیرہ مسائل مبنی القرآن والحدیث ہیں، طلاق
ثلاثہ کی اہمیت اور اس کی شرعی افادیت اپنی جگہ مسلّم ہے جس سے انکار کی
گنجائش نہیں، فقہ کی مطولات اس ذیل میں دلائل و براہین سے بھری پڑی ہیں ۔
مذاہب اربعہ حنفیہ، شافعیہ، حنبلیہ اور مالکیہ بالاتفاق ایک مجلس میں تین
طلاق کو تین ہی قرار دیتے ہیں جیسا کہ مطولات و مراجع میں مذکور ہے، البتہ
متأخرین علماء ابن تیمیہ، ظواہر، رافضیہ وغیرہ نے اسے ایک ہی تسلیم کیا ہے
جیسا کہ ہندوستان کے غیرمقلد احباب کاشعار ہے؛ لیکن طلاق ثلاثہ کی ماہیت و
ہیئت اور اس کے وجود کے تسلیم کی سب سے بڑی وجہ اجماع ہے اور ادلہ اربعہ
میں ایک شق اجماع بھی ہے؛ لہذا طلاقِ ثلاثہ نص سے ثابت ہے اور اس امر منصوص
کو دنیا کی کوئی طاقت خواہ وہ آمریت ہی کیوں نہ ہو بدل نہیں سکتی
۔تعددازدواج کے مسئلہ پر حکومت نے "شنکھ ناد " بجایا ہے،اولا تعددازدواج کے
مسئلہ کو سمجھنا چاہیئے، اس کی حکمت و مصلحت کا باریکی کا تمام مکروه
تفکرات سے بالاتر ہوکر جائزہ لینا چاہئے، حسن و قبح کی تمیز پیدا کرنی
چاہئے ۔تعددازدواج شہوت رانی اور عیش کوشی کیلئے نہیں ہے؛ بلکہ عورت جیسی
کمزور صنف پر لطف و عنایت ہے، یہ معاشرہ میں توازن و استحکام کے لئے ہے
تاکہ جو بیوہ عورتیں بے سہارا ہیں وہ نکاح کرکے زندگی آرام سے گزار سکیں
۔قرآن مقدس میں ہے ” تم نکاح کرو ایک عورت، دو عورت، تین عورت یا چار
عورتوں سے، اگر تمہیں ڈر ہو کہ آپسی میں عدل قائم نہ کرسکو تو ایک عورت ہی
کافی ہے “ (النساء آیت نمبر ۳) تعددازدواج صنف نازک پر ظلم نہیں؛ بلکہ یہ
خیر و عافیت کے پہلو کا حامل ہے ۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی اور یوروپ
کی جو صورتحال ہوئی اور جس طرح مرد حضرات کی قلت ہوئی وہ سیاستدانوں سے
مخفی نہیں ہے، بے حیائی، زناکاری اور جنسی بے راہ روی کی وبا عام ہوئی اور
ایڈز جیسے مہلک مرض میں پچیس پینتالیس افراد مبتلا ہوگئے اور عجیب جنسی
افراتفری پھیل گئی، تاہم اسلام نے ایسے اصول مقرر کئے کہ جس سے معاشرہ میں
توازن برقرار رہ سکتا ہے ۔ بھارتی سرکار تعددازدواج پر قدغن لگاسکتی ہے اس
شرط کے ساتھ کہ کالجز و یونیورسٹیز میں سیکس کلچر پر نکیل ڈالی جائے، دہلی
ریپ راجدھانی بن چکی ہے اس وجہ معلوم کرکے اس کے سدباب کی کوشش کرنی چاہئے
۔ چانکیہ نے بھی اپنی ” چانکیہ نیتی “ میں لکھا ہے ” عورت، دولت اور اولاد
دل بہلانے کی چیز نہیں ہے، بلکہ یہ زندگی کے لازمے ہیں، اس سے زندگی میں
استحکام پیدا ہوتا ہے“ گویا عورت کوئی کھیل کی چیز نہیں؛ بلکہ قدم بہ قدم
ساتھ رہ کر درد اور دکھ بانٹنے والی ذات ہے ۔ مرکزی سرکار کو "شنکھ ناد “
بجانے کے بعد شرعی قوانین کے تحفظ و بقاء کی خاطر مستقل چودہ سو سال سے
بلند ہوتی "تکبیر مسلسل “ کی اجتماعیت، پنہاں قوت، استحکام اور اس کے اقبال
کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور سمجھنا چاہیئے کہ یہ "تکبیر مسلسل " شرعی
قوانین کے تحفظ کے لئے بے تکان کیوں بلند ہوتی آرہی ہے ۔
موجودہ صورتحال کے لئے ہمیں ان سے مدافعت کی خاطر دو کام کرنے ہوں گے،
اولاً: یہ کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی جانب سے دستخطی مہم قصبہ
قصبہ قریہ قریہ چلائی جا رہی ہے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اپنے رشتہ دار
اور پڑوسیوں کی خواتین سے دستخط حاصل کریں اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے پتہ
پر ارسال کریں تاکہ مرکزی حکومت کو یہ باور کرانا آسان ہو کہ مسلم معاشرہ
کی خواتین شرعی اور عائلی قوانین پر مطمئن ہیں، شریعت کی طرف سے قائم اصول
و ضوابط مکمل انسان کی رہنمائی کرتے ہیں طلاق، رضاعت، وراثت، ہبہ، حضانت
وغیرہ مسائل پر کوئی اشکال و اعتراض نہیں؛ بلکہ یہ قوانین و ضوابط منزل من
اللہ ہیں نیز یہ اصول مکمل فطری تقاضوں کے ترجمان ہیں، ثانیاً:
جمعیۃالعلماء،مسلم پرسنل لاء بورڈ، امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ اور دیگر ملی
تنظیم متحد ہوکر یکساں سول کوڈ کے خلاف ملک گیر تحریک شروع کی ہے، یہ ادارے
قوم و ملت کا سرمایہ ہیں، ملت کے کشتیباں اور اخلاص و وفا کا سرچشمہ فیضان
ہیں ان کی آواز پر لبیک کہنے کو ہمہ وقت تیار رہیں؛ کیوں کہ آپ کی بیداری
پیشواؤں کو تقویت و جرأت فراہم کرتی ہے اور جذبۂ شاہین پاکر ملت کے اقبال
کی خشت اول رکھنے میں دریغ نہیں کرتے، چند لبرل اور بھگوا ذہنیت کے نام
نہاد دانشوران و صحافی کو یہ دستخطی مہم اور یکساں سول کوڈ کے خلاف ملک گیر
تحریک بازیچۂ اطفال نظر آرہی ہے، یہ ان کا قصورِ فہم اور میرصادقی کی
بدترین مثال ہے، ان کے پروپیگنڈہ اور بھگوا نوازی کے فلسفہ سے قطع نظر ملی
تشخص اور اس تشخص کے استحکام کی حاظر قومی حمیت و اتحاد کا مظاہرہ کریں؛
کیوں کہ یی ایک ایسا نازک دور ہے جو کہ آزاد بھارت کی تاریخ میں کبھی
دیکھنے کو نہیں ملا اور ان تمام فلسفۂ لات و منات کے اظہار کا مقصد صرف اور
صرف "ہندو راشٹر " کے قیام کی راہیں استوار کرنا ہے، مسلم پرسنل لا بورڈ کی
معنویت اور اس کی جدوجہد سے معمور تاریخ نیز اس کی ہمہ گیر کی فہم اور اس
کی ضرورتوں کے مقتضیات کے ادراک کیلئے امیر شریعت مولانا ولی رحمانی کے
تاریخی کلمات کافی ہیں جسے دس سال قبل یکم مارچ/ ۲۰۰۳ مونگیر کی سرزمین پر
منعقدہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے جلسہ میں خطبہ صدارت پیش کرتے ہوئے فرمایا
تھا:
” مسلم پرسنل بورڈ کی تاریخ ایمان و یقین کے متوالوں کی تاریخ ہے، بصارت و
بصیرت، جرأت و عزیمت کی تاریخ ہے، صبر و برداشت ،احتیاط و پرہیز کے ساتھ
سوز دروں اور جذب و جنوں کی تاریخ ہے، بروقت فیصلے اور فیصلوں پر مسلسل عمل
کی تاریخ ہے، وہ احتیاط جو بزدلی کا تحفہ دے، وہ پرہیز جو حالات سے گریز
سکھائے، وہ صبر جو ظلم مسلسل کی حسیں تعبیر تلاش کرے اور وہ برداشت جو بے
عملی تک پہنچا دے، زندہ افراد اور زندہ اداروں کے لئے نہ قابلِ قبول ہے اور
نہ گوارہ! “ لہذا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے قدم سے قدم ملا کر چلیں اور تحفظ
شریعت کی خاطر دینی تصلب پر قائم رہیں ۔
م |
|