حکومت یونیورسٹی کی سطح پر پڑھنے والے طلبا
کی حوصلہ افزائی کے لئے بہت سے وظائف دیتی ہے۔ ان وظائف میں کچھ ایسے ہوتے
ہیں جو پڑھائی میں اُن کی کارکردگی کی بدولت ہوتے ہیں، یہ میرٹ کے وظائف
کہلاتے ہیں۔ دوسرے وظائف ضرورت مند طلبہ کے لئے ہوتے ہیں، یہ وظائف غریب
طلبا کے لئے ہوتے ہیں جو فیس دینے اور دیگر تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کے
قابل نہیں ہوتے۔ ان وظائف پر صرف اور صرف ضرورت منداور مستحق طلبا کا حق
ہوتا ہے، دوسرے طلبا کو جو کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں کے لئے
یہ(Need Base) وظائف جائز ہی نہیں ہوتے۔
میں عرصہ پہلے جب قائد اعظم یونیورسٹی میں ایم۔ایس۔سی کرنے کے لئے داخل ہوا
تو یونیورسٹی نئی نئی تھی، طلبا کی تعداد بھی زیادہ نہیں تھی۔ داخلہ سخت
میرٹ پر ہوتا تھا اور پڑھائی کا معیار بہت شاندار تھا، کچھ سختی بھی تھی۔
ہم چالیس لوگ داخل ہوئے، مگر چند دنوں میں تقریباً بائیس لوگ باقی رہ گئے۔
میرٹ سکالر شپ فقط چار یا پانچ تھے، مگر غریب غربا اور ضرورت مندوں کے لئے
تعداد کی کوئی پابندی نہیں تھی۔ سوئے اتفاق میری کلاس میں میرے علاوہ ہر
شخص وظیفہ وصول کر رہا تھا۔ ایک حلف نامہ لکھ کر دینا ہوتا تھا کہ میرا باپ
ایک غریب آدمی ہے جو میری فیس اور دیگر اخراجات دینے سے قاصر ہے، اس لئے
مہربانی فرما کر مجھے غریب اور مستحق طلبا والے وظائف میں سے وظیفہ دے دیا
جائے۔ میں نے یہ جانتے ہوئے کہ والد صاحب گریڈ اٹھارہ میں کام کرتے ہیں اور
میں کسی طرح بھی مستحق نہیں ہوں، درخواست ہی نہیں دی۔ ہوسٹل میں رہنے والے
دیگر ساتھیوں اور دوستوں میں ایک کے والد پولیس میں SSP تھے۔ ایک دوسرے کے
والد ایک بنک کے وائس پریذیڈنٹ تھے۔ دونوں نے ایک دن مجھے کہا کہ ہمارے
والد کی تنخواہ تمہارے والد سے کم نہیں، لیکن گزارہ نہیں ہوتا، گھروں کے
حالات ایسے ہو گئے ہیں۔ تم بھی حلف نامہ داخل کرو اور وظیفہ لے لو۔مجھے ان
کی یہ بات کچھ ٹھیک نہیں لگی۔
اس رات میں نے فون پر والد صاحب کو ڈرتے ڈرتے دوستوں کی خواہش کے بارے میں
بتایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مجھے سخت بے عزتی کا سامنا کرنا پڑا۔ والد صاحب نے
کہا کہ مجھے اپنی تربیت پر افسوس ہے کہ تم جائز اور ناجائز، حرام اور حلال
کا فرق جانتے ہوئے بھی اپنے مطلب کے لئے سب بھول گئے ہو۔ تم نے ایسے پیسے
جو مستحق لوگوں کے لئے پاک اور تمہارے لئے پلید ہیں، لینے کی خواہش جو کی
ہے مجھے اس پر افسوس ہے۔ میں تمہیں جائز حد تک پڑھنے کے لئے پیسے بھیجتا
ہوں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان محدود پیسوں میں عیاشی نہیں ہو سکتی لیکن پڑھائی
آسانی سے ہو سکتی ہے۔ وہ دن اور آج کا دن میں نے اس فرق کو پوری طرح محسوس
بھی کیا ہے اور نبھایا بھی ہے۔
اتنے سالوں بعد مجھے یہ بات یوں یاد آئی کہ ہمارا ایک پرانا سٹوڈنٹ باہر سے
پڑھ کر آیا اور یونیورسٹی میں ملازمت کے لئے اس نے اپنی CV جمع کرائی۔ وہ
ایک بڑی لینڈ کروزر گاڑی پریونیورسٹی آیا تھا۔ کہنے لگا والد صاحب کی ہے،
پھر بتانے لگا کہ اس کے والد نے تو اسے ایف ایس سی میں ہی گاڑی لے دی
تھی۔باہر پڑھنے کے لئے بھی والد صاحب نے بہت رقم خرچ کی ہے۔ ڈیپارٹمنٹ کے
ایڈمن آفیسر نے اس کی CV دیکھی اور نشاندہی کہ کہ بھائی آپ نے لکھا ہے کہ
ہماری یونیورسٹی میں قیام کے دوران آپ نے دو سال میرٹ سکالر شپ لیا تھا،
مگر آپ یاد کریں آپ کو میرٹ سکالر شپ نہیں ملا تھا۔ بلکہ دونوں دفعہ آپ نے
خود کو انتہائی خستہ حال ظاہر کیا تھا ۔ والد صاحب کو معاشی طور پر کنگال
بتایا تھااور بعد منتوں کے یہ سکالرشپ لیا تھا۔ اسے آپ میرٹ سکالر شپ تو نہ
لکھیں۔ ویسے بھی آپ فارن ڈگری کی بنیاد پر نوکری چاہتے ہیں۔ یہاں تو آپ
کلاس کی آخری پوزیشنوں پر تھے اور میرٹ تو آپ سے چھو کر بھی نہیں گزرا تھا۔
اس نے بڑی ڈھٹائی سے ہنستے ہوئے کہا جناب سکالر شپ تو لیا تھا جیسے بھی لیا
اور دنیا سمجھتی ہے کہ سکالرشپ میرٹ پر ہوتا ہے۔ آپ کو پتہ ہے تو آپ نہ
مانیں، مگر شور نہ مچائیں۔ مجھے افسوس ہوا کہ اب نئی نسل بالکل جائز اور
ناجائز کے تصور سے ناآشنا ہوتی جا رہی ہے۔
دودن پہلے دفتر میں ایک بچی اور اُس کی ماں بیٹھی تھیں۔ ان کی خستہ حالی
اور ان کا لباس ان کی غربت کی چغلی کھا رہا تھا۔ میرے ایک ساتھی پروفیسر ان
سے ناراض ہور ہے تھے کہ اگر آپ کے پاس پیسے نہیں تھے تو آپ نے بچی کو
پڑھایا کیوں؟ یونیورسٹی کیوں بھیجا؟ پروفیسر صاحب کے سخت لہجے کی تاب نہ لا
کر بچی سہم گئی اور بچی کی ماں رونے لگی کہ میرے میاں ایک دکان پر ملازم
ہیں۔ چودہ پندرہ ہزار تنخواہ ہے۔ چار پانچ ہزار کرایے اور بلوں میں خرچ ہو
جاتا ہے۔ بتائیں میں اس بچی کی فیس کہاں سے دوں؟ پروفیسر صاحب بجائے ہمدردی
کرنے کے نالاں ہو رہے تھے۔ مجبوراً مجھے بیچ میں آنا پڑا۔ ہیڈکلرک نے بتایا
کہ ابھی وطائف کی رقم نہیں آئی، اس لئے نہیں دے سکتے۔ میں نے اس خاتون کو
بڑی تحمل سے یہی بات بتائی اور اسے کہا کہ اسے دوبارہ آنے کی ضرورت نہیں۔
اس کی بیٹی ہماری سٹوڈنٹ ہے وہ رابطہ رکھے، اگلے دس بارہ دن میں وظائف
آجائیں گے تو میں ذاتی طور پر کوشش کر کے اس کو دلا دوں گا۔ حکومت اور
یونیورسٹی دونوں اس معاملے میں بہت فیاض ہیں، صرف چند دنوں کی بات ہے۔عورت
اور بچی دونوں کو یہ بات سمجھ آگئی اور وہ مطمئن ہو کر چلی گئیں۔
میں نے اپنے ساتھی پروفیسر صاحب سے بے جا مداخلت پر معذرت کی اور انہیں کہا
کہ استاد کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ لوگ آسانی سے اس تک رسائی کر سکتے
ہیں۔ استاد اُن کی بات سنتا اور سکون اور اطمینان سے ان کے لئے کوئی آسان
راستہ نکالتا ہے، ورنہ حوصلہ تو دیتا ہے۔ کسی کی حوصلہ شکنی استاد کا وصف
ہی نہیں۔ تعلیم ہر بچے کا حق ہے اور حکومت کی ذمہ داری۔اگر کوئی بچہ اپنی
ہمت اور محنت کے بل پر یونیورسٹی پہنچ جائے تو اس کے احساسات ، جذبات اور
مستقبل کے خوابوں کی پاسبانی ہمارے پیشے کا تقاضا ہے۔ ہمیں کلاس روم میں
موجود بچوں پر نظر رکھنا چاہئے کہ کون کون سے بچے ہیں جو واقعی مستحق ہیں۔
حکومتی سطح پر تو مدد ہوتی ہی ہے، مگر اس مدد کو حقیقی مستحق تک پہنچانا
اساتذہ کا فرض ہے اور اگر کسی وجہ سے حکومتی مدد بچے کو نہ مل سکے تو
بحیثیت انسان ہمیں خود بھی ان کی مدد کرنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہئے۔
اﷲ کے نزدیک بہترین لوگ وہ ہیں جو دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔
تنویر صادق |