کوئی صحیح حدیث قرآن کے مخالف نہیں
(manhaj-as-salaf, Peshawar)
ازعثمان احمد حفظہ اللہ
November 13, 2016
تحریر غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری
حفظہ اللہ
اہل اسلام کے نزدیک حدیث بالاتفاق وحی ہے۔ کوئی صحیح حدیث قرآن کےمعارض و
مخالف نہیں بلکہ حدیث قرآنِ کریم کی تشریح و توضیح کرتی ہے۔ اگر کسی کو
کوئی صحیح حدیث قرآنِ کریم کے مخالف و معارض نظر آتی ہے تو اس کی اپنی سوچ
سمجھ کا قصور ہوتا ہے جیسا کہ کئی قرآنی آیات بظاہر کسی کو ایک دوسرے کے
معارض محسوس ہو جاتی ہیں۔ لہٰذا حدیث کو قرآن پر پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔
مشہور تابعی امام ایوب سختیانی رحمہ اللہ (۶۶۔ ۱۳۱ھ ) فرماتے ہیں :
إذا حدثت الرجل بسنة، فقال : دعنا من ھذا و أجبنا عن القرآن، فاعلم أنه
ضال.
’’جب آپ کسی شخص کے سامنے کوئی حدیث بیان کریں اور وہ کہہ دے کہ اسے چھوڑو،
ہمیں قرآن سے جواب دو تو سمجھ لو کہ وہ شخص گمراہ ہے۔ “ (معرفة علوم الحديث
للحاكم : ص 65، وسنده حسن)
عظیم تابعی سیدنا سعید بن جبیر رحمہ اللہ (م ۹۵ھ ) کے بارے میں روایت ہے :
’’انہوں نے ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بیان کی تو ایک
شخص نے کہہ دیا : قرآن میں اس کےخلاف بات موجود ہے۔ اس پر انہوں نے فرمایا
: میں تجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کر رہا ہوں اور
تو اس کے خلاف اللہ کی کتاب پیش کر رہا ہے ! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم اللہ کی کتاب کے مندرجات کو تجھ سے بڑھ کر جانتے تھے۔ “ (مسند الدارمي
: 145/1، وسنه صحيح)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث، کتاب اللہ کی مراد، تشریح اور بیان
ہے، حدیث رسول کے بغیر قرآنِ کریم کو سمجھنا ناممکن ہے۔ جیساکہ :
امام الشام مکحول تابعی رحمہ اللہ (م ۱۱۳ھ ) فرماتے ہیں :
القرآن أحوج إلى السنة من السنة إلى القرآن.
’’قرآنِ کریم (تشریح و توضیح کے حوالے سے ) حدیث کا نسبتاً زیادہ محتاج ہے۔
“ (السنة لمحمد بن نصر المروزي : ص 28، وسنده صحيح)
امام یحییٰ بن ابی کثیر رحمہ اللہ (م ۱۲۹ھ ) فرماتے ہیں :
السنة قاضية على القرآن، وليس القرآن بقاض على السنة.
’’حدیث رسول، قرآن کریم کے لیے فیصل ہے، قرآن کریم حدیث کے لیے فیصل نہیں۔
“ (مسند الدارمي: 145/1، وسنده حسن، السنة لمحمد بن نصر المروزي، ص 28،
جامع بيان العلم وفضله لابن عبدالبر: 190/2، وسنده صحيح)
امام دارمی رحمہ اللہ (۱۸۱۔ ۲۵۵ھ ) نے اپنی کتاب میں اسی قول کے مطابق
تبویب کی ہے۔
امام اندلس، علامہ ابن عبدالبر (۳۶۸۔ ۴۶۳ھ ) اس قول کی تشریح میں فرماتے
ہیں :
يريد أنھا تقضى عليه وتبين المراد منه.
’’اس سے مراد یہ ہے کہ حدیث و سنت قرآن کریم کا حتمی نتیجہ بیان کرتی ہے
اور اس کی مراد واضح کرتی ہے۔ “ (جامع بيان العلم وفضله لابن عبدالبر
:191/2)
اس قول کی مزید تشریح امام اوزاعی رحمہ اللہ (م ۱۵۷ھ ) کے اس فرمان سے ہوتی
ہے :
إن السنة جاءت قاضية على الكتاب، ولم يجىء الكتاب قاضيا على السنة.
’’سنت قرآن کریم کے لیے فیصل بن کر آئی ہے، قرآن اس کے لیے فیصل بن کر نہیں
آیا۔ “ (معرفة علوم الحديث للحاكم : ص 65، وسنده حسن)
ظاہر ہے کہ کسی کتاب کی شرح ہی اس میں موجود مندرجات کا کوئی حتمی نتیجہ
نکال سکتی ہے۔ جو چیز خود وضاحت کی محتاج ہو، وہ اپنی شرح کے لیے فیصل کیسے
بن سکتی ہے؟
امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ (۳۶۸۔ ۴۶۳ھ ) فرماتے ہیں :
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کتاب اللہ کی وضاحت و تشریح دو
طرح کی ہے :
ایک وہ جو کتاب عزیز میں موجود مجمل بیانات کی توضیح ہے جیسا کہ پانچ
نمازوں کے اوقات، ان کے رکوع و سجود اور دیگر تمام احکام ہیں، نیز زکوٰ ۃ،
اس کی مقدار، اس کا وقت اور ان اموال کا بیان جن میں زکوٰۃ فرض ہے، اسی طرح
حج کا بیان ہے۔۔۔
دوسری قسم کا بیان وہ ہے جو کتاب اللہ سے زائد ہے، جیسے کسی عورت کی پھوپھی
یا خالہ سے نکاح کے ہوتے ہوئے اس سے بھی نکاح کرنے کی ممانعت اور جیسے
گھریلو گدھوں اور ہر ذی ناب درندے کی حرمت کا بیان ہے۔ اسی طرح بہت سی
مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جن کا ذکر طوالت کا باعث ہو گا۔ “ (جامع بيان
العلم وفضله: 190/2)
فضل بن زیاد کا بیان ہے :
سمعت أبا عبدالله، يعني أحمد بن حنبل، وسئل عن الحديث الذي روى أن السنة
قاضية على الكتاب، فقال : ما أجسر على ھذا أن أقوله، ولكن السنة تفسير
الكتاب وتعرف الكتاب وتبينه.
”میں نے امام ابوعبداللہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو سنا، ان سے اس حدیث کے
بارے میں سوال کیا گیا کہ سنت کتاب اللہ کے لیے فیصل ہے۔ انہوں نے فرمایا :
میں ایسا کہنے کی جسارت نہیں کر سکتا (کیونکہ یہ روایت نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم سے ثابت نہیں ) ، البتہ سنت کتاب اللہ کی تفسیر ہے جو قرآن کی
تشریح و توضیح کرتی ہے۔“ (الكفاية في علم الرواية للخطيب : ص 47، وسنده
حسن)
علامہ شاطبی (م ۷۹۰ھ ) اس قول کی وضاحت یوں کرتے ہیں :
’’حدیث کے کتاب اللہ کے لیے فیصل ہونے سے مراد اس کو مقدم کر کے قرآن کریم
کو پس پشت ڈالنا نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کا جو معنی سنت و
حدیث میں بیان کیا گیا ہے، وہی کتاب اللہ کا حقیقی معنی ہے۔ اس طرح حدیث
قرآنِ کریم کی تفسیر اور اس کی شرح ہے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان
ہے : ﴿لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ﴾ (النخل : 44)”تاکہ آپ
لوگوں کے لیے ان کی طرف نازل شدہ وحی کی وضاحت فرما دیں۔“ (الموافقات
للشاطبي: 8، 7/4)
حافظ سیوطی رحمہ اللہ (۸۴۹۔ ۹۱۱ھ ) لکھتے ہیں :
’’الحاصل قرآن کریم کے محتاج حدیث ہونے کا مطلب یہ ہے کہ حدیث، قرآن مجید
کی وضاحت اور اس کے مجملات کی توضیح ہےکیونکہ کلام الٰہی میں ایسے خزانے
ہیں جن کے مخفی رازوں کی معرفت کے لیے آپ ضرور کسی راہنما کے محتاج ہوں گے
اور یہی چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی صورت میں نازل کی گئی
ہے۔ حدیث کے قرآن کریم کے لیے فیصل ہونے کا یہی معنی ہے۔ قرآن کریم، حدیث
کے لیے فیصل و قاضی نہیں کیونکہ حدیث خود واضح ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیث
فصاحت وبلاغت میں قرآن کریم کی ہم پلہ نہیں کیونکہ یہ اس کی شرح ہے اور شرح
ہمیشہ اصل سے زیادہ واضح اور مبسوط ہوتی ہے۔“ (مفتاح الجنة في الاحتجاج
بالسنة للسيوطي: ص 44)
اتنی سی وضاحت کے بعد ایک فرمان رسول ملاحظہ ہو :
سیدنا مقدام بن معدیکرب الکندی رضی اللہ عنہ (م ۸۷ھ ) بیان کرتے ہیں :
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کے دن گھریلو گدھے وغیرہ کو
حرام قرار دیا، پھر فرمایا : عنقریب ایک آدمی اپنے پلنگ پر تکیہ لگائے
بیٹھا ہو گا، اس کو میری حدیث سنائی جائے گی اور وہ کہے گا : ہمارے اور
تمہارے درمیان کتاب اللہ ہی فیصل ہے۔ ( لیکن ) خبردار ! جو چیز اللہ کے
رسول نے حرام کی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیز کی طرح ہی حرام ہے۔“
(مسند الامام احمد: 132/4، سنن الترمذي : 2664، سنن ابن اجه: 12، 3193،
مسند الدارمي: 606، المستدرك علي الصحيحين للحاكم: 109/1، وسنده صحيح)
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ’’حسن غریب“ اور امام حاکم رحمہ اللہ
’’صحیح“ کہا ہے۔
اس حدیث سے حدیث رسول کی تشریعی حیثیت واضح ہوتی ہے جیسا کہ امام محمد بن
نصر مروزی رحمہ اللہ (م ۲۹۴ھ ) لکھتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ کی طرف سے حلت وحرمت کے احکامات دو طریقوں سے آتے ہیں :
ایک تو اس طرح کہ کتاب اللہ میں کسی چیز کی حرمت بیان ہو اور اس کا نام
قرآن رکھا جائے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ
الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ﴾ (المائدة:3)”تم پر مردار، خون
اور خنزیر کا گوشت حرام کر دیا گیا۔“ اسی طرح وہ چیزیں ہیں جن کو اللہ
تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا ہے۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جبریل کی
زبانی کسی چیز کی حرمت یاحلت یا فرضیت نازل ہو اور اس کو اللہ تعالیٰ قرآن
نہیں بلکہ حکمت کا نام دیتا ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿وَأَنْزَلَ
اللَّـهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ﴾ (النساء:113) ”اور اللہ
تعالیٰ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل کی ہے۔“ (السنة لمحمد بن نصر المروزي:
ص115)
اس حدیث پر امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے یوں تبویب کی ہے :
باب ما جاء في الستوية بين حكم كتاب الله تعالي وحكم سنة رسول الله صلي
الله عليه وسلم في وجوب العل ولزوم التكليف.
’’ان دلائل کا بیان جن سے ثابت ہوتا ہے کہ واجب العمل ہونے میں کتاب اللہ
اور سنت رسول دونوں کا حکم برابر اہمیت و حیثیت کا حامل ہے۔“ (الكفاية
للخطيب: 23)
امام طبری رحمہ اللہ (م ۳۱۰ھ ) قرآن کریم میں مذکور ’’حکمت“ کے بارے میں
فرماتے ہیں :
’’ہمارے خیال میں حکمت سے مراد اللہ تعالیٰ کے احکام کی وہ علم و معرفت ہے
جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔۔۔
میرے خیال میں یہ ’حکمت ‘، حکم بمعنی ”حق و باطل میں فرق“ سے ماخوذ ہے جیسا
کہ جلسہ اور قعدہ، جلوس اور قعود سے ماخوذ ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص
واضح حکمت والا حکیم ہے، اس قول سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ قول و فعل میں
واضح طور پر درست رہتا ہے۔“ (تفسير الطبري: 608/1، تحت البقرة:129) |
|