استادِمحترم نے عجیب قسم کا شکوہ ارسال
فرمایا کہ بیٹا اعزاز ادب محض سیاست،موجودہ حالات،مذہب اور اخلاقیات پر
قلمدانی اور گفتگو کرنے کا نام نہیں تو بندہ نے نہایت عاجزی سے سوال کرنے
کی جراًت کی اور کہا تو آپ کیا چاہتے ہیں کہ اور کیا لکھنے کی کوشش کروں تو
سامنے سے جواب ایسا آیا جیسے کسی نے تیز داری تلوارسے مجھ پہ حملہ کر دیا
محترم نے عرض کیا کہ رومانوی سفر بھی شروع کریں تو صاحب پھر متمئن ہو سکتے
ہیں۔
ڈرنے کا احساس فقت اسلیئے ہوا کہ میں ایک ایسے خاندانی ساخت رکھتا ہوں جہاں
پر کُلِ عام حسن پرستی منع ہیں اور صاحب صنفِ نازُک والی حسن بتا رہے
ہے۔لیکن اگر مذکورہ عنوان پر لکھنے کے بغیر همارا ادب ادھورا ہے تو میں یہ
گناہ کرنے کیلئے تیار ہوں۔ ۔
صاحب کے خیال میں ہم حسن اور محبت کے دلدادہ نہیں۔بتاتا چلوں کہ میں بذاتِ
خود حسن پرست ہوں اور حسنِ کامل کو تو میں ڈیڑھ سال پہلے دیکھ چکا ہوں۔جب
نظرِ کج نے پہلی بار خطا کی تو میں نے خدا کی ایک ایسی کاریگری دیکھی کہ
مِنٹوں کوشش کے باوجود اپنی چشمان ہٹا نہ سکا۔نورِ قمر سے بھی زیادہ پُر
نور رخسار پر کالے بادل جیسے بالوں نے پہرہ دے رکھا تھا۔اور اسی پُر نور
چہرے پر ایک اور آلئہِ قتل اُس کی کالی آنکھیں۔لب ایسے جیسے کِھلتا گلاب۔آج
دو سال گزرنےکیبعد جب میں نے آفریں افریں مومنہ مستحسن کے منہ سے سنا تو
کہیںکہیں ایسا لگا کہ تھوڑی بہت اس معجزہِ خداوندی کی تعریف ہو رہی تھی۔ |