برداشت کا عالمی دن
(jahangir jahejo, Hyderabad)
|
برداشت کا عالمی دن |
|
سولہ نومبر برداشت کا عالمی دن منایا گیا
بہت سارے سینمار ہوئے کچھ میں میرا جانا ہوا ایک کانفرنس بھی اٹینڈ کی کوشش
سے معاشرے میں تعبدیلی اتی ہے اور وہ سب کرتے ہیں کچھ بولنے کی حد تک کچھ
عملی اقدامات کر کے جب موزوں برداشت ہو کافی کچھ بولنے اور سنے کو تو مل ہی
جاتا ہے ایک شرکا فرماں رہے تھے حکومت کو اس کے لئے کام کرنا چاہئے میں سوچ
رہا تھا حکومت اس میں کیا کرسکتی ہے کچھ شرکا نے سیاستدانوں پر ملبہ ڈال
دیا کچھ نے اچھا درس بھی دیا لوگوں کی دات وسول کی کہانے کابندوبست تھا
تمام شرکا نے برداشت کا مظاہرہ کیا یا نہیں اپ لوگ جانتے ہی ہے پاکستان میں
سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے تو وہ دعوت میں سنماروں میں برداشت کی ہوتی
ہے اس طرح سب اپنے اپنے گھروں کو واپس چل دہے میں نے نکلنے کا سوچا رش تھی
کچھ دیر برداشت صبر کا مظاہرہ کیا خیر چلتے ہیں اپنے موزوں پر برداشت کے
لئے جو کچھ شرکا فرماں رہے تھے میں کافی باتوں سے متفق نہیں تھا میرا اپنا
ماناں ہے برداشت کا نہ تو نظام سے نہ حکومت سے نہ سیاستدانوں سے واسطہ ہے
حالات بہت لوگوں کے اچھے ہیں لیکن ان میں برداشت نہیں کافی سیاستدانوں کو
ٹی وی پر دیکھتے ہیں وہ ایک دوسرے پر تیز زبان سے وار کر رہے ہو تھے ہیں
بہت بار دیکھا ہے گاڑی والا گدھا گاڑی والے پر گالیوں کی بارش کررہا ہوتا
ہے گدھا گاڑی والا برداشت کررہا ہوتا ہے برداشت کا بیروزگاری مھنگائ حکومت
غریب امیر سے واستہ نہیں بولنے کی حد تک لوگ بول دہں تھے ہیں-
آئے دن پاکستان کے مختلف حصو سے تشدد کی خبریں نظروں سے گزرتی ہیں یہی نہیں
اگر حالیہ زندگی میں بھی نظر دوڑائی جائے تو ہمیں بہت سے مقامات پر اکثر
اوقات افراد عدم برداشت کے مظاہرے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
کبھی پبلک مقامات پر مختلف باتوں پر افراد کا دست و گریباں ہوجانا، کرایہ
زیادہ مانگنے پر کنڈیکٹر کی شامت، من پسند اسٹاپ پر بس نہ روکنے پر مسافروں
کاعدم برداشت، سگنل توڑدینے پر ٹریفک کانسٹبل کا رویہ، والدین کا بچوں پر
ضرورت سے زیادہ جھڑک دینا یا کبھی بچوں کا والدین سے طویل بحث اور غصہ دکھا
دینا، گاڑی کی ٹکر پر سیخ پا ہوجانا-
عمل ہے ہم اپنی روز مرا کی زندگی میں دیکھتے ہیں کوئی بند ہ ٹریفک میں پس
جاتا ہے ہارن سے ہاتھ نہیں اوٹھتا حالانکہ اس عمل سے نہ ہی راستہ کھول تھا
ہے نہ ہی لوگ متوجہ ہوتے ہیں اس میں حکومت کیا کرسکتی ہے ہسپتال کے سامنے
بورڈ لگا ہوتا ہے ہارن بجانا منہ ہے سب سے زیادہ ہرن سنے کوملتا ہے فقیر
مانگ رہا ہے بہت سارے پڑے لکھے لوگوں کو دیکھا ہے وہ شیشہ نہچے کر کے برس
پڑتے ہیں وہ فقیر دعا دیں کر چلا جاتا ہے برداشت انسان کا ایک اپنا عمل ہے
اس کی زمداری کسی ادارے سیاستدان ماحول پر نہیں بہت پڑے لکھے لوگ ہے جن میں
برداشت نہیں-
عملی اقدام کی ضرورت ہے برداشت کو عادت بنانا ہو ہر انسان کو اپنی روز مرا
کی زندگی میں صبر اور پرداشت سے کام لینا ہو گا ایک فرد صبر کریں گا دوسرے
کو صبر کا درس دے گا معاشرے میں پرداشت پیدا ہوگی سب کو اپنے اپنے حصے کا
کام کرنا ہو گا ایک دن نفرت اور غصہ نہ ہونے کے برابر ہوجائیں گا
اسکول کالجوں کے نوجوان لڑکی لڑکوں کو بزرگوں سے پیار سے بات کرنا ہوگی
کیونکہ عمر کے ساتھ بزرگوں میں برداشت کا عمل کچھ کم ہو جاتا ہے سرکاری
دفتروں میں گھروں روڈو پر ہر جگہ اپ کو پرداشت کا عملی طریقہ اختیار کرنا
ہو گا اگر ہر انسان اپنے گھر سے شروعات کریں اور برداشت صبر کو اپنی زندگی
کا ایک ضروری عمل سمجھ کر کر یں شاید دنیا میں امن پیار پرداشت پروان چڑ
جائے اور غصہ اور نفرت پرداشت پر عالمی دن بنانے کی ضرورت ہی نہ پڑے- |
|