بچوں کا عالمی دن

 آج ایک دوست نے مجھے فون کرکے بتایا کہ تمہیں کچھ پتا ہے کہ آج بچوں کا عالمی دن ہے ۔ پھر اخبار میں پڑھا تو پتا چلا کہ آج واقعی بچوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے ۔مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سے بچوں کا عالمی دن ہے ؟ کیا اُن بچوں کا عالمی دن ہے جو محاورن چاندی یا سونے کا چمچ منہ لیکر پیدا ہوتے ہیں یا اُن بچوں کا عالمی دن ہے جن کے نصیب میں بھوک ، بدحالی ، محرومی ، اور جہالت ہے ۔ جب تک یہ پتا نہ ہو کہ کن بچوں کا عالمی دن ہے تو اس دن کی اہمیت کا کیسے پتا چلے گا ۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں مختلف قسم کے بچے ہیں ۔ ایک تو وہ ہیں جو لوکل ہسپتال میں جنم لیتے ہی مختلف بیماریوں کے نذر ہو جاتے ہیں اور ان میں سے بچنے والے عمر بھر محرومی ، بدحالی ، اور مایوسی کا شکار رہتے ہیں ، یا د رہے کہ ایسے بچے وقت سے پہلے ہی مصائب کو جھیلنے کے عادی ہوجاتے ہیں ، کیونکہ نہ تو ان کے لئے تعلیم کا خاطر خواہ بندو بست ہوتا ہے ، نہ ئی انہیں علاج معالجے کی سہولت میسر ہوتی ہے ۔ دوسرے وہ بچے ہیں جو بھترین ہسپتال میں جنم لیتے ہیں ، جن کے لئے خذمت گار پہلے سے ہی مقرر ہوتے ہیں اور وہ عادی ہوجاتے ہیں کہ اُن کے حکم کو ہر حال میں مانا جائے ۔ انہیں گرمی اور سردی کا احساس نہیں ہوتا ، ان کے لئے اعلیٰ تعلیمی ادارے مستند ہوتے ہیں اور وہ قومی زبان سے بھی نا بلند ہوتے ہیں ، یہ بڑے نازک مزاج بھی ہوتے ہیں ۔ تو پتا کیا جائے کہ عالمی دن کن بچوں کا ہے ۔

ہمارے یہاں ہر دن کے لئے لاتعداد مسائل ہیں ، کل مَردوں کا عالمی دن تھا تو وہ مظلوم بنے ہوئے کہہ رہے تھے کہ سارا کام ہم کریں پھر بھی ہم پہ یہ الزام کہ مرد ظالم ہیں ۔ میرے ایک جاننے والے کی تیرہ سالا بچی کو ایک شخص نے برغلا کر نکاح کرلیا ، اور جب اُس کے والد نے قانون سے مدد چاہی تو اُسے یہ کہہ کر خاموش کرایا گیا کہ جی نکاح تو ہوگیا ہے کیونکہ لڑکی ان کے ساتھ راضی ہے ۔ جبکہ تعزیرات پاکستان میں اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکی کا نکاح نہیں ہوسکتا اور قانون بھی اس کی اجازت نہیں دیتا تو پھر اس پر عمل درامد کون کرائے گا ۔ اربابِ اختیار اس پر کوئی موئثر اقدام کیوں نہیں کراتے ، چھوٹی چھوٹی بچیوں کو جرمانے کے طور پر بوڑھوں کے سپرد کیا جاتا ہے اس کے بارے میں کیوں نہیں کوئی تہشری پروگرام چلایا جاتا ہے ۔ اس کے بارے کوئی قانون سازی نہیں ہے اسمبلی اپنے چہرہ دستیوں کے مطابق اس پر لب کشائی کیوں نہیں کرتی ۔ یہ اپنے مفاد کا بل راتوں رات منظور کرالیتے ہیں لیکن عوام کے مفاد کا کوئی بھی بل ان سے تیار نہیں ہوتا ۔ باقی سمینارز میں بچوں کے حقوق پر تقریریں ایسے جھاڑتے ہیں جیسے یہ اُن کے بڑے خیر خواہ ہوں ، جبکہ ان میں سے بیشتر کے گھر وں میں بچوں سے جبری مشقت لی جاتی ہے جو ان کے کسانوں ، مزاروں یا مریدوں کے ہیں ۔ بچوں کا عالمی دن منانے سے بھتر ہے کہ اُن کی مظلومیت کا دن منایا جائے ۔ بچہ چاہے کسی کا بھی ہو بچہ معصوم ہوتا ہے اور جب تک وہ بالغ نہیں ہوتا تب تک معاشرے پر یہ فرض ہے کہ اس کے بھبود کے لئے ٹھوس اقدام کرے اور اگر یہ نہیں ہوتا تو انہیں کوئی حق نہیں کہ وہ ان کا عالمی دن منائیں ۔ بچوں کاعالمی دن منانے والوں کو کیا پتا کہ جو بچہ غربت ، تنگ دستی ، بدحالی کے مارے ہوئے اپنے کنبہ کی کفالت کے لئے صبح گھر سے نکلتا ہے تو اس کے دل میں کیا کیا ارمان ہوتے ہیں ۔ اگر اتنا ہی خیال بچوں کا ہے تو ان کے لئے قانون بنائیں اور اس پر عملدرامد بھی کرائیں ، باقی دن منانے سے کچھ بھی نہیں ہوتا ۔ اس کے لیے سوچیں اور عمل کریں ، دعوے نہیں جستجو کریں ۔ دعوے تو ہر کوئی کرتا ہے لیکن عمل کرنا ضروری ہے ، کیونکہ عمل سے ہی سب کچھ ملتا ہے ۔
sheedi Yaqoob Qambrani
About the Author: sheedi Yaqoob Qambrani Read More Articles by sheedi Yaqoob Qambrani: 14 Articles with 14092 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.