اسلام کی اولین ریاست مدینہ منورہ ہے۔ اس
ریاست کا قیام خود نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ اس ریاست کے شہری یہود مدینہ،
عیسائی، مسلمان(انصارو مہاجر) اور منافقین و مشرکین تھے۔ آنحضرت ﷺ نے اس
اولین ریاست میں ایک معاشرتی معاہدہ فرمایا جس کو معاہدہ مدینہ یا میثاق
مدینہ کہا جاتا ہے۔اس میثاق میں مذکورہ تمام شہریوں کے حقوق و فرائض کا
تعین کیا گیا ہے۔اسی طرح ایک معاہدہ '' معاہدہ حدیبیہ'' کے نام سے کیا گیا
اس میں برسرپیکار دشمن کے ساتھ مصالحت کے امور طے ہوئے اور یہ معاہدہ اپنی
نوعیت کے اعتبار سے بہت ہی انوکھا ہے۔اسی طرح کے کئی معاہدات ہوئے جن سے
معاشرتی امن وامان اور شہریوں کی مال جان عزت وآبرو کی حفاظت کو یقینی
بنایا گیا۔یہ سارے امور اسلامی ریاست نے انجام دیے۔اسی طرح انسانی دنیا میں
معاہدوں اور میثاقوں کی بہتات ہے اور بڑی اہمیت بھی ہے۔ ان کے دو رس نتائج
برآمد ہوئے ہیں۔
گلگت بلتستان میں بھی دو معاہدے ایسے ہوئے جن کو عوامی پذیرائی کے ساتھ
سرکاری رہنمائی بھی حاصل ہوئی۔ 2005ء کے کشیدہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے
گلگت بلتستان کی اسمبلی نے ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جس کی سربراہی
محترم ملک مسکین صاحب کررہے تھے۔اس امن معاہدہ کی تیاری میں مکتہٹ اہل سنت
و اہل تشیع کے سرکردہ 36 عوامی نمائندے اور علمی شخصیات شامل تھی۔ اس کو ''امن
معاہدہ گلگت'' کا نام دیا گیا۔اس معاہدہ میں بہت خوبصورت طریقے سے عوامی
اور علاقائی مفادات کا تحفظ کیا گیا۔ پھر شومئی قسمت 2012ء میں گلگت
بلتستان کے حالات کشیدہ ہوئے اور خونی مناظر دیکھنے میں آئے تو گلگت اسمبلی
نے ایک ضابطہ اخلاق بنایا۔ اس ضابطہ اخلاق میں بھی دین و دنیا کے تمام اہم
معاملات کو تحفظ دیا گیا۔ دینی اقدار اور معاشرتی اصول و ضوابط اور ضروریات
دین کی حفاظت کی گئی۔ اس معاہدے کو بھی اہل سنت و اہل تشیع کے مرکزی مذہبی
قیادت کی تائید حاصل ہوئی۔گلگت اسمبلی میں بحث سے پہلے اس ضابطے پر دونوں
فریقین کی مرکزی قیادت نے دستخط ثبت کیے اور پھر باقاعدہ اسمبلی ممبران نے
ووٹنگ کے ذریعے اس کو قانون کا حصہ بنایا اور گزٹآف پاکستان نے15 اکتوبر
2012ء کو شائع کیا۔ان دونوں معاہدوں اور ضوابطہ کی وجہ سے گلگت شہر اور اس
کے مضافات میں امن کا قیام یقینی ہوگیا تھا۔ سول انتظامیہ کے ساتھ حساس
ادارووں نے بھی قیام امن میں مرکزی کردار ادا کیا مگر بدقسمتی سے 2016ء کے
اواخر میں پھر سے شہر گلگت اور اس کے مضافات بدآمنی کا شکار ہورہے
ہیں۔حکومتی رٹ کو چیلنج کیا جانے لگا۔ مساجد وامام بارگاہوں سے نفرت انگیز
خطبات دیکھنے میں آرہے ہیں۔ ریاستی رٹ کو انتہائی ڈھٹائی سے چیلنج کیا
جارہا ہے۔ایک دوسروں کے خلاف نفرت آمیز قراردادیں اور تقاریر کا سلسلہ جاری
ہے۔اپیکس کمیٹی پاکستان اور نیکٹا کے احکامات پامال کیے گئے۔ تعلیمی اداروں
کو متنازعہ بنایا گیا۔بدقسمتی سے مقدس شخصیات اور اولوالعزم لوگوں کی توہین
کی گئی۔سرکاری عمال اور پارلیمانی کمیٹوں کو رسوا کیا گیا۔دو طرفہ مذہبی
قیادت دھرنوں اور احتجاجوں پر اُتر آئی ہے، اور شومئی قسمت دیکھیں کہ مذہبی
قیادت سیاسیوں عزائم رکھنے والوں کے لیے استعمال ہورہی ہے۔معروف وفاقی
سیاسی پارٹیوں کی بدقسمتی دیکھیں کہ ان کی علاقائی قیادت بھیمذہب کے نام پر
تقسیم ہے۔ عوام نہ چاہتے ہوئے بھی ایک کو ایک مذہب کے ساتھ جبکہ دوسری
پارٹی کو دوسری مذہب کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ ان میں عوام کا قصور کم اور ان
سیاسی پارٹیوں کا قصور زیادہ ہے۔
ایک دفعہ پھر یہ خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ گلگت بلتستان میں کسی طے شدہ منصوبے
کے تحت بدآمنی کروائی جائے گی۔جس کے لیے جو جو استعمال ہوسکتا ہے اس کو
کرنی کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ سی پیک جو ملک بھر کے لیے نعمت غیر مترقبہ ہے
کو متنازعہ بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ایک طبقہ بے جا حمایت کرتا ہے جبکہ دوسرا
طبقہ بے جا مخالفت، دونوں کے پاس حمایت و مخالفت کے کمزور دلائل ہیں۔
سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے تو یہ دونوں طبقے آپس کی چپقلش کی وجہ سے سی پیک
جیسے انٹرنیشنل پراجیکٹ کی مخالفت و حمایت کرتے ہیں جو انتہائی افسوسناک
ہے۔
انسان جب اندھا مقلد ہوتا ہے تو اس کو اپنوں کی غلطیاں بھی صحیح لگتی ہیں
اور غیروں کی درستگیاں بھی غلطیاں ہی لگتی ہیں۔ گلگت بلتستان میں بھی یہی
ماحول پیدا ہوگیا ہے۔اچھائی اور برائی، صحیح اور غلط ، حق اور ناحق کا درست
تجزیہ کوئی کرنے کے لیے تیار نہیں۔ہر ایک وہی راگ آلاپتا ہے جو اسکی قیادت
کہتی ہے۔ قیادت کی سوچ، فکر اور نقطہ نظر سے ہٹ کی درست سمت رہنمائی کرنے
کے لیے نہ کوئی لیڈر سامنے آتا ہے نہ کوئی مفکر۔ بس چھوٹے چھوٹے خانوں میں
قوم کو ایک دفعہ پھر سے تقسیم کرنے کا عمل بری طرح جاری ہے۔ کچھ معاملات
بالخصوص گندم سبسڈی کے حوالے سے گلگت بلتستان کی قوام ایک پلیٹ فارم پر جمع
ہوچکی تھی لیکن اپنوں کی بے رعنائیوں اور غیروں کی ریشہ دوانیوں نے اس
اتحاد و یکجہتی کو تار تار کردیا۔جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔کاش
ہم مذہبی یا نام نہاد سیاسی بن کرسوچنے کے بجائے انسان بن کر سوچتے۔ جب تک
انسانیت کی سوچ ہمارے دل و دماغ میں سرایت نہیں کرے گی تب تک یہ حالات کبھی
درست نہیں ہوسکتے۔ بڑی سی بڑی حکومتیں اور سزائیں کچھ بھی نہیں کرسکیں
گی۔گلگت بلتستان بالخصوص شہر گلگت کی موجودہ صورت حال کو دیکھ کر لگتا ہے
کہ آئین پاکستان،نیشنلایکشنپلان، فوجداری قوانین، انسداد دھشت گردی کی
عدالتیں، امن معاہدہ اور ضابطہ اخلاق ، اپیکس کمیٹی کے احکامات اورنیکٹا کے
قواعد و ضوابط کسی مخفی کونے میں جاکر آرام فرمارہے ہیں اور انکا صحیح
استعمال یہاں نہیں ہوسکتا۔قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے۔ جرم کرنے والا
مجرم ہے چاہیے جس علاقہ و مذہب سے تعلق رکھے۔ اگر حکومت چاہتی ہے کہ ریاست
کی رٹ بحال ہوتو ملکی قوانین کے ذریعے گلگت بلتستان کو جہنم کا گھڑ بنانے
والوں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی عمل میں لائی جانی چاہیے۔اس بات کا خاص
خیال رکھا جائے کہ ان قوانین کی مد میں کوئی بے گناہ انسان قانون کے شکنجے
میں نہ آئے۔اگر قانون کا استعمال مخصوص لوگوں کو ٹارگٹ بناکر کیا گیا اور ا
س میں سیاسی و مذہبی چپلقشوں کو مدنظر رکھا گیا تو یہ ظلم عظیم ہوگا۔ بہر
صورت قانون کی نظر ہر ایک کے لیے یکساں ہونی چاہیے۔قانون کا ایک ہی مطلب ہو
کہ مجرم کا نام بس مجرم ہے کوئی اور نہیں۔ اگر یہ جرم حاکم وقت کا بیٹا یا
بھائی بھی کرتا ہے تو قانون کے مطابق اس کو بھی کٹہرے میں لا کھڑا کیا جانا
چاہیے۔اگر ایسا ہوا تو امید ہے میرا پیارا گلگت بلتستان بہت جلد جنت کا
منظر پیش کرے گا۔
میں انتہائی دردمندی کے ساتھ عامۃ الناس بالخصوص تعلیم یافتہ طبقے سے گزارش
کرونگا کہ خدارا!اپنی دھرتی کی حفاظت کے لیے ریاست کے ساتھ دیں۔ ریاست ماں
سے بھی عظیم ہوتی ہے۔ اس کی رٹ کو کسی صورت چیلنج نہ کیجیے۔ ریاست نے ہمیں
سب کچھ دیا ہے اور ایک دفعہ بھی احسان نہیں جتلایا مگر ہمیں بھی اس ریاست
کی حفاظت کے لیے اس کے بنائے قوانین کو دل و جان سے تسلیم کرنا چاہیے۔ریاست
کبھی نہیں چاہیے گی کہ وہ اپنے کسی بے گناہ شہری پر ظلم کرے یا سزا دے۔
لہذا اس ماں کی تقدیس کا خیال رکھے۔ ہر وہ عمل جو ریاست پاکستان کے لیے مضر
ہو اس سے خصوصا اجتناب کرے۔ یہ ریاست کسی خاص فرقے، قوم اور رنگ کے لوگوں
کی نہیں۔ یہ ہم سب کی ریاست ہے۔ اوراسکی تقدیس کی حفاظت اور اس کے قوانین
پر عمل ہم سب نے کرنا ہے اور اسے فوائد و ثمرات بھی ہم سب نے مل کر حاصل
کرنے ہیں۔ خدارا! اس ریاست کی حفاظت کیجیے۔ اس کی قدر ان لوگوں سے پوچھیں
جو سالوں باہر کی دنیا میں رہ کر اپنی ریاست کو لوٹتے ہیں۔ میں نے کئی
لوگوں کو دیکھا ہے جنہوں نے مملکت عزیز کے ائیرپورٹوں پر اتر کر ہی اس زمین
کو سجدہ کیا ہے اور اس کا شکریہ ادا کیا ہے۔ہمارا آپس کا اختلاف ہوسکتا
ہے۔ہمارے مفادات الگ ہوسکتے ہیں، ہماری پالیساں الگ ہوسکتی ہیں ۔ہماری
سیاسی سوچ الگ ہوسکتی ہے۔ ہمارا فکر و نظر مختلف ہوسکتا ہے۔ہماری زبان اور
علاقہ بھی مختلف ہوسکتا اور ہمارا مسلک و مذہب بھی الگ ہوسکتا ہے لیکن یاد
رہے یہ ریاست ہم سب کی مشترکہ ہے۔ یہ کسی کی مخصوص نہیں۔ آئین پاکستان اس
کی ضمانت دیتا ہے۔ اتنی بڑی ضمانت کے ہوتے ہوئے کسی اور کی ضمانت کی ضرورت
نہیں۔مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے افعال و اعمال اس چیز کی
غمازی کرتے ہیں کہ ہم اس ریاست سے شاکی ہیں۔ ہم اس کو کمزور کرنا چاہتے ہیں
اور ہم اس کے بدخواہوں کے لیے امدادی کارکن بنتے جاتے ہیں۔تو آئیے، عہد
کیجیے۔ ہم ایسا نہیں کریں گے۔ ہم ریاست کے تمام اداروں کی حفاظت کریں گے
اور قانون پر عمل کریں گے اور اپنے جائز مقاصد اور مفادات کی حفاظت قانون و
آئین کے دائرے میں رہ کر کریں گے۔ ہم آئین پاکستان،امن معاہدہ اور ضابطہ
اخلاق کو سینے سے لگائیں گے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون
کریں گے۔ ہم ہر اس عمل، قول اور فعل سے اجتناب بھرتیں گے جس سے ریاست کمزور
ہوتی ہو اور ہم ہر وہ کام کی حمایت کریں گے جس سے ریاست مضبوط ہوتی ہو۔
کیونکہ ریاست ماں ہوتی ہے ۔ کیا ہم اپنی ماں کے مخالف ہوسکتے ہیں۔۔۔؟ یقینا
نہیں۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ |