جے این یو تاریخ دوہرا پائےگا ؟ …….
(rahat ali siddiqui, Muzaffarnagar)
پندرہ دن کے سفر سے گھر لوٹ رہا ہوں۔ ٹرین
کی آواز موسیقی کا عمدہ ساز محسوس ہورہی ہے اب ملاقات کا وقت قریب ہے،نصف
ماہ گھر سے دور رہنا،عزت پیار اکرام سب کچھ پانے کے باوجود ماں باپ کی
جدائی احساس قلب کوبے چین کئے رہا۔یہی احساس ہے جو مجبور کررہا ہے کہ نجیب
کی گمشدگی پر کچھ صفحہ قرطاس کردیا جائے،اس ماں کادرد جس نے اپنے بیٹے
کوپندرہ دن سے نہیں دیکھا،اور وہ باپ جو اپنے نونہال کی آمدکیلئے بے چین ہے
انکا درد کیوں نہ پیش کیا جائے۔گذشتہ برس جب جے این یو میں اتھل پتھل چل
رہی تھی۔ حالات و واقعات خوف زدہ کررہے تھے ہر لمحہ میڈیا ذہنوں کو ہراساں
کررہاتھا،طلبہ کو دہشت گرد ثابت کیا جارہا تھا،لاٹھیاں برسائی جارہی
تھیں،مفاد پرست اینکرس کی زبانیں آگ اگل رہی تھیں،اسی دوران ایسا وقت بھی
آیا جب قلب میں یہ خوف پیدا ہوا کہ سارا معاملہ عمر خالد کہ سر ڈالنے کی
کوشش کی جارہی ہے،پل بھر میں مڈیا نے اس کے تعلقات تمام دہشت پسند تنظیموں
سے جوڑ دئے،اس کاکشمیری ہونا سونے پے سہاگاتھا،ہرہندوستانی احساس کررہا تھا
کہ عمر خالد کی زندگی جیل کی سلاخوں کے پیچھے گذریگی،وہی ماسٹر مائنڈ ہوگا،
وہی دہشت گردہوگا،وہی غدار وطن ثابت ہوگا اسکی پیشانی پر غداری کی مہر ثبت
کردی جائیگی، اسکا مستقبل تباہ وبربادکردیاجائیگا،لیکن آسمان وزمین ایک
تاریخی واقعہ کے گواہ بنے،اور جے این یو کا سیکولر نظام ہر فرد وبشر نے
کھلی آنکھوں دیکھا طلبہ اساتذہ ادراہ سے متعلق ہر شخص نے بے انتہا کوشش
کی،ڈٹ کر مقابلہ کیا بھوٹ پیاس مار سب کچھ برداشت کیا ،فرقہ پرستی کو منھ
کی کھانی پڑی، شکست اسکا مقدر ٹھری،اور تاریخ ہند میں مساوات کا ایک سنہرا
باب قائم ہوگیا، جو جے این یو کے طلبہ کی جد و جہد کا نتیجہ تھا،تمام سیاسی
رہنما اپنی روٹی سیکنے دوڑ پڑے تھے ،نفرت وعداوت کے بل پر کرسی کا سفر طے
کرنے والے خاموش ہوگئے ،پورے ملک میں فرقہ پرستی کے خلاف صدائے احتجاج بلند
ہونے لگی تھی،آزادی کا نعرہ چار سو فضا میں گونج رہا تھا،طلبہ کی یہ تحریک
عام انسانوں تک پہونچی،موقع پرست جھک گئے،عمر خالد کو رہائی کا پروانہ مل
گیا،مگر جو امیدیں آرزوئیں عام شہری نے اس تحریک سے وابستہ کیں تھیں وہ
پائیہ تکمیل تک نہ پہونچ سکیں وقت گزرتا رہا اور اس تحریک کا سورج غروب
ہوتا چلا گیا،لیکن جے این یو انتخاب میں فرقہ پرستی کی شکست نے اس تحریک
میں زندگی کی رمق کا احساس دلایا اور اس خیال کو زندہ رکھا،کہ جے این یو کہ
سیکولر نظام کو توڑ پانا بچوں کا کھیل نہیں ہے،لیکن چند دنوں قبل جے این یو
میں ایک درد انگیز واقعہ پیش آیا جس نے طلبہ کو غم و اندوہ میں مبتلا
کردیا،ایک نوجوان طالب علم کو زدو کوب کیا گیا،اسے جان سے مارنے کی کوشش کی
گئی ،اور تقریباََ 16دن گذرنے کے بعد بھی طالب علم کی کوء خبر نہیں،نجیب کو
زمین کھاگء یا آسمان نگل گیا کچھ خبر نہیں، آخر وہ کہاں ہے کس حال میں ہے ،کچھ
معلوم نہیں ،امید و بیم حسرت ویاس کے درمیان گذرتا رہا ہر لمحہ قلب کو
جھنجھوڑ رہا ہے ،اور نجیب کی جدائی کا احساس دلارہا ہے ،اس کی ماں کے بہتے
آنسو غم سے نڈھال چہرا دل کو تڑپا دیتا ہے،اسکے والد کی کیا کیفیت ہوگی جس
نے محنت جد جھد کرکے اپنے بیٹے کو اس مقام تک پہونچایا،خود نجیب کس اذیت
ناک صورت حال میں مبتلا ہے اسکا خیال ہی خوف زدہ کرنے کے لئے کافی ہے،سورج
اگتا ہے،اپنا سفر مکمل طے کرکے غروب ہوجاتا ہے،مگر نجیب کے تعلق سے کوء اہم
سراغ نہیں ملتا،پولس کے ہاتھ خالی ہیں،انتظامیہ کی سست روی بھی باعث تشویش
ہے،طلبہ نے احتجاج ضرور کئے ہیں،مگر وہ جوش خروش نظر نہیں آیا،جو عمر خالد
اور کنہیا کے لئے رہاء حاصل کرنے میں نظر آیا تھا ،کیا جے این یو کا سیکولر
نظام بکھر گیا ؟یا اداروں میں تعلیم کی جگہ سیاست کا درس دیا جارہا ہے،موقع
پرستی سکھائی جارہی ہے،روہت وومیلا کے دردناک واقعہ پر ہندوستان بھر کے
طلبہ نے تحریک چلائی انصاف دلانے کی مکمل کوشش کی،کنہیا کمار عمر خالد اور
انربان بھٹاچاریہ کو جیل کی سلاخوں سے آزاد کرانے کے لئے بھی طلبہ متحد
ہوئے،اور فرحت بخش لمحات ہر ہندوستانی کو میسر آئے، دل گواہی دے رہا تھا کہ
ہندوستان کا مستقبل تابناک ہے، تعلیم یافتہ ایک ایسی کھیپ تیار ہورہی ہے ،جسے
مذہب ذات رنگ و نسل اور علاقائیت سے کوء سروکار نہیں ہے، انکے فیصلہ ملک کی
تقویت اور انسانیت نوازی کا پتہ دیتے ہیں،اس خوشی کو ہر ہندوستانی اپنے قلب
میں محسوس کررہا تھا اور آنے والے ایام کے تصور سے خوش ہوجاتا ،مگر نجیب کے
سانحہ نے اس خوشی کو کافور کردیا ہے،اور پھر سے احساسات میں تبدیلی آئی ہے
خوشیاں غموں میں تبدیل ہوء ہیں ،اس وقت لیفٹ کے بڑے بڑے سیاسی رہنما میدان
میں کود پڑے تھے،انہیں کنہیا میں مستقبل کا بڑا لیڈر نظر آرہا تھا اور
حالات کی بھٹی اسے تپا کر کندن بنا رہی تھی،مگر آج منظر نامہ بدلا ہوا ہے ،اب
خطرے میں طلبہ یونین کا صدر نہیں ایک نو وارد طالب علم ہے ،جس نے جیے این
یو کی فضا میں اسی سال قدم رکھا ہے،حالات نے اسے اپنے چنگل میں پھنسا
لیا،اب انتظامیہ کے کارکنان میں وہ تیزی نظر نہیں آرہی ہے،جن طلبہ نے نجیب
کے ساتھ مار پیٹ کی کیا ان سے سخت انداز میں سوالات کئے گئے؟ کیاموقع
واردات پر موجود واڈرن سے پوچھا گیا ؟ان پر سختی کی گء ؟کئی دنوں تک نجیب
کے لاپتہ ہونے کی خبر سے انتظامیہ کیسے انجان رہا؟کیوں اسکے اہل خانہ کو
خبر نہیں دی گئی؟ ابتدائی مرحلہ میں کیوں پولس کو تحقیقات پر مجبور نہیں
کیا گیا؟تحقیقات کے لئے بنائی گئی ٹیم نے اب تک کیا کیا ؟اس سے سوالات کیوں
نہیں گئے؟اگر کئے گئے ہیں تو ان سوالات کے جوابات کہاں ہیں،کیا میڈیا نے
ایک مفلس و لاچار ماں کے غم کو سمجھا ہے،نجیب کی گمشدگی نے اب تک یہ واضح
کیا ہے ،کہ جے این یو بھی اس مرتبہ سستی کا شکار رہا ہے، اور اپنی تابناک
تاریخ کو ابھی تک دوہرا نہیں پایا،اب یہ مستقبل کی کوکھ میں پوشیدہ ہے،کہ
آنے والے وقت میں کیا ہوگا؟ کیا پھر جے این یو اپنے سیکولر نظام کی حفاظت
کرپائیگا؟کیا پھر اسی طرح ایک لہر اٹھیگی اور شدت پسندوں کے محل کو غرق
کردیگی؟کیا پھر سے طلبہ نکلیں گے اور اپنے بھائی کو لیکر لوٹیںگے؟۔کیا پھر
سڑکوں پر نکل کر جے این یو کی تاریخ کی حفاظت کی جائیگی؟۔کیا پھر سے
میڈیامجبور ہوگا حقائق پر روشنی ڈالنے کیلئے،اور سچائی کو عیاں کرنے
کیلئے؟ایک غمزدہ ماں کے آنسو پوچھنے کیلئے وہ لیڈران بھی آئینگے؟ایک بے بس
باپ سے ملنے کیلئے اتحاد ویکانگت کے ٹھیکیدار لیفٹ کے رہبران میں بھی ہلچل
ہوگی یا نہیں ؟۔کنہیا سے ملنے راہل کیجریوال بھی گئے تھے ابھی معلوم نہیں
کہاں ہیں ؟کب انکو وقت میسر آئیگا؟یہ وہ تمام باتیں ہیں جو اس حقیقت کوعیاں
کررہی ہیں جے این یو اپنی تاریخ سے ابھی تک پوری طرح انصاف نہیں کرپایا
ہے،خدا کرے جے این یو اپنی تاریخ دوہرائے،گنہگاروں کو سزا ملے، نجیب ہمارے
درمیان صحیح سلامت لوٹ آئے اور پھر کسی طالب علم کو روہت نجیب
کنہیااورخالدجیسے حالات سے سابقہ نا پڑے کیونکہ اس طرح کے واقعات ہندوستان
کے وقار کو ٹھیس پہونچائینگے اور اسکے مستقبل کو خطرہ ہوگا۔ |
|