مسائل سے نجات کا راستہ ……
(rahat ali siddiqui, Muzaffarnagar)
صدیاں بیت چکیں کائنات نور نبوت سے خالی ہے
تاریکی معاشرہ پر چھا چکی ہے تہذیب و شائستگی سلیقہ و کلچر سب کچھ انسانیت
کے زمرے سے خارج ہوچکا ہر صبح سورج اگتا ہے اس کی سنہری خوبصورت دلکش کرنیں
ریگستانوں پر پڑتی ہیںسونے کی طرح یہ صحراء چمکنے لگتہے،آنکھیں خیرا اور
چکا چوند ہوجات ی ہیں،رات آتی ہے تو چاند کی ضیا پاشی سے یہ جزیرہ سمندر
محسوس ہونے لگتاہے صورت حال ایسی کہ پیاسے کو پانی کا گماں ہوجائے اور وہ
اس جانب دوڑ پڑے ہرے بھرے باغات کھجور کے خوشہ دنیا کی سب سے عمدہ
غزا،خوبصورتی دلکشی اور جغرافیائی اعتبار سے نمایاں مقام،مگر ان تمام اوصاف
حسنہ کے ساتھ پژمدرگی اس خطہ کا مقدر ہے،بے حیائی فحاشی بداخلاقی بدکرداری
اوصاف رذیلہ سے متصف افراد کا یہ زمین مسکن ہے، زناکاری پر فخر آبرو ریزی
معاشرہ کا ا متیاز، شراب نوشی فیشن،لڑکیوں کو زندہ در گور کرنا عزت و ناموس
کی حفاظت کا ذریعہ،تلواروں کی آواز سے خوفزدہ بچے تھوک پر بھتا خون،رحمت
الہی کو جوش آیا اور انکی اصلاح کا فیصلہ ہوا انکے قلوب کی سختی کو نرمی
کدورت کو محبت میں تبدیل کرنے کا یہی موزوں اور مناسب وقت ہے،چونکہ مشاہدہ
اس حقیقت کو عیاں کرتا ہے، اور تاریخ کے صفحات گواہی دیتے ہیں کہ جب شباب
ہوتا ہے، تو وہ ضعف کمزوری اور بڑھاپے کی اشارہ کرتا ہے،صبح کی نورانیت سے
قبل رات کا گھنگھور اندھیرا ہوتا ہے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آتی
کہ صبح کی پو پھوٹیگی لیکن سورج کی پہلی کرن ہی خیالات کی دنیا کو متزلزل
کردیتی ہے اور کچھ لمحات کے بعد غیر متصور شء صبح کی شکل میں حقیقت بن کر
ابھرتی ہے،جس کو احمد فراز نے اپنی نظم محاصرہ میں اس انداز سے بیان کیا ہے،
اسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے
رات جب کسی خورشید کو شہید کرے
توصبح ایک نیا سورج تراش لاتی ہے
صحرائے عرب کے بسنے والوں کو دیکھ کر حالات و واقعات کو پرکھ کر ہر ذی شعور
فرد ادراک کرلیتا کہ اب رحمت خداوندی موسلادھار بارش کی طرح انکے بنجر قلوب
پر برسنے والی ہے،سماں تبدیل ہونے والا ہے پژمردگی حیات میں تبدیل
ہوجائیگی،بداخلاقی کو خلق حسن میں بدل دیا جائیگا تمام اوصاف رذیلہ کی جگہ
اوصاف حمیدہ ہونگے سسکتی بلکتی انسانیت کو قرار آجائیگا،قیامت تک اس زمانے
کی خصوصیات زندہ رہینگی ان افراد کی پیروی فوز و فلاح کی ضمانت ہوگی،لوگ
انکی مثالیں پیش کرینگے،یہ زمانہ ازل سے ابد تک کا سب سے بہترین زمانہ
ہوگا،جس میں انسانیت سماج و مذہب کا وہ خوبصورت تانہ بانہ بنا جائیگا،جس پر
تمام سماجی و معاشرتی علوم کی بنیادیں ٹکی ہونگی،انکے اقوال و اعمال قیامت
تک انسانیت کی بنیادوں کو مستحکم کرتے رہینگے،اسکی اقدار کو بلند کرتے
رہینگے،کیونکہ عادت اللہ یہی ہے جب جب زوال آتا ہے،تب تب مالک حقیقی اس کو
ایسی بلندیاں عطا کرتے ہیں،کہ وہ لازوال اور بے مثال ہو جاتا ہے،اگر ہمیشہ
سورج کو گرہن لگا رہے چاند ہمیشہ بادلوں کی اوٹ میں چھپا رہے تو روشنی کس
کو میسر آسکتی ہے،جب کہ وہ سب سے بڑی ضرورت ہے،اسکے بغیر دنیا کا نظام
درہم برہم ہوجاتا، مگر بادل بھی آتے اندھیرا بھی ہوتا ہے،یہی نظام کائنات
ہے ,,تلک الایام نداولھا بین الناس،یہی طاقت خداوندی کا مظہر ہے، لیکن اس
حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بنجر زمین کو قابل کاشت بنانے کے لئے جہد
مسلسل کی ضرورت ہے،سیراب کرنا گاہنا جوتنا،الفاظ کی دنیا میں مختصر ہے،مگر
کسان ان حقائق سے آشنا ہے،اور اسکے حقیقی مفہوم سے آگاہ ہے،اسی طرح نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحرائے عرب کی خاک کو کندن کرنے کے لئے بے پناہ
کوشش کی،انکے بنجر قلوب کو قابل کاشت بنایا اور اسلام کی کھیتی کی، عادت و
اخلاق محبت و موودت کے ثمر آئے،چند جملوں اس حقیقت کو پرویا نہیں
جاسکتا،بلکہ الفاظ میں اتنی وسعت کہاں جو ان حقائق کو سموں سکے،جذبات ایک
عالم اکبر ہے، الفاظ کی دنیا چھوٹی سی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان خدمات
جلیلہ کا الفاظ کی دنیا سے حق تو ادا نہیں ہوسکتا ہے،مگر حالات و واقعات
تغیر اس بات کا متقاضی ہے کہ زمانہ پھر اس طرح کی کیفیات کا شکار ہوسکتا
ہے،معاشرتی ڈھانچہ تباہی کے دہانے پر پہونچ سکتا ہے،پھر یہ الفاظ ہمارے
رہنما ہونگے یہی ہمیں نبی آخرالزماں کے طریقہ کار سے واقف کرائینگے،اور
قرآن واضح کر چکا ہے،لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوتہ حسنہ،آپ کا طریقہ
دنیا میں سب سے بہتر اور احسن ہے،یہیں سے کامیابی فوز و فلاح کی راہیں
نکلتی ہیں یہیں سے ہر پیاسے کو سیرابی ملتی ہے اور تمام مشکلات و مصائب کا
حل اسی طریقہ کار میں پوشیدہ ہے یہیں ہمیں زندگی گزارنے کا سلیقہ اور شعور
ملتا ہے،یہیں ہمیں معاشرہ کی صلاح و فلاح کا طریقہ کار ملتا ہے،یہیں
برائیوں کے خاتمہ کی تدابیر موجود ہیں،یہیں اسلام کی ترویج و اشاعت کا طرز
موجود ہے،یہیں دعوت و تبلیغ کے اصول پائے جاتے ہیں،صدیوں سے کفر و شرک میں
پڑے لوگوں کو ہدہدایت سے آشنا کرنے کا انداز یہیں سے ملتا ہے،مکہ کی گلیوں
اور طائف کے گلیاروں سے آتے سنگریزوں کو گلوں میں تبدیل کرنے کا ہنر بھی
محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں موجود ہے۔
ضرورت ہے کہ ہم سیرت کے ان پہلوؤں کو باریکی سے دیکھیں،اور اپنی زندگی کو
منظم کریں ،آج پھر ہندوستان اسی دوراہے پر کھڑا ہے جہاں برائیاں، کفر و
شرک، ضلالت و گمراہی عام ہے،غربت و افلاس نے مسلمانوں کو توڑ کر رکھ دیا
ہے،تعلیمی پسماندگی، معاشی کمزوری ،سیاسی بے راہ روی ،اختلافات ،حالات کی
ابتری ،ہندوستانی مسلمان ہر دن نئے مسائل کا استقبال کرتے ہیں،جن کے خاتمہ
کے لئے نہ کوئی منصوبہ بندی ہے،نہ کوئی طریقہ کار ،ایسا لگتا ہے ،کہ راہیں
مسدود ہوگئیں ،ہر کوئی اپنی دنیا میں گم ہے مسائل کا احساس و ادراک تو کرتا
ہے ،مگر اس کے ازالہ کی تدبیر نہیں کرتا اس لئے امت کے اعلی طبقہ کی ذمہ
داری ہے، جس طریقہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسائل کا سد باب کیا،صحابہ
کو کاربند کیا حالات سے ان کو آگاہ کیا،ان کی صلاحیتوں کے مطابق انہیں کام
سونپے ،اسلام کا چار سو بول بالا ہو گیا ،اس طریقہ پر ہم بھی عمل پیرا ہو
جائیں ،چونکہ فوز و فلاح اور کامیابی آپ ہی کے طریقہ میں مضمر ہے،آپ ہی کی
زندگی ہمیں ان مسائل سے نکلنے کا راستہ دکھائے گی اور برائی کا خاتمہ
ہوجائے گا۔ |
|