آج ساری دنیا کی قومیں اسلام اور مسلمانوں
کے خلاف بہ یک زبان اس کی بیخ کنی اور اس کے انسانیت نواز متوازن پیروکاروں
کو نہایت مذموم وقابل نفرت شکل میں پیش کرنے کی سعی کررہی ہیں، ساری دنیا
کے ذرائع ابلاغ آج اپنی پوری قوت وتوانائی اسلام ومسلمان دشمنی میں صرف
کررہی اور نت نئی چیزیں ایجاد وگھڑ کر پیش کررہی ہیں، تاکہ دنیا کے باشندے
اسلام اور مسلمانوں سے اس قدر متنفر ہوجائیں کہ کوئی ان سے قریب ہونا اور
ان کی بات اور سچی دعوت کو سننا بھی پسند نہ کریں، آج اسی منفی پروپیگنڈوں
کی بنیاد پر الیکشن لڑے جاتے اور اسلام دشمنی کے سارے ملک کے عوام کے ذہن
کو مسموم کرکے اقتدار تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن اس منفی
پروپیگنڈوں، مکارانہ منصوبوں، اور دروغ گوئیوں پر مبنی سرگرمیوں کے باوجود
ہم دیکھ رہے ہیں کہ ساری دنیا میں بڑے بڑے محققین، انصاف پسند باشندے، کھلی
ذہنیت رکھنے والے اہل علم ودانشور، خیر وشر کے درمیان امتیاز کرنے کے
خواہاں حق کے متلاشی اور چین وسکون وراحت وقرار کے جویا اسلام کا از سر نو
مطالعہ کررہے، کھلے دل وماغ سے اس کی تعلیمات کا جائزہ لے رہے اور ظاہری
پروپیگنڈوں سے ہٹ کر مسلمانوں کے طرز عمل کو تول رہے اور ان کے خلاف
پروپیگنڈوں کو میزان عدل پر رکھ کر تولنے کی کوشش کررہے ہیں۔ سچائی وانصاف
پسندی سے اسلام کا مطالعہ کرنے اور مسلمانوں کو پڑھنے سے انہیں اندازہ
ہورہا ہے کہ دنیا کے اندر موجود مذہبوں میں اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس
کی خصوصیات نمایاں، اس کی تعلیمات منفرد، اس کی اثر انگیزی محیر العقول، اس
کی گرفت نہایت مضبوط، اس کی انسانیت نوازی ممتاز، اس کا عدل قابل تقلید، اس
کی فکر واس کا نظریہ بالکل صاف وشفاف اس کا ہر حکم فطر ت انسانی کے مطابق،
اس کی ہر بات حقائق وصداقت کی عکاسی کرنے والی اور اس کا پورا نظام نہایت
متوازن ہے‘ جس میں کہیں جھول نہیں اور اس میں نہ بے جا شدت ہے اور نہ بگاڑ
وخرابی پیدا کرنے والی نرمی، اسلامی نظریہ ہی دنیا کے سارے نظریوں پر غالب
ہے، اس کے اندر روحانیت بھی ہے اور مادیت بھی، اس کے اندر سچائی ہے جس میں
ظاہری ملمع سازی نہیں، یہی سچا دین ومذہب ہے جو پہلے والوں کیلئے بھی عظیم
پیغام تھا اور آج کے لوگوں کیلئے بھی اور آئندہ آنے والوں کی لئے بھی ہے۔
اس مذہب کا ایک مقصد ہے، غرض وغایت ہے، دعوت وآواز ہے، قوت وعزت ہے، قیادت
وسلطانی ہے، اخلاق واقدار ہے، تعلیم وثقافت ہے، تہذیب وکلچر ہے، رفعت
وبلندی ہے، شفافیت وپاکی ہے، انسانیت اگر اپنی نفسانیت اور خواہشات نفسانی
سے اوپر اٹھ کر غور کرے اور تعصب وعداوت کی پٹیوں کو آنکھوں سے اتا کر اسے
دیکھے تو اسے بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ اسلام اور اس کی تعلیمات کتنی عظیم
الشان ہے، اس کا پیغام کس قدر ہمہ گیر اور فلاح وسعادت کا ضامن ہے۔ اس کی
قدرو قیمت ادیان عالم اور خود ساختہ مذاہب وافکار ونظریات کے درمیان کس قدر
بڑھی ہوئی ہے، اسلام کی اس سچائی اور عظمت شان کی وجہ یہ ہے کہ اس کا پیغام
اور اس کا انداز فکر انسانوں تک دنیا کے مفکر ین وعقلاء کے واسطہ سے‘ دنیا
کے قانون دانوں اور حقوق کی آواز بلند کرنے والے انسانوں کے ذریعہ یا
فلاسفہ وخیالی تانے بانے جوڑنے والوں یا سیاسی قائدین ورہنماؤں کے ذریعہ یا
سماجی کارکنوں اور تجربات سے گذرنے والے ماہر نفسیات کی جانب سے نہیں پہنچا
ہے بلکہ نبیوں اور رسولوں کے واسطہ سے پہنچا ہے جن کے پاس اﷲ کی جانب سے
وحی آتی ۔اسی لئے ہمارا ایمان وایقان ہے کہ اسلام کا پیغام اس کا نظام حیات
اس کا طریقہ کار، اسکی دعوت اس کی کتاب اور اس کا دستور وقانون ربانی ہے،
اس کا سرچشمہ اﷲ کی ذات اور اس کا ارادہ ہے، یہ کسی بادشاہ، کسی سربراہ ملک‘
کسی امیر‘ کسی عوام، کسی پارلیمنٹ‘ کسی پارٹی، جماعت کا بنایا ہوا نہیں
بلکہ اﷲ کا بنایا ہوا ہے، اس لئے اﷲ کے بنائے ہوئے نظام وقانون میں کسی
مخصوص قوم وملک اور کسی خاص جماعت ورنگ ونسل کے مفادات کی رعایت نہیں رکھی
گئی ہے، بلکہ اس میں پورے عدل وانصاف کے ساتھ ساری دنیا کی قوموں اور ہر
رنگ ونسل اور ہر زمانہ کے لوگوں کی رعایت رکھی گئی ہے، اﷲ کی جانبداری کسی
خاص رنگ ونسل اور کسی خاص جنس ونوع اور حسب ونسب سے نہیں ہے، بلکہ اس کا
سلوک ہر ایک کیساتھ یکساں ہے، وہ انسانوں کا بھلا ہی چاہتا ہے، برا نہیں،
وہ خیر ہی کو پسند کرتاہے، شر کو نہیں، وہ صلاح وبہتر کو ہی پسند کرتا ہے،
فساد وبگاڑ کو نہیں،اس کے نظام میں کوئی کمی زیادتی بھی نہیں کہ جس سے
انسانی دماغ لازمی طور پر دوچار ہوتا ہے خواہ وہ کتنا ہی بڑا مفکر کیوں نہ
ہو، اور یہ مخصوص زمانہ یا مخصوص خطہ تک محدود بھی نہیں ہے، اسلام کا نظام
کوئی تاریخی ودستوری نظام نہیں جو مخصوص زمانہ، مخصوص خطہ، مخصوص رنگ ونسل
اور مخصوص وقت کیلئے ہو، سابق میں شریعتیں مخصوص خطہ اور مخصوص قوموں
ولوگوں کیلئے آتی تھیں تاکہ ان کے مردہ دلوں کو زندہ کیا جائے اور ان کی
آبیاری کرکے ثمر آور بنایا جاسکے،سابق میں مبعوث کئے جانے والے نبیوں نے
اپنی قوم اور اپنے علاقہ کی تاریکیوں کو دور کیا اور انسانیت کو نور ہدایت
سے سرفراز کیا، گمراہوں اور بھٹکے ہوؤں کو سیدھی راہ دکھائی اور ان کی
رہنمائی اپنی زندگی میں کرتے رہے، اخیر میں جب اسلام کا سورج طلوع ہو اتو
اس نے ساری دنیا کو منور کردیا، اور سارے راستے جگمگا اٹھے، بلا شبہ دین
محمدی اور اس کی کتاب سب سے طاقتور ثابت ہوئی، اس کی باتیں نہایت محکم ہیں،
اس نے سابقہ سارے پیغامات کو اپنے اندر سمولیا اور بکھری قوموں کو ایک لڑی
میں پرو دیا۔اسلام کے خلاف پوری قوت اور شد ومد کیساتھ پروپیگنڈے کے اس دور
میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ کھلے دل ودماغ سے جو اسلام کا مطالعہ کرتا ہے اس
کا اسیر ہوجاتا اور اس کی تعلیمات سے واقفیت حاصل کرکے اس کا متبع بن جاتا
ہے، کوئی ایسی خوبی نہیں جس کا اسلام نے حکم نہ دیا ہو اور کوئی ایسی برائی
نہیں جس سے اسلام نے روکا نہ ہو، کوئی ایسا خیر وبھلائی کا کام نہیں جس پر
اسلام نے ابھارا نہ ہو، اور کوئی ایسا کامیابی کا راستہ نہیں جس کی اسلام
نے رہنمائی اور اس کی تربیت نہ کی ہو، اور کوئی ایسی مشکلات وپریشانی نہیں
جس میں اس نے انسانیت کی بڑی ہمدردی وخیر خواہی کیساتھ دستگیری نہ کی ہو،
ذرا آپ موازنہ کریں ان دو تعلیمات کا جو اسلام نے اور مسیحیت نے پیش کی
ہے۔اسلام کی کتاب دستور میں ہے۔( سورۃ الزمر: ۳۵)ترجمہ: میرے جانب سے کہہ
دو کہ اے میرے بندوجنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، تم اﷲ کی رحمت سے
ناامید نہ ہوجاؤ، یقینا اﷲ تمہارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی وہ بڑی
بخشش اور رحمت والا ہے۔بلا شبہ اسلامی تعلیمات عملی تعلیم ہے جس میں اقوام
عالم کی تعمیر وترقی کا نمونہ موجود ہے، اسلام بھٹکے ہوؤں کو امید دلاتا ہے،
مایوس نہیں کرتا، اور اس طرح اسے صحیح رخ پر ڈھالتا اور مسلمان فرد کو اس
قابل بناتا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے کہ اﷲ کے تعلق سے اس کی کیا
ذمہ داریاں ہیں اور بندوں سے متعلق کیا ہیں، ایک دوسرے جرمن مفکر انگرام نے
کھلے دل ودماغ سے اسلام کا مطالعہ کیا اور اسلام قبول کرلیا، ان کا کہنا
تھا:میں سمجھتا ہوں کہ اسلام ہی ایک ایسا دین ومذہب ہے جو نفس وروح انسانی
کو راحت وسکون پہنچا سکتا اور امن وامان سے بہرہ ور کرسکتا ہے وہی انسان کو
ذہنی سکون عطا کرتا اور زندگی کو راحت‘ طمانیت بخشتا ہے، آج ہم اسلام کے
فرزند ہیں، اور ہم اس سے بہت خوش ہیں، کہ اس نے ہماری زندگی کو خوشیوں،
مسرتوں اور سعادت وخوش بختی سے بھر دیا ہے۔سابق برطانوی وزیر روبن کک نے
ایک مرتبہ کہا تھا۔ہماری تہذیب اسلام کا شہر ہے، دین اسلام ایسا دین ومذہب
ہے جو مغرب کے لئے بھلائے جانے کے قابل نہیں ہے، اسی لئے ہم اپنے تعلقات کو
عالم اسلام میں بڑھانے اور ترقی دینے کے خواہش مند ہیں، ہماری ضرورت ہے کہ
ہم اسلامی دنیا سے رابطہ میں رہیں، آپس میں ایک دوسرے سے بات چیت کریں، اس
طرح ہم مذہب اسلام کی تہذیب اور اس کے صاف وستھرے کلچر سے مستفید ہوسکتے
ہیں۔
تاریخ شاہد ہے کہ مغرب اسلام کا مرہون منت ہے، اس نے اسلام سے بہت کچھ
سیکھا اور حاصل کیا ہے، اسلام ہی نے مغربی تہذیب کے مختلف میدانوں کے لئے
فکری بنیادیں وضع کیں اور اہم رہنائی کی ہے جسے مغرب نے اپنا یا مگر اسے
تبدیل کرکے‘ اسلام نے مغرب کو سائنس، تہذیب وثقافت، نفسیات اور سماجیات
جیسے علوم سے آشنا کیا۔اس طرح کی سچائی کا اعتراف مختلف ادوار میں مغرب کے
اہل فکر ونظر کرتے رہے ہیں اور آج خود مسلمان اپنی تہذیب اپنے پیغام اور
اپنے نظام حیات سے نا آشنا ہے اور جس نے ہم سے اپنی تہذیب مستعار لی تھی،
اسی کی اندھی تقلید میں فخر محسوس کرنے لگے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم
نہ اسلام کے رہے اور نہ مغربی بن سکے، جبکہ خود مغربی مفکرین میں سے ایک
معروف مفکر ’’مارسیل بوازا‘‘ اعلان کررہا ہے کہ آج ضرورت اصلاحات سے متعلق
اسلامی فکر کو واپس لانے اور اپنانے کی ہے اس کی تجلی دائمی وابدی ہے،
تقلبات زمانہ کیساتھ کہنہ وبوسیدہ ہونے والی نہیں ہے، آج بھی مسلمان اپنے
دین ومذہب اور اس کی تعلیمات کے ذریعہ دنیا کو امن وسکون، راحت ومسرت اور
سعادت وخوش بختی عطا کرسکتے ہیں، ضرورت ہمیں اپنے دین ومذہب کو سمجھنے اور
اس کے مطابق عمل کرنے کی ہے۔ اے کاش کہ مسلمان اپنی زندگی کو سنوارنے پر
توجہ دیں اور دوسروں کیلئے نمونہ بنیں۔ |