جانِ جہاں

وہ جانِ جہاں، حبیبِ ربُ الاعلیٰ
وَالشّمس بہ صورت و بہ قامت بالا
فخرِ حسنؓ و حُسینؓ و زہرا ؓ و علیؓ
مکّی مَدَنی رسُول ، کملی والا

رَبِ علیم و قدیر ہی کے لائق ہیں سب تعریفیں جس نے اَمر کُن سے تمام جہانوں کو بہترین تناسب سے تخلیق کیا اور انسان کو احسنِ تقویم میں پیدا فرما کر اُسے لقد کرمنا بنی آدم کا تاج پہنا کر اپنی قدرت کا مظہر اور پرتوَ بنا کر روئے زمین پر بھیجا، بعض علماء کرام نے اس حدیث کو بھی اسی معنی ومفہوم پر محمول کیا ہے جس میں ہے کہ اِنَّ اللہ خَلَقَ آدَمَ عَلیٰ صَورَتِہِ یعنی اللہ تعالی نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا۔
(مسلم شریف، کتاب البر و الصلۃ و الآداب، بحوالہ فتح القدیر)
اگر ہم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہیں تو ہرگز نہ کر سکیں گے۔
گر بر تن من زبان شو د ہر مو
احسان ترا شمار نتوانم کرد

کہ اُس نے کائنات کو اپنے فضل سے وجود و نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم تر نعمت سے سرفراز فرمایا۔ لا محدود درود و سلام اُس وجودِ مسعو دصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرجو اس جہان کی پیدائش کا سبب ہے اور بے چین اور بے قرار دلوں کا چین و قرار ہے۔
اس صورت نوں میں جان آکھاں
جان کہ جانِ جہان آکھاں
سچ آکھاں تے رب دی شان آکھاں
جس شان تھیں شاناں سب بنیاں

علامہ الوسیؒ فرماتے ہیں کان۔۔۔۔ رمزا الی ان المقبل علیہ با لخطاب لہ الحظ الاعظم فھو صلی اللہ علیہ والہ وسلم علی الحقیقۃ الخلیفہ الاعظم ولو لاہ ما خلق آدم ولا ولا (روح المعانی)
یعنی حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مقدس بھی حقیقت میں خلیفہ اعظم ہے اور اگر یہ ذاتِ گرامی نہ ہوتی تو آدم ہی نہ پیدا ہوتے
بلکہ کچھ بھی نہ ہوتا۔
ہوتے نہ اگر آپؐ تو ہوتی نہ کوئی چیز
سب کچھ ہے، وجود اور عدم آپؐ کی خاطر

قرطبی میں ہے قال قتادہ: ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال کنت اول الانبیاء فی الخلق و آخر ھم فی البعث
(یعنی قتادہ کہتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری تخلیق تمام انبیاء سے پہلے ہوئی اور بعثت سب کے بعد۔

ایک اور جگہ بیان ہے کہ : انہ اول الخلق (قرطبی) یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش سب مخلوق سے پہلے ہوئی۔

جس پاک نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے کائنات کو ربُ العالمین نے امر کُن سے پیدا فرمایا اسی کائنات کے لیے حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کا اعلان یوں فرمایا۔
وما ارسلنک الا رحمۃ اللعالمین(اور ہم نے آپ کو سارے جہان کے لئے رحمت بنا کر بھیجا)

عالم کہتے ہیں اللہ کے ماسوٰی کو۔ اس میں بہت سی اقسام ہیں مثلاً عالم امکان، عالم امر، عالم انوار، عالم اجسام، عالم انسان،عالم حیوانات، عالم نباتات و عالم جمادات وغیرہ وغیرہ ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر ہر عالم کے لئے رحمت ہیں۔ بلکہ جس کا خدائے پاک رب و خالق ہے اُس کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمت ہیں۔ روح البیان نے اسی آیت کے تحت ایک حدیث پاک نقل کی ہے کہ ایک بار حضور علیہ الصلواۃ والسلام نے حضرت جبرئیل ؑ سے پوچھا کہ اے جبرئیل ؑ ہم تو رحمۃاللعالمین ہیں اور تم بھی عالم میں ہو۔ بتاؤ تم کو ہم سے کیا رحمت ملی؟ عرض کیا یا حبیب اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم اب تک مجھے اپنے انجام کی خبر نہ تھی خراب یا اچھا۔ لیکن آپ کی وجہ سے مجھ کو امن مل گیا اور مجھے اطمینان ہو گیا کیونکہ رب تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا " ذی قوۃ عند ذی العرش مکین۔ مطاع ثم امین"

رب العالمین نے ساری کائنات کو رحمۃاللعالمین صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے لئے تخلیق کیا اور تمام کائنات کو محبوب علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ محبت اور اُن کی پیروی کرنے کا حکم ان الفاظ میں دیا۔ قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ و یغفرلکم ذنوبکم ط واللہ غفور رحیم ط
یعنی اے میرے محبوب فرما دیجیے اگر تم محبت کرتے ہو اللہ سے تو میری پیروی کرو، محبت فرمانے لگے گا تم سے اللہ اور بخش دے گا تمھارے لئے تمھارے گناہ اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔

اس آیت کریمہ نے تمام دعوے داران محبت کے لیے ایک معیار مقرر فرما دیا ہے کہ محبت الہی کا طالب اگر اتباع محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے یہ مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے تو کامیاب ہے ورنہ اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے۔ اب اگر نجات ہے تو اطاعتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہے اور اس سے انحراف کفر ہے۔ اس آیت کریمہ میں حجیت حدیث کے منکرین اور اتباع رسول(سنت) سے گریز کرنے والوں کے لئے سخت وعید ہے۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کا قرب بلند بانگ اور طویل و عریض دعوؤں سے نہیں بلکہ اُس کے محبوب علیہ الصلوۃ والسلام کی سچی محبت و پیروی میں ہے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت دل و جان سے کی تو تمھارا دعویٰ محبت بھی درست تسلیم کر لیا جائے گا۔ اور نامہ اعمال کی سیاہی کو رحمت و مغفرت کے پانی سے صاف کر دیا جائے گا۔ اگر امت مسلمہ اتباع حبیب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا شعار بنا لے اور سنت سرور کائنات کے سانچے میں اپنی سیرت ڈھال لے تو کیا یہ محبوبیت کی خلعت فاخرہ سے نوازی نہیں جائے گی۔ کیا قرآن پاک نے ہی بے شمار مقامات پر نہایت واضح انداز میں حکم نہیں دیا کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرو۔ گویا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت دراصل اطاعتِ خداوندی ہے اگر رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اتباع نہ کیا تو گویا ہم نے قرآن کی بے شمار آیات کا انکار
کیا۔ امام ابوالحسن آمدی نے اتباع کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
" الاتباع فی الفعل ھو التاسی بعینہ والتاسی ان تفعل مثل فعلہ علی وجھہ من اجلہ"
(کسی کے فعل کے اتباع کا یہ معنی ہے کہ اس فعل کو اس طرح کیا جائے جس طرح وہ کرتا ہے اور اس لئے کیا جائے کیوں کہ وہ کرتا ہے)

اتباع و اطاعت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو حکم قرآن نے ہم کو دیا اس کی تعمیل کی صرف یہ صورت ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے افعال کو بالکل اسی طرح ادا کریں جیسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ادا فرمائے اور صرف اس لئے کہ یہ افعال ذاتِ اطہر و اقدس سے ظہور پذیر ہوئے ہیں۔ جو جمال وکمال کا وہ پیکر ہیں جس سے حسین تر اور جمیل تر چیز کا تصور تک ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی توحید کا عرفانِ اتم دراصل اتباع و محبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے۔

آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی فرمانبرداری ہی وہ اساس محکم ہے جس پر اتحادِ ملت کا ایوان تعمیر ہو سکتا ہے۔ آج ملت انتشار کا شکار ہے۔ ہمیں متحد ہونا ہے اس اساس پر اور ملت کے انتشار کو دور کرنا ہے۔

اللہ پاک ہم سب کو اپنے فضل سے اور رحمۃاللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے انتشار سے بچائے اور اپنے محبوب علیہ الصلوۃ والسلام کی کما حقہ پیروی و اطاعت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Tanveer
About the Author: Tanveer Read More Articles by Tanveer: 5 Articles with 13988 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.