آج سے تین چار دھائیاں واپس نظر دوڑائیں تو
آپ دیکھیں گے،ان دنوں نفسا نفسی قدرے کم ہوتی تھی۔جس کی وجہ سے ہمارے
معاشرہ میں بہت ساری خوبصورت روایات زندہ و تابندہ تھیں۔گاؤں ،محلے میںکسی
کے ہاں بھی غمی اور خوشی کاموقعہ ہوتا سب محلے والے اس کے دکھ درد میں عملی
طور پر شریک ہوتے تھے۔
غالباً 1977 کی بات ہے۔کھاریاں کے علاقہ میں ہمارے ایک دوست کے کسی بزرگ کا
انتقال ہوگیا۔حسب طریق ہم کافی سارے اہل محلہ ،تعزیت اور تجہیز و تکفین کے
لئے بذریعہ بس اس گاؤں کوروانہ ہوگئے۔رستہ میں بس سے اتر کر چند کلو میٹر
پیدل سفر بھی تھا۔ہم سوئے منزل پیدل چل پڑے۔رستہ میں ہم دیکھا ایک بابا جی
اپنے کھیت کی اطراف میں مال مویشیوں سے حفاظت کے لئےکچھ خاردار جھاڑیاں
گاڑرہے ہیں۔
ہمارے ایک بزرگ ساتھی نے موصوف سے پوچھا۔بابا جی ۔کیا یہ واڑی آپ کی ہے؟
بابا جی نے جواب میں ایک بہت بڑی حقیقت صرف چند حروف پر مشتمل ایک
مختصرجملہ میں بتادی۔کہنے لگے ،یہ باڑی میری نہیں ہے،لیکن اب واری (باری)
میری ہے۔
یعنی پہلے یہ میرے دادا کی تھی۔اس کی وفات کے بعد میرا باپ کہتا رہا،یہ
میری ہے۔اس کے اس دنیا سے کوچ کرجانے کے بعد آج کل میں اس میں کام کررہا
ہوں۔قبل ازیں میرے کئی بزرگ اپنے اپنےدور میں اس باڑی کو اپنا اپنا کہہ کر
رخصت ہو گئے جبکہ یہ باڑی (کھیت) ادھر ہی ہے۔اس لئے یہ باڑی میری نہیں ہے
بلکہ باری میری ہے۔
|