کیا سندھ کو نبی کریمؐ کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہے؟

(اس عنوان کے تحت ایک ممتاز دینی اسکالرو محقق ڈاکٹر حمید اللہ کی تحقیق کا ماحصل میثاق لاہور (ستمبر 1989ء) میں شائع ہوا تھا۔ا س کا اقتباس یہاں پیش کیا جار ہا ہے۔ انہوں نے سندھ یونیورسٹی جام شورو کے انسٹی ٹیوٹ آف سندھیالوجی میں سیرۃ النبیؐ کے موضوع پر تقریر کی‘ ابتداء بطور تمہید حضورؐ کی سندھ میں تشریف آوری اور اہل سندھ سے انؐ کی ملاقات کے امکان پر گفتگو فرمائی۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ"مجھے رسول اکرمؐ کی سیاست خارجہ اور ڈپلومیسی سے دلچسپی رہی‘ اس پر میں نے کام کیا۔ کتابیں شائع کیںا ور علمی ڈگریاں بھی حاصل کیں۔)

سندھی زبان کی اہمیت (ڈاکٹر صاحب کے ارشادات)

محترم ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ "اگر مجھے سندھی زبان آتی ہوتی تو میں اسی زبان ہی میں آپ کو مخاطب کرتا۔ کیونکہ شاید یہ وہی زبان ہے جو ہمالیہ کے براعظم میں سب سے پہلے اسلام سے متعارف ہوئی اور سارے براعظم میں دور تک اسلام پھیلتا چلا گیا۔"

دو چیزیں
سیرۃا لنبی ؐ کے سلسلہ کی دو چیزیں جس کا تعلق سندھ سے ہے۔ پہلی چیز کا تعلق سیرت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ سیرت النبیؐ سے نہیں‘ یعنی جب حضور اکرم ﷺ ابھی مبعوث نہیں ہوئے تھے اس وقت اس کا پتہ چلتا ہے کہ آپؐ سندھیوں سے واقف ہوئے تھے۔ سندھیوں سے مل چکے تھے۔ چاہے سندھ تشریف لانے کا آپؐ کو موقع نہ ملا ہو۔ ممکن ہے سندھ بھی تشریف لائے ہوں اس لئے کہ اس زمانے کے لئے یہ ممکن نہیں تھا۔

آنحضرت ؐ کے سفر
حضورؐ دورئہ شام تشریف لے گئے۔ ہمارے مورخ اس کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ آپؐ یمن بھی دو مرتبہ گئے تھے‘ اس کا بھی ہمارے پاس اب قطعی ثبوت موجود ہے کہ آپؐ عرب کے مشرق میں بحر عمان کے علاقہ میں بھی ایک مرتبہ تشریف لے گئے تھے۔اس کا امکان بھی ہے کہ آپؐ حبشہ تشریف لے گئے ہوں۔ یہ چیز لکھی ہوئی موجود ہے کہ جب حبشہ سے مہاجرین مکہ واپس آئے تو آپ نے ایک چھوٹی سی بچی سے جو وہیں پیدا ہوئے تھی اور حبشہ زبان بولتی تھی چند الفاظ حبشی زبان میں کہے تھے۔ا ور یہ اسی وقت ممکن ہے جب کوئی شخص کسی زمانے میں کسی ملک میں گیا ہو۔ اس لئے کہ باوجود مسافر ہونے کے بھی چند الفاظ اس کے ذہن میں محفوظ رہ جاتے ہیں۔ جن کو وقتاً فوقتاً وہ استعمال کر سکتا ہے۔ ایک اور تائیدی دلیل اس سے بھی ملتی ہے کہ جب نبی اکرمؐ نے نجاشی کا انتخاب کیا کہ مکہ کے مصیبت زدہ مسلمان ترک وطن کر کے ا س کے ملک میں جا کر پناہ گزین ہوں تو پہلے نجاشی کے نام ایک خط بھیجا جس میں لکھا تھا " میرا چچا زاد بھائی جعفرؓ بن ابی طالب آ رہا ہے‘ دوسرے مسلمانوں کی ساتھ ان کی مہمان نوازی کر"۔ یہ جو ایک طرح کی Intimacyاور قریبی تعلقات کے جو الفاظ استعمال کئے ہیں یہ صرف اس وقت ممکن ہے جب پہلے سے ملاقات رہی ہو۔ گویا کہ ان چیزوں سے استنباط کیا جا سکتا ہے کہ شاید حضورؐ حبشہ جا چکے ہوں۔ جب اتنے ممالک کا آپ سفر کر چکے تھے تو کوئی تعجب نہیںکہ ہندوستان اور سندھ میں تجارت کے سلسلہ میں آئے ہوں۔

حضورؐ کی ملاقات سندھیوں سے کب اور کیسے ہوئی تھی؟
ڈاکٹر حمید اللہ فرماتے ہیں کہ اولاً مشرقی عرب جانے کی بات کرتا ہوں اس لئے کہ وہیں سے آپؐ سندھیوں سے ملاقات کر سکتے ہیں یا سندھ جا سکتے ہیں۔ امام بخاریؒ کے استاد ابن حنبلؒ نے اپنی مسند (مسند احمد بن حنبل حدیث کی مشہو رکتاب ہے ۔ یہ تمام مقامات مشغل اور چشمہ زہراء مشرقی عرب میں اب بھی موجود ہے جہاں آج کل پٹرول کے چشمے بہہ رہے ہیں۔) میں دو صفحات کی ایک طویل حدیث میں بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ قبیلہ عبدالقیس کے لوگ اسلام قبول کرنے کے لئے مدینہ آئے۔ رسول اللہ ؐ نے ان سے مختلف چیزیں دریافت کیں۔ فلاں شہر کیا ابھی موجود ہے۔ فلاں سردار یا فلاں شخص کیا ابھی زندہ ہے۔ ان سوالات پر وہ لوگ حیرت زدہ رہ گئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ؐ آپ ہمارے ملک اور آدمیوں سے ہم سے بھی زیادہ واقف معلوم ہوتے ہیں۔ اس پر مسند احمد ابن حنبل ؒ میں رسول اکرمؐ سے جو جواب نقل ہوا ہے وہ یہ ہے۔ "میں وہاں گیا ہوں۔ بہت دن تک اس سرزمین کو میرے پائوں روندتے رہے ہیں۔ قلعہ مشغل کی چابیاں حاصل کیں اور چشمہ زہراء پر بھی کھڑا ہوا۔"
عرب کے میلے (ایک مشہور مورخ)

ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ حضورؐ کے مشرقی عرب جانے کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے۔ ایک بڑے مشہور مورخ ابن حبیب (245ھ) کی کتاب "المجر" میں عرب میلے کے نام کا ایک باب موجود ہے۔ ان میلوں کے سلسلہ میں جو ہر سال لگا کرتے تھے۔ وہ بیان کرتا ہے کہ عرب کے مشرق میں "دباء" نامی ایک مقام ہے۔ (متحدہ عرب امارات میں حدیرہ نامی بندرگاہ کے شمال میں اب بھی موجود ہے۔) دباء کا سالانہ میلہ فلاں تاریخ کو ہوتا تھا اس میں فلاں فلاں قسم کا سامان فروخت کے لئے آتا تھا۔ا س میں شرکت کرنے والے لوگ ہندی‘ سندھی‘ چینی‘ رومی‘ ایرانی‘ مشرق اور مغرب والے ہوتے تھے۔

سندھ کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے ڈاکٹر حمید اللہ نے فرمایا کہ جو الفاظ میں نے ترجمہ کر کے آپ کو سنا ئے ان میں سندھ کا لفظ صراحت کے ساتھ آتا ہے اس واسطے گمان کیا جا سکتا ہے کہ غالباً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زوج مطہرہ حضرت خدیجہؓ کا مال تجارت لے کر اس بڑے میلے میں شرکت کے لئے تشریف لائے ہوں گے اور وہاں چینیوں‘ سندھیوں اور دیگر لوگوں سے بھی ملے ہوں گے۔
ایک مشہو رحدیث

"علم سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے چاہے چین ہی جانا پڑے"۔ جب رسول اللہ ؐ نے دباء بازار میں چینی تاجروں کے پاس چینی ریشم اور دیگر سامان بازار میں دیکھا ہو گا اور آپؐ متاثر ہوئے ہوں گے کہ اتنی اچھی صنعت ان کے ملک میں ہوتی ہے۔ چنانچہ آپؐ نے فرمایا ہو گا کہ"علم سیکھو چاہے چین جیسے دور دراز کے ملک ہی کیوں نہ جانا پڑے"۔ غالباً حضورؐ نے ان سے پوچھا ہو گا کہ تم کتنی دور سے آئے ہوچینیوں نے کہا ہو گا کہ ہم دو ماہ کی مسافت سے چل کر آئے ہیں۔

اسی واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ نبی اکرمؐ کو موقع ملا تھا کہ سندھیوں کو دیکھیں ممکن ہے اور آگے جا کر سندھ میں تجارت کے لئے تشریف لے گئے ہوں۔

اسی تذکرہ میں ہند کا بھی ذکر ہے۔ یعنی ہندوستان کا بھی‘ جس کا بعد میں ہمیں ثبوت ملتا ہے‘ ایک دن بعض لوگ اسلام قبول کرنے کے لئے دور سے مدینے آئے۔ سیدنا نے پوچھا "یہ کون لوگ ہیں جو ہندوستانیوں کے سے نظر آتے ہیں۔" بعینہ یہی الفاظ ہیں جو حدیث میں موجود ہیں اور یہ وہی شخص کہہ سکتا ہے جس نے ہندوستانیوں کو اور ہندوستانیوں کے لباس میں دیکھا ہو۔ یہ لوگ یمن کے ایک قبیلے کے لوگ تھے جو مسلمان ہونے کے لئے آئے تھے۔ قارئین کرام میری اس رائے سے غالباً اتفاق کریں گے کہ سندھ اور ہند کو اس اعتبار سے غیر معمولی عظمت و رفعت حاصل ہو گئی ہے کہ اللہ کے آخری رسول اور خیر البشر نبی اکرمؐ کا سطور بالا کی روشنی میں ان دونوں ملکوں میں آنے کا اتنا قوی امکان ہے کہ یہ کہنا قطعی صحیح ہو گا کہ سندھ اور ہند کی سرزمین کو آنحضرت ؐ کی آمد کا شرف نصیب ہوا تھا۔
سید قمر احمد سبزواریؔ
About the Author: سید قمر احمد سبزواریؔ Read More Articles by سید قمر احمد سبزواریؔ: 35 Articles with 61838 views میرا تعلق صحافت کی دنیا سے ہے 1990 سے ایک ماہنامہ ّّسبیل ہدایت ّّکے نام سے شائع کر رہا ہوں اس کے علاوہ ایک روزنامہ نیوز میل لاہور
روزنامہ الجزائر ل
.. View More