بھارت یاترا --- جے للیتا اور صحافیوں کی اوقات کار

ہمارے ایک ساتھی ڈرائیورجو ہمارے ساتھ الیکٹرانک میڈیا میں تھے وہ صبح سویرے دفتر آتے اور ہمارے جانے کے بعد رات گئے واپس گھر جاتے- ایک دفعہ ان سے سوال کیا کہ آپ کے بچے کیسے ہیں تو بتانے لگے کہ بھائی کیا بتائیں اس سے پہلے ڈرائیونگ بھی کی ہے لیکن الیکٹرانک میڈیا میں آنے کے بعد تو گھر کی حالت ہی تبدیل ہوگئی اس نے مزید وضاحت کی اور کہا کہ اب اپنے گھر میں بچے بھی مجھے نہیں جانتے - بقول اس ڈرائیور کہ اس کی بیوی کہتی ہے کہ بچے یہ پوچھ رہے تھے کہ " یہ صاحب کون ہے جو صبح سویرے ہمارے گھر سے نکلتا ہے اور رات کے اندھیرے میں گھر آتا ہے" یعنی بقول اس کے صبح اندھیرے میں گھر سے نکلتا ہوں اور ات کے اندھیرے میں گھر جاتا ہوں اس لئے اب اپنے بچے بھی مجھے نہیں جانتے - خیر یہ ایک ڈرائیور کا حال ہے اس شعبے سے وابستہ صحافیوں کا کیاحال ہوگا بتانے کی ضرورت نہیں - بات جے للیتا کی ہورہی تھی ستمبر میں ہسپتال میں داخل کی جانیوالی جے للیتا دسمبر میں مر ہی گئی-لیکن ایک بات یقینی ہے کہ ستمبر سے اسے وینٹی لیٹر پر رکھا گیا تھا اور وہ بہت پہلے ہی مر گئی تھی لیکن حالات کے پیش نظر اس کی موت کا اعلان اب بھی کردیا گیا- شائد چنائی میں حالات بہتر ہو گئے ہیں-
بھارتی ریاست تامل ناڈو کی خاتون وزیراعلی جے للیتا کی موت کا آخر کار اعلان کرہی دیا گیا-اسے ستمبر 2016 ء میں چنائی کے ہسپتال میں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رکھا گیا تھا اور بتایا جارہا تھا کہ وہ زندہ ہے لیکن کوما کی حالت میں ہیں- جے للیتا سے ہمارا تعارف اتنا سا ہے کہ چنائی میں دوران تربیت ایک بڑی سڑک پر ان کا بنگلہ تھا جس پر ہم روزانہ برٹش کونسل چنائی کے دفتر میں جاتے- ساوتھ ایشین ممالک سے تعلق رکھنے والے طلباء و طالبات کا گروپ جس میں راقم بھی شامل تھا روزانہ کرائے کے لینڈ کروزر میں اس کے بنگلے کے سامنے سے گزرتے- ہم نے چنائی شہر میں کہیں پر بھی پولیس اہلکار نہیں دیکھے نہ ہی ٹریفک کو کنٹرول کرنے کیلئے نہ ہی کسی وی آئی پی کی ڈیوٹی پر ‘ لیکن یہ واحد جگہ تھی جہاں پر ہر وقت صرف تین اہلکار دیکھے جاسکتے تھے- لیکن مزے کی بات یہ تھی کہ جس روڈ پر جے للیتا کا گھر تھا اسی روڈ پر عام لوگوں کا داخلہ جاری تھا یعنی عام لوگ پیدل بھی جاتے اور گاڑیوں و ٹیکسیوں میں بھی جاتے تھے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا تھا- ایک دن ہم نے اپنے ساتھی جو کہ کالج کا اہلکار تھا سے پوچھ لیا کہ یہ کس کا گھر ہے تو بتایا گیا کہ یہ وزیراعلی چنائی جے للیتا کا گھر ہے حیرانگی ہوئی کہ یہاں تو ہر کوئی آتا جاتا ہے تو بتایا گیا کہ موصوفہ کو ہمارے پاکستانی وزراء کی طرح اپنی شان دکھانے کا کوئی شوق نہیں اس لئے روڈ کھلا رہتا ہاں البتہ اگر کوئی باہر سے کوئی وفد ان سے ملنے آتا ہے تو پھر سڑک کو ایک مخصوص وقت کیلئے بند کیا جاتا ہے لیکن پھر روڈ کو کھول دیا جاتا ہے - انکے بنگلے کے سامنے ایک بڑا سٹال تھا جس پر جے للیتا کی تصاویر جس میں پنسل ‘ پورٹریٹ ‘ پینٹنگ اور عام تصاویر بھی شامل تھی یہ تمام تصاویر سڑک کنارے فروخت کی جارہی تھی -

جے للیتا بنیادی طور پر اداکار ہ تھی جو بعد میں میدان سیاست میں آئی تھی لیکن اتنی مقبول وزیراعلی تھی کہ چنائی شہر کے ہر مارکیٹ میں اس کی قدآدم تصویر لگی ہوتی تھی جس سے اندازہ کیا جاسکتا تھا کہ لوگ اس کے کتنے عقیدت مند تھے- اداکاری کے بعد میدان سیاست میں جے للیتا نے اپنی پوزیشن مضبوط کی تھی کلاسیکل موسیقی اور رقص کی ماہر جے للیتا کی بڑی بڑی تصاویر جس میں وہ ساڑھی پہنے نظر آتی تھی چنائی کے ہر بڑے بازار میں کھڑی نظر آتی - جے للیتا میدان سیاست میں اتنی تیز تھی کہ میڈیا کو ڈیل کرنے سمیت ہر شعبے کو جے للیتا خود دیکھی تھی-

چنائی میں دوران تربیت ایک دن کلاسز جلد ہی ختم کردی گئی پوچھنے پر بتایا گیا کہ انتظامیہ کو ڈر ہے کہ حالات خراب ہو جائینگے کیونکہ جے للیتا کی حالت تشویشناک ہے اور اسے ہسپتال میں منتقل کردیا گیا ساتھی طلباء سے سوال کیا کہ حالات کی خرابی کا جے للیتا کی بیماری سے کیا تعلق ‘ تو بتایا گیا کہ توڑ پھوڑ کا ڈر ہے اس لئے کالج میں ایک دن کلاسز جلدی ختم کردی گئی جبکہ اگلے دن کی چھٹی بھی دیدی گئی مقامی طلباء و طالبات تو بہت خوش تھے لیکن ہم سب پریشان تھے کہ اتنی مقبولیت تو ہم نے صرف تھائی لینڈ کے شہر بنکاک میں وہاں کے بادشاہ کی دیکھی تھی جن کی لمبی تصاویر ہر جگہ پر ہوتی تھی اور وہاں کے لوگ بادشاہ کی بڑی قدر کرتے تھے لیکن-- خیرپھر حالات کنٹرول ہوگئے اور پتہ چلا کہ کہ جے للیتا ہسپتال میں زیر علاج ہے- لیکن وہاں پر چند اساتذہ جو پہلے شعبہ صحافت سے وابستہ تھے ان میں ایک ہمارے پروفیسر جو بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کے خودکش حملے کے عینی شاہد بھی تھے نے بتایا کہ جے للیتا کی حالت تشویشناک ہے ان کے ذرائع نے تصدیق کی تھی کہ جے للیتا کوما کی حالت میں ہے اور اس کی موت واقع ہو چکی ہے لیکن اس کا اعلان نہیں کیا جارہا کہ خدانخواستہ حالات خراب نہ ہوں اور ہم یقینی اور بے یقینی کی کیفیت میں جے للیتا کے بارے میں پوچھتے جاتے-

ایک دن نیو جرنلزم کی کلاسز میں خاتون پروفیسر نے پوچھا کہ ہر کوئی اپنے گروپ کیساتھ فیلڈ میں جا کر کام کرے- راقم کی گروپ میں دو طالبات تھی ایک کا تعلق چنائی سے تھا جن کے والد بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا میں صحافی تھے جبکہ دوسری طالبہ کا تعلق کیرالہ سے تھا اور ان کے والد نیوی کے ریٹائرڈ کرنل تھے دونوں تامل زبان جانتی تھی اس لئے ہمیں مقامی طور ایک سٹوری کرنے کو کہہ دیا گیا -راقم نے صحافیوں پر سٹوری کرنے کا آئیڈیا دیا کہ کن حالات میں صحافی کام کرتے ہیں - پروفیسر کو یہ آئیڈیا اچھا لگا اس نے اپرول دی اور ہم اس ہسپتال میں چلے گئے جہاں پر جے للیتا زیر علاج تھی -راقم کا اس سٹوری کو کرنے کا بنیادی مقصد وہاں کی صحافیوں کی حالت کا بھی پتہ کرنا تھا ساتھ میں یہ بھی بھارتی صحافیوں کو دی جانیوالی سہولیات کا بھی اندازہ کرنا تھا-

ہماری ٹیم اس پرائیویٹ ہسپتال میں چلی گئی جہاں پر جے للیتا زیر علاج تھی وہاں پر جا کر پتہ چلا کہ جس طرح ہماری الیکٹرانک میڈیا کے صحافی بھاگ دوڑ کرتے ہیں اور ان کی ڈیوٹی ٹائمنگ کا پتہ نہیں ہوتا اسی طرح کی صورتحال وہاں کے الیکٹرانک میڈیا کے صحافیوں کیساتھ بھی ہے کیا مرد و کیا خواتین صحافی جن میں بیشتر رپورٹر اور اینکرز بھی شامل تھی ہسپتال کے باہرکھڑے تھے اور مسلسل کئی دن سے ہسپتال میں پیش آنیوالی صورتحال اور جے للیتا کی صحت کے بارے میں عام لوگوں کو آگاہ کررہے تھے-ایک چیز جو پاکستانی صحافیوں اور بھارتی صحافیوں میں مشترک ہے کہ جب کوئی بڑی شخصیت ہسپتال میں زیر علاج ہو تو پھر انہیں کوئی لفٹ نہیں کراتا- پولیس کی بھاری تعداد ہسپتال کے باہر کھڑی تھی جو وہاں پر آنیوالے صحافیوں کو اندر جانے سے روکتی صرف عام مریض جاتے تھے - ہمارے گروپ نے جب وہاں پر جانے کی کوشش کی تو باقاعدہ پوچھ گچھ کے بعد ہمیں چھوڑ دیا گیا لیکن ہسپتال کے احاطے میں جانے سے روک دیا گیا اور ہمارا گروپ صحافیوں سے اندر کی صورتحال پر بات چیت کرتا رہا- ان میں بیشتر صحافی یہی رونا رو رہے تھے کہ ہمیں کوئی معلومات نہیں دی جارہی اور ساتھ میں مسلسل ڈیوٹی سے بھی تنگ تھے کہ ان کے آنے کا وقت تو مقرر ہے لیکن جانے کا کوئی وقت مقرر نہیں- ساتھ میں یہ پتہ بھی چلا کہ بھارتی میڈیا پاکستانی میڈیا کے مقابلے میں بہت زیادہ کنٹرول ہے -ہم اس سٹوری کو کور کرکے آگئے لیکن ا ن کے گلے شکوؤں نے ایک بات یاد دلا دی جو شیئر کرنے کی ہے -

ہمارے ایک ساتھی ڈرائیورجو ہمارے ساتھ الیکٹرانک میڈیا میں تھے وہ صبح سویرے دفتر آتے اور ہمارے جانے کے بعد رات گئے واپس گھر جاتے- ایک دفعہ ان سے سوال کیا کہ آپ کے بچے کیسے ہیں تو بتانے لگے کہ بھائی کیا بتائیں اس سے پہلے ڈرائیونگ بھی کی ہے لیکن الیکٹرانک میڈیا میں آنے کے بعد تو گھر کی حالت ہی تبدیل ہوگئی اس نے مزید وضاحت کی اور کہا کہ اب اپنے گھر میں بچے بھی مجھے نہیں جانتے - بقول اس ڈرائیور کہ اس کی بیوی کہتی ہے کہ بچے یہ پوچھ رہے تھے کہ " یہ صاحب کون ہے جو صبح سویرے ہمارے گھر سے نکلتا ہے اور رات کے اندھیرے میں گھر آتا ہے" یعنی بقول اس کے صبح اندھیرے میں گھر سے نکلتا ہوں اور ات کے اندھیرے میں گھر جاتا ہوں اس لئے اب اپنے بچے بھی مجھے نہیں جانتے - خیر یہ ایک ڈرائیور کا حال ہے اس شعبے سے وابستہ صحافیوں کا کیاحال ہوگا بتانے کی ضرورت نہیں - بات جے للیتا کی ہورہی تھی ستمبر میں ہسپتال میں داخل کی جانیوالی جے للیتا دسمبر میں مر ہی گئی-لیکن ایک بات یقینی ہے کہ ستمبر سے اسے وینٹی لیٹر پر رکھا گیا تھا اور وہ بہت پہلے ہی مر گئی تھی لیکن حالات کے پیش نظر اس کی موت کا اعلان اب بھی کردیا گیا- شائد چنائی میں حالات بہتر ہو گئے ہیں-
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 585 Articles with 413668 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More