عید میلاد کے متعلق بھی اُمت محمدیہ متحد رہیں

تاریخ کے نازک موڑپر جب ہر ہندوستانی مختلف مسائل سے دوچار ہیں ایسے میں عید میلاد النبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق شہر میں بحث ومباحثے سے پرہیز کریں جس طرح چاند کے مسئلے پر اتحاد کا مظاہرہ کیا گیاعید میلاد کے متعلق بھی اُمت محمدیہ متحد رہیں
قرآن کریم میں رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:’’تم فرماؤ اﷲ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں‘‘۔(پ۱۱،آیت۵۸،سورۂ یونس)اس آیت مبارکہ کی تشریح بیان کرتے ہوئے حضرت عبداﷲ ابن عباس،حضرت ابوجعفر الباقر،حضرت قتادہ،حضرت مجاہد،امام آلوسی،امام ابوحیان اندلسی،امام ابن جوزی،امام طبرسی اور کئی جید علمائے کرام نے فضل سے مراد قرآن اور رحمت حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات کوقراردیاہیں۔ امام جلال الدین سیوطی نے فضل اور رحمت دونوں حضورصلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات ہی کو قرار دیا۔مصطفی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی رحمت کاتذکرہ توخود قرآن کریم بیان کررہاہے یہ فرماکر’’اور ہم نے تمھیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔‘‘(سورۂ انبیاء،پ۱۷،آیت ۱۰۷)گویاکہ اس آیت میں حصول فضل ورحمت پر خوشی وجشن منانے کاخصوصی حکم ہے ۔چنانچہ جونہی ماہ ربیع النور شریف کاآغازہوتاہے غلامان رسول، ولادت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی خوشی میں دیوانہ وار مگن ہوجاتے ہیں،چہارجانب جشن کاسماع ہوتاہے اورایسا کیوں نہ ہوکہ کائنات کی ساری خوشیاں، جملہ مسرتیں اور شادمانیاں اسی ایک خوشی پرقربان ہوجائیں، پھر بھی اس یوم سعید کے منانے کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ مندرجہ بالاارشاد قرآنی کی رو سے ہمیں اس نعمت عظمیٰ پر خوشی منانے کاحکم دیا اور فرمایاکہ اﷲ کے فضل اور رحمت پر اظہار مسرت کرو ۔ چنانچہ جب پیغمبراسلام صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت کامہینہ آئے تو ایک سچے مسلمان کی قلبی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ خوشیاں منانے کے لیے اس کا دل بے قرار اور طبیعت بے چین ہوجاتی ہے اور اسے یوں لگتا ہے کہ اس کے لیے کائنات کی ساری خوشیاں ہیچ ہیں اور میلاد رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی خوشی ہی حقیقی خوشی ہے، وہ یوں سمجھتا ہے کہ اس دن کائنات کی ساری خوشیاں سمٹ کر اس کے دامن میں آگری ہیں ۔ اس سے بڑھ کر اس کے لیے مسرت وشادمانی کااور کون سا موقع ہوگا۔وہ تو اس خوشی سے بڑھ کر کائنات میں کسی خوشی کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔

عاشقان مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے گھروں پر قمقمے لگاکر،پرچم لہرا کر،گلی کوچے،محلے اور بستیوں کوسجاکر،نئے لباس پہن کر اور نذرونیاز کااہتمام فرماکر اپنی خوشی ومسرت کا اظہار کرتے ہیں ۔ مگرہر سال کا مشاہدہ ہے کہ ایسے روحانی ایّام میں شہر میں کئی قسم کے مباحثے شروع ہو جاتے ہیں،بہت سے سوالات قائم کیے جاتے ہیں اور جوابات کا سلسلہ دراز ہوتا ہے۔مختلف اجلاس میں یوم ولادت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو بطور عیدمنانے کے جواز اور عدم جواز پر خطابات ہوتے ہیں،تحریریں شائع ہوتی ہیں،کتابچے منظرعام پر آتے ہیں۔امسال بھی ایک عمومی سوال شہر کی گلیوں میں گردش کررہاہے کہ’’ کیاعید میلادصحابۂ کرام نے بھی منایاتھا؟‘‘اس کے پس منظرمیں تاریخی احوال وکوائف کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگاکہ انسان وقت ،حالات اور اَدوارکی تہذیب وثقافت کے مطابق خوشیاں مناتاہے ۔ دوررسالت کی ثقافت ہی ایسی نہیں تھی کہ وہ بھی ایسے جشن کااہتمام کرتے جیسا کہ موجودہ دور میں ہوتاہے۔البتہ صحابۂ کرام ،تابعین ،تبع تابعین اور اسلاف کرام نے اپنے اپنے دور میں حالاتِ زمانہ کے مطابق اس کا اہتمام ضرور کیاہے ،تاریخ سے واقفیت رکھنے والے اس امر سے ضرور واقف ہیں۔اس سوال کے جواب میں علمائے کرام یہ بھی عقلی دلیل دیتے ہیں کہ صحابۂ کرام نے صرف میلادہی نہیں بلکہ اور بھی بہت سی چیزیں ایسے نہیں منائیں جیسا کہ آج ہر مکتبۂ فکر کے مسلمان مناتے ہیں۔مثلاً: مدینۂ منورہ میں تشریف آوری کے بعد حضورصلی اﷲ علیہ وسلم نے انصار ومہاجرین کے مشورہ سے مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ باقاعدہ تحریری معاہدہ کیا،اسلامی تاریخ میں یہ عظیم معاہدہ’’میثاق مدینہ‘‘کے نام سے یاد کیاجاتاہے۔اس دن اسلامی ریاست کی باقاعدہ تشکیل ہوئی اورحضورصلی اﷲ علیہ وسلم ریاست مدینہ کے آئینی حکمراں بنے۔مسلمانوں کے لیے یہ موقع عظیم خوشی کادن تھا مگر انہوں نے یوم میثاقِ مدینہ منانے کاکوئی اہتمام اس لیے نہ کیاکہ ایسا کرناان کے کلچرمیں شامل نہ تھا۔اسی طرح مسلمانوں نے جب جنگ بدرمیں فتح پائی جسے قرآن نے ’’یوم الفرقان‘‘ قراردیا۔یہ دن بھی دور صحابہ میں سال بہ سال باربارآتا رہامگر اس دن کومنانے کاان میں رواج نہیں تھا۔اسی طرح فتح مکہ جسے قرآن نے ’’فتح مبین ‘‘قرار دیا،اتنی بڑی خوشی پربھی صحابہ نے کسی طرح کاکوئی جشن کااہتمام نہیں کیاکیونکہ یہ اس وقت کی ثقافت میں شامل نہیں تھا۔شب قدر جو’’یوم نزول قرآن‘‘ ہے اس دن کو بھی صحابۂ کرام اور قرون اولیٰ کے مسلمانوں نے منانے کاکوئی بھی اہتمام نہیں کیا۔اس طرح کی اور بھی روایتیں جمع کی جاسکتی ہیں۔

کسی کی حمایت اور کسی کی تکذیب کرناراقم کا مقصد نہیں ہے ورنہ اعتراض وجوابات کے اس تناظر میں یہ سوالات بھی گردش کررہے ہیں کہ کس صحابی نے شادی کاایسااہتمام فرمایاجس طرح آج مسلمانوں میں رائج ہے؟کیاکسی صحابی سے بچے کی ولادت کی خوشی میں مٹھائیاں تقسیم کرنااور دعوت کا ایسا اہتمام کرناثابت ہے جس طرح آج مسلمانوں کارواج ہے؟ کیا صحابۂ کرام نے اس طرح یوم آزادی منایاتھاجس طرح آج منایاجاتاہے؟کیاکسی صحابی نے درس وتدریس کی محفل میں اس دور کے کسی مذہبی پیشواکوبلایاتھاجیسے آج کچھ لوگ اپنے سالانہ جلسے میں پنڈتوں کوبلاتے ہیں؟کیاکسی صحابی نے کسی غیر مسلم خاتون کومسجد کادورہ کروایاتھاجس طرح آج نام نہاد مسلمان نیم برہنہ خاتون کو مسجدوں کادورہ کرواتے ہیں؟کیاکسی صحابی نے اپنی کسی ذاتی کامیابی پر اس طرح آتش بازی کی تھی جیسے آج ذاتی خوشی پر پٹاخے پھوڑے جاتے ہے؟راقم کو جواز اور عدم جواز کی صورتوں پر دلائل نہیں قائم کرناہے بلکہ اعتدال کی راہ میں یہ عرض کرنا چاہتاہوں کہ ان علمی مباحثوں سے اُمت تین گروپ میں تقسیم ہو جاتی ہے،اوّل سوال کرنے والے،دوّم جواب دینے والے اور سوّم کنارہ کشی اختیار کرنے والے۔جب کہ آج ہم تاریخ کے ایسے موڑ پر کھڑے ہیں جہاں ہندوستان کا ہر باشندہ گوناگوں مسائل سے دوچار ہیں ،لہٰذاایسے نازک حالات میں جس کوعید میلاد مناناہے وہ کسی کو تکلیف دیئے بغیرضرور منائیں مگر جو حضرات اس عمل سے بچنا چاہتے ہیں وہ اُمت میں نئی پرانی بحث کا آغاز نہ کریں بلکہ جس طرح چاند کے مسئلے پر اتحاد کا مظاہرہ کیا گیایہاں بھی اسی وصف کواختیار کیاجائیں تاکہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بھولی بھالی اُمت متحد رہیں۔
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 731687 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More