کہتے ہیں .ایک آدمی اپنے کسی مقدمہ کی وجہ
سے خاصا پریشان تھا۔اس نے مقدمہ کے سلسلہ میں وکیل صاحبان اوردیگر متفرق
اخراجات کے بارے میں اپنے کسی دوست سے ذکر کیا۔دوست نے اسے ہمدردانہ
اورمخلصانہ مشورہ دیتے ہوئےَ کہا۔بھئِ وکیلوں والا رستہ تو بہت لمبا ہے۔اس
سے بہتر ہے کہ تم جج کرلو۔
کچھ اسی قسم کا واقعہ پیش خدمت ہے۔
میر ےایک دوست ضلع گجرات کے ایک معروف قصبہ کےہائیِ سکول میں بطور ہیڈ
ماسٹر متعین تھے۔ نیز ذاتی طور پر اسی شہر میں ایک پرائیویٹ سکول بھی چلا
رہے تھے۔محکمہ تعلیم کے ڈی ای او کے ساتھ ان کا کسی بات پر اختلاف ہوگیا۔
جس پر اسے خواہ نخواہ تنگ کرنا شروع کردیا۔اس سلسلہ میں ۔ڈی ای او نے بعض
اساتذہ کو بھی ساتھ لگالیا۔جس پر انہوں نے ڈی ای او کو خوش کرنے کے لئے
موصوف کا جینا حرام کردیا۔ بعد ازاں محکمہ تعلیم نےان کی ٹرانسفر چکوال کے
مضافات میں واقع کسی ہائی سکول میں کردی۔موصوف اپنے سارے سیٹ اپ کو چھوڑ
کہیں جانا نہیں چاہتے تھے۔اس لئے انہوں نےاپنے طور پر متعلقہ دفاتر میں
کافی بھاگ دوڑ کی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا ۔بہت سارے اخراجات کئے۔لیکن بے
سود۔آخر تنگ آکرانہوں نے ایک مقامی وکیل سے مل کر مقامی عدالت سے حکم
امتناعی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ شومئی قسمت فیصلہ ان کے خلاف ہوا۔
انہیں کسی نے مشور دیا کہ ضلعی عدالت میں کسی ماہر وکیل سے بات کریں ،شاید
وہ آپ کی مدد کرسکے۔اس سلسلہ میں موصوف نے مجھے گجرات چلنے کے لئے
کہا۔گجرات میں ایک وکیل صاحب سےقدرے شناسا ئی تھی۔کچہری میں ان سے ملے۔ساری
بات ان کے گوش گزار کی۔وکیل صاحب نے کہا۔آپ کا کیس بہت کمزور ہے۔اس میں
کویٔی جان نہیں ہے۔آپ خواہ مخواہ وقت اور پیسےضائع کرنے جارہے ہیں۔ایک دو
اور وکلاء سے بھی مشورہ کیا۔لیکن وہی جواب ملا۔اب ہم پریشانی کے عالم میں
ایک جانب کھڑے باتیں کررہے تھے۔ قریب ہی ایک نوجوان ہماری باتیں سن رہا
تھا۔ہمارے پاس آیا۔کہنے لگا ۔میں یہیں کام کرتا ہوں۔آپ اپنی مشکل بتائیں
شاید میں آپ کو کوئی حل بتا دوں۔ہیڈماسٹر صاحب نے اسے ساری بات بتا
ئی۔دراصل وہ نوجوان کسی وکیل صاحب کا منشی تھا۔
کہنے لگا ۔آپ بالکل پریشان نہ ہوں،آپ کا کام ممکن ہے۔کہنے لگا ۔دیکھو سامنے
ایک جو وکیل صاحب کے نام کا بورڈ لگا ہوا ہے۔آپ ان سے مل لیں وہ آپ کا کام
کروادیں گے۔ہم لوگ قسمت آمائی کے لئےوہاں چلے گئے۔ہیڈماسٹر صاحب نے ساری
بات جناب وکیل صاحب کے گوش گزار کردی۔وکیل صاحب نے بڑے اطمینان سے کہا۔جناب
آپ کا کام ہوجائے گا۔میں اس کی فیس تین ہزار روپے لوں گا۔ لیکن میں یہ رقم
آپ سے اس صورت میں لوں گا ،اگر فیصلہ آپ کے حق میں ہوگیا ، بصور دیگر میں
آپ سے کچھ نہیں لوں گا۔اس زمانہ میں تین ہزار روپے خاصی رقم ہوا کرتی
تھی۔ہیڈماسٹر صاحب کافی ضدی طبیعت کے مالک تھے۔ما ن گئے کیونکہ وہ ہر حال
میں ٹرانسفر رکوانا چاہتے تھے۔نیز اپنی بے عزتی کا بدلہ ہر حال میں لینا
چاہتے تھے۔
وکیل صاحب نے اپنے کلرک کو اپنی زبان میں کچھ ہدایات دیں اور ہمیں ارشاد
فرمایا۔آج ہی فلاں عدالت میں فلاں وقت آپ آجائیں۔میں سخت حیران تھا۔پہلا
کیس ہار چکے ہیں۔ نیا کیس ہے۔آج ہی کیسےممکن ہے ؟ ہمیں بتایا گیا کہ آج ہی
دو بجے فلاں عدالت میں پہنچ جائیں۔میں نے اپنے شناسائی والے وکیل صاحب
کوساری بات بتائی اور عرض کی کیونکہ ہم تو اس طریق کار سے نا بلد ہیں اگر
ممکن ہو تو آپ بھی تشریف لے آئیں تاکہ ہمیں اس کے بارے میں بتاسکیں۔اللہ
انہیں جزادے وہ مان گئے۔
حسب ارشاد کمرہ عدالت میں حاضر ہوئے۔کچھ لوگ عدالت میں موجود تھے۔جج صاحب
کرسی انصاف پر براجمان تھے۔جج صاحب نے بڑے درشت لہجہ میں ہیڈماسٹر صاحب سے
ارشاد فرمایا۔آپ تو سرکاری ملازم ہیں۔آپ ٹرانسفر سے کیسے انکار کرسکتے
ہیں؟لہذا آپ فوری طور پر جا کر اپنا چارج لیں۔ہیڈ ماسٹر صاحب ابھی کچھ کہنے
کے لئے ابھی سوچ ہی رہے تھے۔
وکیل صاحب جج صاحب سے کہنے لگے۔جناب شاہ جی آپ نے ابھی اسی وقت اور اسی قلم
کے ساتھ ،ہمارے مقدمہ کا فیصلہ ہمارے حق میں دینا ہے۔ نیز کہنے لگے۔شاہ جی
آپ نے قانوں پڑھا ہوا ہے اور ہم نے یہ قانون بنایا ہوا ہے۔موصوف کا تعلق
پیپلز پارٹی سے تھا۔ غالباً بھٹو صاحب کے دور میں آئین بنانے والی کمیٹی کے
ممبر ہونگے۔اس پرمکرم جج صاحب مسکرا پڑے اور پھرچند منٹوں میں ہی فیصلہ
ہمارے حق میں دے دیا۔
اس کے بعد ہم لوگ وکیل صاحب کے ہمراہ ان کے دفتر آگئے۔حسب معاہدہ تین ہزار
روپے وکیل صاحب کی خدمت میں پیش کردیے۔
وکیل صاحب کہنے۔ جناب ابھی کیس ختم نہیں ہوا۔ہم نے ابھی شعبہ تعلیم کے
متعلقہ افسر پر مقدمہ کرنا ہے۔
کیونکہ اس نے آپ کو بہت تنگ کیا ہے اور آپ کا بہت سا مالی نقصان کیا ہے۔ اس
کی زیادتی اور رویہ کی اس کو سزا دینی ہے اس سلسلہ میں آپ نے مجھ سے تعاون
کرنا ہے۔آپ کو کوئی نقصان نہیں ہوگا بلکہ مالی منفعت ہو گی۔ ۔دراصل وکیل
صاحب کا تعلق ایک مضبوط سیاسی گروہ سے تھا اور محکمہ تعلیم کا افسر مجاز
انکی ایک مخالف سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا تھا۔
وکیل صاحب نے بتایا ۔اب ہم نے ڈی ای او کے خلا ف ہتک عدالت کا مقدمہ کرنا
ہے۔جس کےلئے چالیس ہزار ہرجانہ کا مطالبہ کرنا ہے۔نیز سکول کے چند اساتذہ
جو ڈی ای او کی حمایت کررہے تھے۔ان کے خلاف بھی مقدمہ دائر کرنا ہے۔آپ صرف
درخواست پر دستخط کردیں۔باقی سب کچھ میں سنبھال لوں گا۔ہیڈڈ ماسٹر صاحب نے
بادل نخواستہ ڈرتے ڈرتے دستخط کردئے۔
وکیل صاحب نے لکھا کہ۔میرا مؤکل جس کو عدات نے حکم امتناع جاری کیا۔وہ اس
فیصلہ کے ساتھ اپنے سکول میں گیا۔دفتر میں بیٹھا ہو اتھا کہ ڈی ای او اور
فلاں فلاں اساتذہ آگئے۔میرے مؤکل نے انہیں بتایا کہ میرے پاس حکم امتناع
ہے۔اس لئے آیا ہوں۔اس پر انہوں نے مجھے گالی گلوچ کیا اور عدالتی فیصلہ کے
پیپر کا پھاڑ کر عدالت کے خلاف بہت نازیبا کلمات کہےاور مجھے دھکے مار کر
دفتر سے باہر نکال کر دفتر کو تالہ لگادیا۔
ڈی ای او اور اساتذہ کے نام عدالت کا بلاوا آگیا۔یہ بے چارے دور دراز
علاقوں سے بسوں اور تانگوں کے زریعہ سے گجرات پہنچتے ۔سارا دن دھکے
کھاتے،اخراجات کرتے۔کچھ ہی عرصہ کے بعد مجبور ہو گئے۔ہیڈماسٹر صاحب کی منت
سماجت شروع کردی۔لیکن چابی تو وکیل صاحب کے ہاتھ میں تھی۔ڈی ای او صاحب اور
اساتذہ نے بڑے ہاتھ پاؤں مارے۔لیکن ہر طرف سے نا امیدی کا سامنا کرنا
پڑا۔مدعی علیہ کو احساس تھا۔وکیل کی بڑی پہنچ ہے۔اس لئے سخت خائف تھے۔
انہوں نے ہر قسم کی منت سماجت اور ہیڈ ماسٹر صاحب کے جملہ اخراجات اور
نقصانات ادا کرنے کی پیشکش کی اور آئندہ کبھی بھی ٹرانسفر کی بات نہ کرنے
کا وعدہ کیا۔جس کے لئے بہت سے لوگوں نے مدد کی۔ جس پر وکیل صاحب اورہیڈماسڑ
صاحب مان گئے۔پھر ایک لمبا عرصہ ادھر ہی رہے۔ |