کراچی میں ایک اور سانحہ

کراچی کا شمار دنیا کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے ۔اور ساتھ ہی ساتھ قدیم شہروں میں بھی ہوتا ہے ۔کراچی آ زادی پاکستان کے بعد 16 سال تک پاکستان کا دارالخلافہ رہا صدر ایوب خان کے دور میں پاکستان کا دارالخلافہ کراچی سے اسلام آباد منتقل کردیا گیا ۔ لیکن کراچی آج بھی پاکستان کی شہ رگ ہی کہلاتی ہے ۔ اس کی وجہ کراچی کی پڑھی لکھی عوام ہے ۔کراچی کے اعزازات میں ایک اعزاز یہ بھی ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح بھی کراچی کے ہی شہری تھے ۔کراچی پاکستان کا معاشی حب بھی ہے ۔ پاکستان کو سب سے زیادہ ٹیکس بھی کراچی سے جاتا ہے ۔کراچی 25 سے30 سال پہلے پاکستان کا سب سے پر امن اور روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا لیکن پچھلے تین دہایوں سے کراچی شہر کو کسی کی نظر بد لگ گئی ہے ۔جو کبھی پاکستانی اور غیر ملکی سرمایاداروں اور سیاحوں کا پسندیدہ شہر ہوا کرتا تھا ،اس سے آج ہر کوئی بھاگنے کی چکر میں لگا ہے ۔

کراچی کے باسی گذشتہ تین دہایوں سے المناک سا نحات سے دوچارہیں ۔ ان میں کچھ وہ سانحات بھی ہے کہ اگر کراچی کے شہری بھلائے تو بھی نہ بھول پائیں ۔مثلاً 90 کی دہائی میں کراچی میں ہونے والے لسانی فسادات جس میں ہزاروں بیگناہ انسان صرف قومیت کی بناء پر مارے گئے ۔98 میں جامعہ بنوری ٹاؤن کے مہتمم مولانا حبیب اﷲ مختار ،مفتی سمیع کو ان کے ساتھیوں سمیت شہید کرکے ان کی لاشوں تک کو بھی جلادیا گیا ۔علماء کی شہادت کا سلسلہ تاحال جاری ہیں ۔حکیم محمد سعید ، مولانا یوسف لدھیانوی ۔مفتی نظاالدین شامزی، اس طرح کئی عالمی شخصیات جو کراچی میں قتل کردئے گئے۔ کیا کراچی کے پر امن شہری ان شخصیات کو بھول پائیں گے ؟پھر سانحہ نشتر پارک ، سانحہ12 مئی ،سانحہ کارساز ، سانحہ بولڈن مارکیٹ ، 2008 سے 2013 تک لسانی فسادات اور ان سب سے بڑ ھ کر سانحہ بلدیہ گارمنٹس فیکٹری جس میں 260 سے بھی زیادہ لوگوں کو اس لیئے بیدر دی سے زندہ جلا کر شہید کیا گیا کہ ان کے فیکٹری مالکان نے ایک لسانی تنظیم کو بھتہ نہیں دیا ۔ابھی چند دنوں قبل سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے ایک اہم ملزم کی بنکاک سے گرفتاری کی اطلاع سے کراچی کے شہری باالخصوص سانحہ بلدیہ کے شہداء کے لواحقین کیلئے انصاف کی ایک اور کرن اومنڈ آئی مگر کراچی والوں کی یہ خوشی اس وقت پھیکی پھڑ گئی جب کراچی میں ایک اور سانحہ نے جنم لیا کراچی کے ایک مشہور شاہراہ شاہراہ فیصل پر واقع ہوٹل ریجنٹ پلازہ میں آگ لگ جاتی ہے ۔عبدالرحمان عرف بھولا کو تھائی لینڈ کے شہر بنکاک سے انٹر پول کی مدد سے گرفتار کیا گیا ۔گرفتار کئے جانے والے ملزم کو کراچی لانے کی تیاری کی جارہی ہے ۔کہ اس دوران کراچی میں ایک اور سانحہ ریجنٹ پلازہ برپا ہوتا ہے ۔اس واقعہ میں ابتک 13 افراد جان بحق اور 70 سے زیادہ زخمی ہے۔اس سے قبل بھی کراچی میں آتشزدگی کے کئی واقعات ہوچکے ہے۔ جن میں سینکڑوں بیگناہ انسانوں کو جان کی بازی ہار نی پڑی ایسے واقعات گذشتہ کئی سالوں سے کراچی میں مسلسل ہورہے ہیں ۔حالیہ واقعہ ریجنٹ پلازہ ہوٹل رات کو ڈھائی بجے آگ لگتی ہے ۔شروع میں تو ہوٹل انتظامیہ اپنی مدد آپ کے تحت آگ پر قابو پانے کی کوشش کرتی ہے ۔ پر جب بات ان کے بس سے باہر ہوجاتی ہے ،تو اس کے بعد فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کو بلوا یا جاتا ہے ۔ اور پاکستان میں فائر بریگیڈ کتنی جلدی پہو نچتی ہے وہ تو سب کو پتہ ہے ۔ ہوٹل کے منیجرایڈمن اینڈ سیکورٹی کے مطابق زیاہ تر ہلاکتیں بد حواسی اور بھگدڑ کی وجہ سے ہوئیں ۔ ہوٹل کے منیجر کے اس بیان سے کیا ہوٹل انتظامیہ ان ہلاکتوں سے بری الذمہ ہو جائیگی ۔ اگر ہوٹل انتظامہ بروقت فائر بریگیڈ کو اطلاع کرتی تو شاید اتنی اموات نہیں ہوتی ، ایڈشن آئی جی نے واقعے کی تحقیقات کیلئے ایس ایس پی کی زیر نگرانی ٹیم تو قائم کردی مگر کیا رپورٹ آنے پر واقعہ کے زمہ داروں کے خلاف کاروائی ہو پائیگی ، کیا تحقیقات سے متاثرین کا اذالہ ہو پائیگا ۔یا اس تحقیقاتی رپورٹ کی فائل بھی دیگر سانحات کی طرح الماری کی زینت بن جائیگی ،جس طرح سانحہ بلدیہ کے ملزمان ایک ایک کر کے رہا ہو رہے ہیں ۔12 مئی کے ملزمان کراچی کے میئر اور چیرمین بنے بیٹھے ہیں ۔ ابھی تو ریجنٹ پلازہ کا واقعہ دہشتگردی کے زمرے میں بھی نہیں آتا کیوں کے ابتک کی اطلاع کے مطابق آگ کیچن میں سے بڑھکی تھی مگردیگر سانحات دہشتگردی ہے اور اس کے لسانی دہشتگرد آزاد ہے ۔ سانحہ ریجنٹ پلازہ میں جہاں کئی قیمتی انسانوں کی اموات ہوئی ، وہی پر گوجرانوالہ سے کراچی آئے ہو ئے میاں بیوی ،محمد وقاص اور شازیہ کو بھی ابدی نیند سلایا ، محمد وقاص والدہ کی طبیعت اچانک خراب ہونے کی وجہ سے واپس گوجرانوالہ جانا چاہتے تھے مگر فلائٹ کینسل ہونے کے باعث ہوٹل میں ہی قیام کرنا پڑا اور یہ قیام ہی موت کا بہانہ بن گیا ۔ کیا حکومت سندھ اس تحقیقات سے وقاص اور شازیہ کے لواحقین کو مطمئن کر پائیگی ۔ہوٹل کے ڈیوٹی افسر نایٹ منیجر بابر الیاس جو ایک بوڑھی ماں کا سہارا تھا جو اپنے گھر کا وا حد کفیل تھا ۔جو اپنی 12 سالہ بیٹی اور 10سالہ بیٹے کو اچھے اسکول میں پڑھا کر عزت دار معاشرے کا حصہ بناناچاہتا تھا ۔منیجر بابرنے کئی لوگوں کی جانیں بچاکر اپنی جان گنوادی ۔ کیا حکومت بابر الیاس کے لواحقین کا سہارا بن پائیگی کیا تحقیقات سے ان کو صبر آجائیگا ۔ہر گزنہیں چند روپوں سے بابر الیاس کی بوڑھی ماں نا ہی بیوہ اور نا ہی بچوں کو صبر آئے گا ۔ ہوٹل میں جل جانے والوں کے لواحقین کے دل میں بہت درد ہوگا ۔اب وہ درد ایک عرصے تک زندہ جل جانے والوں کیلئے ماتم کرتا رہے گا ۔ اور جب دیر رات کو سب سوجائینگے تو وہ درد بھوکے بچوں کی طرح اس راکھ کو کریدا کریگا ۔ اور درد دل سے مرزا غالب کا یہ شعر سناتے رہیں گے ۔

جلا ہے جسم جہاں دل بھی جلا ہوگا ۔ کرید تے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے ؟ ہمارے حکمران اس قسم کے واقعات کے بعد تحقیقاتی کمیٹیاں بنا کر خود کو تو بری وذ مہ قرار دیتی ہے ۔ مگر یہ بری وذمہ نہیں ِ۔۔ہر گز نہیں کیوں کے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے ایک قول کے مطابق آپ نے فرمایا کہ دریا ئے فرات کے کنارے اگر ایک کتا بھی پیاس سے مر جاتا ہے تو پوچھ عمر سے ہوگی ۔مگر یہاں تو درجن سے بھی زیادہ انسانوں کی بات ہے ۔جو اشرف المخلوقات ہے ۔ اگر سانحہ ریجنٹ پلازہ سے قبل ایک بھی سانحے کا مجرم یا ذمہ دار کو سزا ہوتی تو کراچی کے باسیوں کو شاید یہ دن دیکھنا نہ پھڑ تا ۔ بلا شبہ سانحہ بلدیہ کے مرکزی ملزم بھولا کی گرفتاری ایجنسیوں کی بڑی کامیابی ہے مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ اب ملزم پر جرم بھی ثابت ہو اور سزا بھی ہو، ناکہ دیگر ملزمان کی طرح یہ بھی باعزت رہا ہو جائے اور نومولود پارٹی کو جوائن کرلیں۔ اس طرح کے سانحات پوری دنیا میں ہوتے رہتے ہیں ۔ مگر ان کی تحقیقات میں جو مجرم ثابت ہوتاہے تو مجرم کو سزا بھی ملتی ہے اور لواحقین کو جزابھی ۔ اﷲ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھیں اور ہم سب کا حامی و ناصر ہو (آمین)
Inayat Kabalgraami
About the Author: Inayat Kabalgraami Read More Articles by Inayat Kabalgraami: 94 Articles with 84759 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.