جشن میلادِ مصطفےٰ ﷺ

قرآن مجید کے پڑھنے سے جو ایمان افروز موضوعات ایک قاری کے قلب و جان کو جگمگاتے ہیں ان میں سے ایک موضوع میلاد مصطفےٰ ﷺ ہے ۔جب حضور نبی اکرم افتخار آدم وبنی آدم حضرت محمد مصطفےٰﷺ کی ولادت مقدسہ کا ذکر چھڑ تا ہے تو ہر صاحب ایمان کا سر اﷲ کے حضور فرط تشکر سے خم ہو جاتا ہے اور جبین ہستی سجدہ ہائے شکر ادا کرتے نہیں تھکتی کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺکو کائنات میں مبعوث فرما کر دکھی انسانیت کے غم و آلام کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مداوا کر دیا ۔آپﷺ کی ولادت ِ با سعادت کی صبح سعادت آفریں پر ابد تک کی صبحیں نثار کہ اسی صبح سعادت نے بے کسوں ،مجبوروں اور بے بسوں کی پریشان حالی کو دور کرنے کی خاطر اپنے دامن سے امید ورجا کا وہ مہرِ جہاں افروز طلوع کیا جس نے خاک نشینوں کو آداب شہنشاہی کا سلیقہ عطا کر دیا۔حضور ﷺ کا میلاد مقدس قرآن کے دلآویزمتن کی زینت بنا ہوا ہے ۔قرآن مجید میں شانِ میلاد مصطفےٰ ﷺ کا اولین اظہار یوں ہوتا ہے ۔’’اور جب اﷲ نے نبیوں سے عہد و میثاق لیا کہ جب میں تمہیں کتاب و حکمت سے سرفراز فرماؤں اور پھر تمہارے پاس میرے محبوب رسولﷺ تمہاری تصدیق فرماتے تشریف لائیں تو تم ضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور اُن کی مدد کرو گے ۔فرمایا کیا تم نے اقرار کر لیا اور اس پر پکے ہو گئے ۔سب نبیوں نے کہا ہم نے اقرارکیا تو فرمایاگواہ ہو جاؤ ایک دوسرے کے اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں جو کوئی اس کے بعد اپنے عہد سے پھریں گے تو وہ فاسقوں میں سے ہوں گے۔‘‘(پارہ 3آیت82-81)

ازل کی حسین اور لازوال ساعتوں میں یہ وہ عہد تھا جس سے رب کریم نے باری باری کائنات میں تشریف لانے والے انبیاء و رُسُل کو اس حقیقت کا پابند کر دیا تھا کہ اگر اُن کی زندگیوں میں مطلوب دو عالم حضرت محمد مصطفےٰﷺ تشریف لائیں تو پھر انہیں اپنی نبوت و رسالت سے دستبردار ہو کر نبوت محمدی ﷺ کو اپنا نا ہو گا اور انہی کی شریعت کی پیروی کرنا ہوگی ۔ میثاق انبیاء کی یہ محفل اس قدر پاکیزہ ٔ دلآویز اور ایمان آفریں تھی کہ امیر خسرو بے اختیار پکاراُٹھے۔
نمی دانم چہ منزل بود شب جائیکہ من بودم
بہرسو رقص بسمل بود شب جائیکہ من بودم
خدا خود میر مجلس بود اندر لامکاں خسرو ؔ
محمد(ﷺ) شمع محفل بود شب جائیکہ من بودم

یہ ہستی جس کی نبوت کو عالمگیر اور جس کے پیغام کو ہمہ گیر بنانے کے لئے میثاق انبیاء کا اہتمام کیا گیا تھا وہی ذات والا صفات ہے کہ جس کے نور کے ظہور کی خاطر بزم دو عالم سجائی گئی ۔اگر نور مصطفوٰی کا ظہور نہ ہونا ہوتا تو نہ زمین کا فرش بچھایا جاتا اور نہ آسمانوں کا سائبان لگایا جاتا ۔یہ شرق و غرب ،شمال و جنوب،چاند ستاروں کی ضوباری ،گُل و گلزار کی مہکباری ،آبشاروں کا ترنم ،پہاڑوں کی سربلندیاں ،دشت وجبل کی ہیبت ،سمندروں کی وسعت ،سبزہ وگُل کی لہلاہٹ ،غرضیکہ پوری کائنات کا وجود ذات مصطفےٰﷺ کا مرہون منت ہے کہ اگر میلاد مصطفےٰﷺ کا اہتمام نہ ہوتا تو عالم انسانیت کے جد اعلیٰ سیدنا آدم علیہ السلام کو بھی وجود عطا نہ ہوتا حتیٰ کہ خدا بھی اپنا خدا ہو نا ظاہر نہ کرتا۔’’انوارالمحمدیہ‘‘میں امام یوسف نبہانی حدیث قدسی نقل کرتے ہیں۔ لولاہٗ وما خلقتک ولا خلقت سماء ولا ارضا۔(مدارج النبوت ،زرقانی از محمد بن عبد اﷲ ،جواہر االبحار ، مواہب الدنیہ وغیرہ) ترجمہ’’اے آدم علیہ السلام وہ (محمد ﷺ)اگر نہ ہوتا تو میں تجھ کو پیدا نہ کرتا اور نہ ہی آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کرتا۔‘‘

اسی طرح میلادِ مصطفےٰ ﷺ کے حوالے سے حضور نبی کریم ﷺکی حدیث بھی اسرارِ فطرت کو بے نقاب کر دیتی ہے ۔اول ما خلق اللّٰہ نوری۔’’سب سے پہلے اﷲ نے جو چیز پیدا فرمائی وہ میرا نور تھا۔‘‘(خصائص کبریٰ ،کتاب الوفا، مستدرک ،زرقانی شریف)

حضور نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی ہی نجات دہندۂ عالم تھی۔ یہی ہستی وحشت و بربریت کی آگ بھڑ کانے والی طاغوتی طاقتوں کے غرور کو خاک میں ملا کر امن و سکون کے گلاب اُگانے والی تھی ۔یہی ہستی مقصود عالم تھی اور یہی وہ ذات والا صفات تھی جس کا انتظار کرتے کرتے بزم عالم کی آنکھیں پتھرا چلی تھیں ۔اسی ذات قدسی کی نوید جملہ انبیاء و رسل ایک دوسرے کو دیتے آرہے تھے اور ہر پیغمبرتمام عمر آپ کا انتظار کرتا اور جب اس کائنات خاکی سے رخصت ہونے کا وقت آتا تو اپنے جانشینوں کو محبوب خدا حضور خاتم النبیینﷺ کے بارے میں بشارات اور نشانیوں سے آگاہ کرتے ہوئے وصیت کرتا کہ اگر وہ پیغمبر آخر الزمان ﷺکہ جن سے بڑھ کر اﷲ کو اور کوئی ہستی محبوب نہیں ہے تمہاری زندگی میں آجائیں تو بلا تاخیر اُن کے دست حق پرست پر بیعت کر کے اپنی نجات اور سرخروئی کا سامان مہیا کر لینا ۔ تمام زندگی اس رسول موعود کے پابہ رکاب اور باطل قوتوں کے مقابلہ میں اُس کا پورا پورا ساتھ دینا یہی وہ عہد تھا جو اﷲ نے پیغمبروں سے لیا تھا اور جملہ رُسل نے اس عہد کی کس طرح پاس داری کی اس کا اندازہ حضرت آدم علیہ السلام کی اس وصیت سے ہوتا ہے ۔

’’جب سیدنا آدم علیہ السلام کو اپنے آخری وقت یعنی انتقال کا یقین ہو گیا تو انہوں نے اپنے بیٹے حضرت شیث علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ اے بیٹے مجھے اﷲ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ میں تم سے نور محمد ﷺ کے بارے میں عہدلوں جو تمہاری پیشانی میں جلوہ گر ہے کہ تم اس کو پاکیزہ ترین عورت کی طرف منتقل کرنا ۔‘‘(کتاب الانوار و مصباح السرورصفحہ 716)

سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر سیدنا عیسٰی علیہ السلام تک پوری تاریخ انسانیت میلادِ مصطفےٰ ﷺکے تذکار میں مصروف تھی ہر صاحب ایمان کی یہی آرزو تھی کہ وہ اس نبیﷺ موعود کے استقبال میں بازی لے جائے جو وجۂ تخلیق کائنات ہے ۔بشارت (حضرت عیسیٰ علیہ السلام)یوحنّا کی انجیل باب 16میں ہے ’’لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لئے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو وہ مددگار تمہارے پاس نہ آئے گا لیکن اگر جاؤں گا تو اُسے تمہارے پاس بھیج دوں گا اور وہ آکر دنیا کو گناہ اور راست بازی اور عدالت کے بارہ میں قصور وار ٹھہرائے گا۔‘‘(16:8,7)قرآن مجید نے انجیل کی اس بشارت کی گواہی ان الفاظ میں دی:’’(اور یاد کرو کہ )جب عیسیٰ بن مریم نے فرمایا اے بنی اسرائیل میں اﷲ تعالیٰ کا رسول ہوں تمہاری طرف (میں ) تصدیق کرتا ہوں جو مجھ سے پہلے تھی تو رات (میں)خوشخبری سناتا ہوں ایک ایسے رسول کی جو میرے بعد تشریف لائیں گے اور اُن کا اسم گرامی احمد ہو گا۔‘‘(الصف آیت 6)

جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بہت پہلے سیدنا ابراہیم علیہ السلام بھی مولود مصطفےٰ ﷺ کے لئے اﷲ کریم ﷺ سے دعا فرماچکے تھے کہ الہٰی اس رسول عظیم کو مبعوث فرما دے جو گمراہوں کو پاک کرے اور تیری آیات اور نشانیاں بتا کر انہیں تیری طرف راغب کر ے ۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے دعا مانگی تھی ۔ربنا وابعث فیھم رسول منھم یتلوا علیھم اٰیٰتک ویعلمھم الکتٰب والحکمۃ ویزکیھم ط انک انت العزیز الحکیمo’’اے ہمارے رب اسی جماعت کے اندر ان ہی میں سے ایک ایسا پیغمبر بھی مقرر کر دیجئے جو ان لوگوں کو آپ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سنایا کرے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیا کرے ،بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے ۔‘‘(البقرہ 129)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے اقوال اور مناجاتوں کی روشنی میں یہ کہنا بے جانہ ہو گا کہ : ؂
ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہویدا
دعائے خلیلؑ اور نوید مسیحاؑ

ایک مرتبہ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے نبی پاک صاحب لولاک ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا ۔اخبر ماعن نفسک۔ہمیں اپنی ذات والا صفات کے متعلق فرمائیے تو حضور پرنور ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’میں اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا نتیجہ ہوں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں اور جب میری والدہ ماجدہ مجھ سے حاملہ ہوئیں تو انہوں نے دیکھا کہ ایک نور کا ان سے ظہور ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے اور وہ نور میں ہوں۔‘‘(دلائل النبوۃ بیہقی ص11،دارمی شریف 17،خصائص الکبریٰ 114،تفسیر ابن کثیر360،البدایہ والنہایہ 275،مشکوٰۃ شریف 513وغیرہ وغیرہ)

اب اس نور اولین کے ظہور کا وقت قریب آچلا تھا جس سے صبحِ ازل ضوفگن ہوئی تھی چنانچہ ارشاد خداوندی ہوا۔قد جاء کم من اللّٰہ نور وکتاب مبین ۔’’بیشک تمہارے پاس اﷲ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب‘‘(پارہ 6)مذکورہ بالا آیت کریمہ کی تشریح کرتے ہوئے امام فخر الدین رازی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :’’بے شک نور سے مراد محمدمصطفےٰ ﷺ ہیں۔(تفسیر کبیر365مطبوعہ مصر)سید المفسرین سیدنا عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں :’’بے شک آیا تمہارے پاس اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نور یعنی رسول کریم ﷺ‘‘(تفسیر ابن عباس 72مطبوعہ مصر)امام جلال الدین سیوطی تفسیر جلالین میں ،امام ابو البرکت عبد اﷲ بن احمد نے ’’تفسیر مدارک‘‘ میں ،امام ابو جعفر محمد بن جریر الطبری نے تفسیر ابن جریر میں ،امام محمود آلوسی نے تفسیر روح المعانی میں ،علامہ اسمٰعیل حقی نے تفسیر رو ح البیان میں ،قاضی ثناء اﷲ پانی پتی نے تفسیر مظہری میں ،علامہ معید الدین واعظ کا شفی نے تفسیر حسینی میں ، حضرت قاضی عیاض نے شفا شریف میں ،ملا علی قاری نے موضوعات کبیر میں اوردیگر بے شمار محدثین اور مفسرین نے اس آیت مبارکہ میں نور سے مراد ،ذات محمدی ﷺ لی ہے ۔

اب میلاد مصطفویٰ ﷺ کی ساعتیں قریب آرہی تھیں ،ستم رسیدگانِ ہستی کی مظلومیت کی زنجیریں کاٹنے والے نبیٔ الآخر الزماںﷺ کی ولادت قدسی کا وقت آپہنچا تھا ۔ ان مقدس ساعتوں کا ماجرہ محدث ابن جوزی علیہ الرحمۃ سے سنئے۔ آپ تذکارِ مقدسہ کی روشنی میں لکھتے ہیں :’’سیدہ طیبہ طاہرہ سرکار مائی آمنہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میرے پیارے فرزند حضرت محمد مصطفےٰ ﷺنے ابھی اپنے قد ومِ میمنت لزوم سے کائنات کو مشرف نہیں فرمایا تھا کہ جبریل امین میرے پاس آئے ۔اُن کے ہاتھ میں دودھ سے زیادہ سفید ،شہد سے شیریں اور مشک سے زیادہ خوشبودار شربت کا پیالہ بھرا ہوا تھا ۔مجھے دیا کہ اسے پی لیں ۔میں نے اس کو پی لیا پھر جبریل علیہ السلام نے مجھے کہا کہ سیر ہو کر پیو تو میں نے خوب سیر ہو کر پیا ۔پھر اُس نے کہا اور پیو میں نے اور پیا ۔پھر اس نے ہاتھ نکال کر ،میرے شکم پر پھیر کر کہا:اظہر یا سید المرسلین، اظہر یا خاتم النبیین ، اظہر یا رحمۃ اللعالمین ،اظہر یا نبی اللّٰہ ،اظہر یا رسول اللّٰہ ،اظہر یا محمد بن عبد اللّٰہ ،فظہر ﷺ کا البدر المنیر الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللّٰہ ۔(بیان المیلا 45)’’اے رسولوں کے سردار ظہور فرمائیے ،اے خاتم النبیین جلوہ افروز ہو جائیے ۔اے رحمۃ اللعالمین قدم رنجہ فرمائیے ۔اے نبی اﷲ رونق افروز ہو جائیے ۔اے رسول اﷲ تشریف لائیے ۔اے خیر الخلق جہاں جلوہ افروز ہو جائیے ۔اے نور من نو ر اﷲ جلوہ افروز ہو جائیے ۔اے محمد بن عبد اﷲ تشریف لائیے ۔پھر حضور پر نور ﷺ چودہویں رات کے چاند کی مانند چمکتے ہوئے جہاں میں رونق افروز ہوئے ۔الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللّٰہ ۔

سبحان اﷲ !وہ کیا سماں ہو گا ۔کیامنظر ہو گا۔مجبوروں کے آنسو کس طرح خود بخود خشک ہو رہے ہوں گے ۔ویرانی کو بہاروں کا حسن عطا ہو رہا ہوگا ۔مایوس دل اُمید و رجا سے آباد ہو رہے ہو ں گے ۔ ہر طرف نور و نگہت کی فضا ہو گی ۔اس حسن فطرت پر فطرت خود تصدق ہو رہی ہو گی ۔ولادت مصطفوی ﷺنے انتظار کی گھڑیاں ختم کر دی تھیں اور وہ وجودِ مسعود کائنات میں جلوہ افروز ہو چکا تھا جو رحمۃ للعالمین کے لقب سے پکارا جانا تھا ۔حق تو یہ ہے ۔ ؂
تبسم ہی تبسم تھے نظارے لالہ زاروں کے
ترنم ہی ترنم تھے کنارے جو ئباروں کے
بصد اندازِ یکتائی بغائت شانِ زیبائی
امیں بن کر امانت آمنہ کی گود میں آئی
جہاں میں آج جشن عید کا سامان ہو تا ہے!
اِدھر ابلیس تنہا اپنی ناکامی پہ روتا ہے

میلاد مصطفےٰ ﷺ کا مفہوم فقط یہی نہیں ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت کے حالات پر اکتفا کیا جائے ،بلکہ میلاد مصطفوی کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ آپ ﷺکی ولادت باسعادت کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ ﷺ کے خصائص ،کمالات ،انعامات اور اعزازات کا تذکرہ کیا جائے تاکہ عالم انسانیت کو احساس ہو سکے کہ جو شخصیت کائنات میں جلوہ گر ہو رہی ہے اس کا مقام و مرتبہ کیا ہے ۔حکم ربانی ہے ۔واما بنعمۃ ربک فحدث۔’’اور میری نعمتوں کا خوب چرچا کرو۔‘‘

اب دیکھنا یہ ہے کہ اﷲ کی وہ کون سی نعمتیں اور انعامات ہیں جن کا چرچا رب کریم کو مقصود ہے ۔رب کریم سورۂ آلِ عمران میں اپنے حبیب ﷺ کے وجود کو احسان اور انعام عظیم سے تعبیر کر رہے ہیں ۔’’حقیقت میں اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں پر احسان کیا جبکہ ان میں انہی کی جنس سے ایک ایسے پیغمبر کو بھیجا(آل عمران164)گویا آیت مذکورہ کی رو سے حضور ﷺ کا وجود اقدس اہل ایمان کے لئے اﷲ کا احسان عظیم اور نعمت کبیر ہے۔تو پھر بندوں کو چاہئیے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کا چرچا کرنے اور ذکر کو عام کرنے کیلئے میلاد کی پاکیزہ محافل اور مجالس سجائیں۔

محفل میلاد :مسلمانوں کا ایک جگہ جمع ہونا اور حضور ﷺ کی ولادت باسعادت ۔معجزات و کمالات اورصورت و سیرت کا بیان کرنا خوشی و مسرت کا اظہار کرنے کا نام میلاد ہے۔ یہ سنت خدا ،سنت انبیاء، سنت صحابہ اور طریقہ بزرگان دین بھی ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :قل بفضل اللّٰہ وبرحمۃ فبذالک فلیفرحوا ط ھو خیر مما یجمعون۔’’اے محبوب لوگوں سے فرمادیجئے اﷲ کے فضل اور رحمت کے ملنے پر چاہئیے کہ وہ خوشی کریں وہ بہتر ہے اس سے جو وہ جمع کرتے ہیں ۔(پارہ11رکوع11)اس آیت میں فضل و رحمت کے حصول پر خوشی منانے اور مال خرچ کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ بات مسلم ہے کہ حضور ﷺکی ذات گرامی اﷲ تعالیٰ کا سب سے بڑا فضل اور اﷲ کی رحمت ہے جیسا کہ قرآن کریم میں حضور کو رحمت فرمایا گیا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : وما ارسلنٰک الا رحمۃ اللعالمین۔’’اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر۔‘‘اس آیت مقدسہ سے معلوم ہوا کہ حضورﷺ اﷲ تعالیٰ کی سب سے بڑی رحمت ہیں ۔ حضور ﷺ اﷲ تعالیٰ کا فضل اور رحمت ہیں اس لئے آپ کی ولادت با سعادت پر خوشی منانا یہ قرآن کریم کی تعلیمات کے عین مطابق ہے ۔

حضور ﷺ نے اپنا میلاد منایا:نبی کریم ﷺ سے پیر شریف کے دن روزے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:’’اس دن میں پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پر وحی کی ابتدا ہوئی ۔‘‘ (مشکوٰۃ شریف)اس سے معلوم ہوا حضور ﷺ نے پیر شریف کے روزے کا اہتمام فرماکر خود اپنی ولادت کی یاد منائی ۔میلاد النبی ﷺ کے متعلق خلفائے راشدین کا بیان بھی ملاحظہ فرمائیں ۔

خلیفہ اوّل سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ :نے فرمایا جس شخص نے حضور نبی کریم ﷺ کا میلاد شریف پڑھنے پر ایک درہم بھی خرچ کیا وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا۔(النعمۃ الکبریٰ)

خلیفہ دوئم سید نا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ:نے فرمایا جس نے حضور ﷺ کے میلاد پر ایک درہم بھی خرچ کیا اس نے گویا اسلام زندہ کیا (النعمۃ الکبریٰ)

خلیفہ سوئم سیدنا عثمان غنی رضی اﷲ عنہ:نے فرمایا کہ جس نے حضور نورِ مجسم ﷺ کے میلاد پر ایک درہم بھی خرچ کیا گویا وہ غزوہ ٔ بدر و حنین میں حاضر ہوا۔(النعمۃ الکبریٰ)

خلیفہ چہارم سیدنا علی شیر خدا رضی اﷲ عنہ نے فرمایا: جس نے نبیٔ رحمت ﷺ کے میلاد کی تعظیم کی اور میلاد خوانی کا سبب بناوہ دنیا سے ایمان کے ساتھ جائے گا اور جنت میں بغیر حساب کے داخل ہو گا۔محفل میلاد مصطفےٰﷺ میں شرکت باعثِ برکت اور نجات دارین ہے یہ شکرانہ کا حسین موقعہ اور رضائے الہٰی کا پاکیزہ ذریعہ ہے ۔ جشن میلاد مصطفےٰ ﷺ منانے سے شرک کا قلع قمع ہوتا ہے اور توحید کا پر چار۔ماہ ربیع الاول میں ہر مسجد ،ہر مدرسہ اور ہر گھر محفلِ میلاد رسولﷺ سے سجانا چاہئیے تاکہ رب کائنات کی خوشی و رضا حاصل ہو۔
جشن میلاد گھر گھر مناؤ سبھی
آگیا ہے ہمارا تمہارا نبی ﷺ
 
Peer Muhammad Tabasum Bashir Owaisi
About the Author: Peer Muhammad Tabasum Bashir Owaisi Read More Articles by Peer Muhammad Tabasum Bashir Owaisi: 85 Articles with 165768 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.