ماہ مبارک ربیع الاول آج اگر ہم ہوتے وفادارِ نبی ؟

علامہ اقبالؒ کا زبان زدِ عام شعر جو ہر موقع پر پڑھا جاتاہے کہ:
ؔکی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
دو مصروں میں کامل حیات ہے ، خالق کائنات نے کائنات میں جتنے بھی انبیاء اور رسول بھیجے سبھی اپنی قوموں کو یہ بشارت دیتے رہے کہ ایک ایسی ہستی بھی آئے گی جو کسی خاص قوم وقت یا زمانے کیلئے نہیں بلکہ تا قیامت سب کیلئے رہنما ہوگی اور پھر عرب کے جاہل اور فرسودہ معاشرے کی قسمت جاگ اٹھی اس دنیا نے ایسا بھی دن دیکھا جب ہر ماں نے بیٹا جنا، ہر درخت کو پھل لگا، دودھ نہ دینے والے جانور بھی دودھ دینے لگے۔ یہ بحث الگ ہے کہ وہ دن نو بارہ یا 17کا تھا لیکن یہ طے ہے کہ وہ دن ولادت مصطفی ﷺ کا دن تھا۔ آمنہ بی بی کے گھر جنم لینے والایتیم بچہ جس نے آتے ہی بت کدوں میں لگی آگ کو ٹھنڈا کرکے توحید کے دئیے چلائے ۔ صرف 63سال کی عمر میں وہ مقام پا گیا کہ جونہ کسی کے نصیب میں آیا اور نہ آئے گا ۔ آپؐ کی ذات ، سیرت اور مقام اتنا طویل مضمون ہے کہ اگرمجھ ناچیز کو ہزارہا سال بلا تعطل تحریر کرنا پڑے تو شاید کوئی ایک پہلو بھی مکمل نہ ہوسکے ۔ ہاں چند چیزیں جو آج کے معاشرے کو بیدا ر کرنے کیلئے قابل ذکر ہیں ، اس موقع پر ان کا ذکر لازم ہے ۔آپؐ نے فرمایا :میں عشا ء کی نماز ادا کررہا ہوتا سجدے میں جاتا میری ماں مجھے آواز دیتی تو میں نماز توڑ کر کہتا جی امی ۔ آج حُب رسولؐ کا دعویٰ کرے والے بیٹے اور بیٹیاں ماں باپ کی تذلیل کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ اولاد کی والدین سے بدسلوکی ، نافرمانی شاید روشن خیالی کے کفن میں لپٹی رویوں کی وہ لاش ہے جسے کیڑے بھی کھانا پسند نہیں کرتے۔ جن ماں باپ کے قدموں میں جنت کو رکھا گیا وہ ماں باپ اپنی اولاد کے چند لمحوں کو ترس جاتے ہیں ۔ ان والدین کہ جن کی دعاؤں کے صدقے اولاد آسانیوں کے سایہ دار درخت تلے رہتی ہے انہیں اولڈ ہومز میں سسکتا چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ پھر آپؐ نے فرمایا ’’تم میں سب سے بہتر وہ ہے کے اخلاق اچھے ہیں‘‘۔ آج وفاداری کادم بھرتے ہم مسلمان سر عام عدم برداشت کی ایسی تصویر بن چکے ہیں جس نے ایمان کے آئینے کو دھندلا کر دیا۔ گالم گلوچ ، تلخ لہجے، تکبر پورے سلام کا آدھا جواب، خود کو ابتر اور دوسرے کو کمتر سمجھناہمارے عام رویے ہیں۔ ہم لوگ اخلاقیات کی سار ی دولت کھو چکے ہیں اور اب ہمارے پاس بدا خلاقی کے وہ تیر ہیں جنہوں نے ہمارے کردار کو مجروح کرکے دوسروں کے سینے بھی چھلنی کردئیے ہیں ، ہم میں مومنین کی صفات تو کیا مسلمانوں سی عادات بھی نہیں۔جشن ولادت مصطفی ﷺ کے موقع پر گلیوں میں اور گھروں میں چراغ جلانے والے دل میں وفاداری کے چراغ جلائیں اور اس چراغاں کی مخالفت کرنے والے خود کو اپنے کل اور واحد جماعت حق سمجھنے کی غلط فہمی سے نکل کر کافروں کو مسلمان کرنے کی کوشش کریں نہ کہ مسلمانوں پر کفر کے فتویٰ دیں۔ تصور کیجئے کہ روز قیامت ہے انصاف کا دربار لگا ہے ہم مسلمان اپنے اعمال سمیت اﷲ کے حضور پیش ہیں ۔ وہاں کوئی میاں ، ملک، چوہدری ، بھٹی ، آرائیں ، سید نہیں وہاں صرف امتی کی حیثیت سے ہمارا سامنا آپؐ سے ہو فرشتے یہ کہیں کہ یار سول اﷲ ﷺ یہ شخص آپ کا کلمہ پڑھنے کے باوجود نماز روزے سے غافل تھا یہ صاحب ِ مال تو تھا مگر زکوٰۃ، صدقہ نہیں دیتا تھا۔ غریب اس کی دہلیز پر جب صدا لگاتے تو اس کے ملازم انہیں دھکے مار کر نکال دیتے ، اسے اپنی دولت ، حیثیت اور مرتبے پر غرور تھا اور یہی غرور اسے بدا خلاقی پر اکساتا ۔ یہ شخص رقص کی محافل کروا کر اپنی بیٹیوں جیسی خواتین سے رقص کرواتا، ان کی عصمتوں کو پامال کرنا اس کا شیوا تھا مگر ان اعمال کے باوجود دنیا میں معتبر تھا۔ اس کے ماتھے پہ رہنمائی کا لیبل لگا تھا ، لوگ اﷲ سے زیادہ اس سے ڈرتے تھے ۔ ہاں اسکے اعمال نامے میں یہ درج ہے کہ جن محافل میں اس کی بلے بلے کی گئی وہاں اس نے مال لُٹایا۔ یہ سب اعمال ہمارے ارد گرد رہنے والوں کے ہیں ان اعمال کے ساتھ زیارت مصطفی ﷺ ہوئی تو ہم کس منہ سے اپنی وفاداری اور محبت کا دعویٰ کریں گے۔ بغیر تحقیق آپ ؐ کے نام منسوب اقوال کو SMSیا سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلانا آپ پر بہتان لگانا ہے ۔ آذانوں کی صدا پر اپنے کاموں میں مصروف رہنا سب سے بڑے رکن اسلام کا تمسخر اڑانا ہے اورپھر ہمارا ولادت مصطفی ﷺ منانا صحیح ہوتے ہوئے بھی ہمارے عمل کے باعث صحیح نہیں رہتا۔ میرا ایمان ہے کہ جشن ولادت مصطفیٰ ﷺ اتنے زور شور سے منایا جائے کہ اہل کفر نہ چاہتے ہوئے بھی پکار اٹھیں ’’یا رسول اﷲﷺ‘‘ لیکن یہ ایک دن کا کام نہیں مسلمان اپنی سیرت ، کردار، عمل سے ایسا نمونہ بن جائیں کہ انہیں دیکھنے والے پکار اٹھیں کہ یہ ہیں اس محمدؐ کے امتی کہ جو تاقیامت رحمت اللعالمیں ہیں معلوم نہیں کہ یہ تلخ حقیقت کس طرح لوگ ہضم کریں گے لیکن بہر حال یہ سوال تو ہے کہ آج کے دور کے سید یہ چاہتے ہیں کہ ان کی پرستش اسطرح کی جائے کہ لوگ انہیں شاہ جی شاہ جی کہتے ان کے قدموں میں ڈھیر ہو جائیں کیونکہ وہ اُمی ہیں اور یہ سید یعنی آلِ رسولؐ کی آل ہیں ۔ لیکن سب نہیں بہت سے شاہ صاحبان فلم میکر، سینیما مالک، ڈائریکٹر ، رقص کی محافل کرانے والے ، سود خور، شراب نوش، جلالی، رشوت کو حق سمجھ کر لینے والے بہت سے ایسے اعمال کرنے والے کہ ہم ناقص العقل آج کے سیدوں کو دیکھ کر یہ سوچتے ہیں کہ سید کہیں خدانخواستہ آلِ پاک کے خلاف کوئی سازش تونہیں اور پھر ہمارے ہاں سوال کی آزادی نہیں شاید ایسے سوال بدتمیزی سے بڑھ کر گستاخی تصور کئے جاتے ہیں ۔ اقبال کی شاعری پر کفر کے فتویٰ لگانے والے آج انہی کے اشعار سے مقرر بنے حاضرین سے چندہ وصول کرتے ہیں۔ اب یاوہ کل غلط تھے یا آج غلط ہیں یہ نہیں ہوسکتا کہ ان کے افعال پر سوال نہ ہوں ۔ اسی طرح یہ سوال عین درست اور حق بجانب ہے کہ کیا مجھے پر ان سیدوں کی مریدی وفاداری اور تابعداری جائز ہے جو اس وقت انگریز کے تابعدار تھے اور تابعدادری کے عوض زمینوں کی رجسٹریاں لے رہے تھے جب عام امتی جہاد میں مصروف اپنے سر کٹوا رہے تھے کیا یہ سوال آج نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی سید بادشاہ صرف ایک بار میلاد شریف کرواتاہے اور کئی بار مجرے کی محافل اور میں امتی جو یہ جانتا ہوں کہ آل رسولؐ قطعاً اس جیسے ہو ہی نہیں سکتے اور نہ تھے تو پھر بھی میں اس کے پیر چوموں ۔ المختصر یہ کہ اسلام کیلئے آپ ؐ کی ولادت باسعادت یقینا مقام شکر و مسرت ہے مگر اسے منانے کا اہتمام کرنے والوں کو اعمال کی درستگی اور اصلاح کابیڑہ اُٹھانا ہوگا اور اسے نہ منانے والے طبقے کو بھی یہ سوچنا اور سمجھنا ہو گا کہ وہ اپنے جس اسلام کو دنیا میں بندوق کے ذریعے نافذ کرنے میں لگے ہیں وہ اسلام عدم برداشت کی چادر میں لپٹا مذہب کا وہ روپ ہے جس کی ترویج سے ہماری جگ ہنسائی ہوئی۔ شانِ مصطفیٰﷺ کو بیان یا تحریر کرنا میری یا میری قلم کی اوقات نہیں بس یاد رکھیئے! قرآن کے 30پارے ہی شان مصطفیٰﷺ اور صفاتِ مصطفیٰﷺ ہیں لیکن مجھے تو زبان سے عشق مصطفیﷺ کے نعرے لگانے والوں کے دلوں میں حب محمدؐ کا دیا جلانا ہے جس روز یہ دیا جل گیا اس روز آفات کی جگہ انعامات ہوں گے اور پستی کی جگہ اعلیٰ و عرفہ مقام یہ محبت گو کہ کھو گئی ہے مگر اس گمشدہ محبت کو تلاش کرکے مسلمانوں کے دلوں میں ڈال کر انہیں مومن بنانا ہی حق ہے چلو امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا وہ کام جس نے گناہگاروں کو ولی بنا دیا ،کرکے اپنے حصے کی شمع جلاکر کم از کم خود کو اﷲ اور اس کے رسولؐ کے آگے سرخرو کریں ۔ رہا سوال جزا کا تو وہ نبی ؐجانے خدا جانے۔ اہل اسلام کو ولادت مصطفیٰ ﷺ مبارک ہو۔
Qazi Naveed Mumtaz
About the Author: Qazi Naveed Mumtaz Read More Articles by Qazi Naveed Mumtaz: 28 Articles with 21620 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.