پاکستان کے سول اعزازت ملک کی اُن ممتاز
شخصیات کو دیئے جاتے ہیں ، جو ایوا ن صدر کے مقرر کردہ معیار پر پورے اترتے
ہوں ، ایوان صدر کے مقرر کردہ معیار کیا ہیں ،اور کن حضرات کو سول اعزازت
سے نوازا جاتا ہے ، اس پر کسی بحث کی ضرورت نہیں ، کیونکہ ہم سب جانتے ہیں
کہ ایوان صدرمیں اعزازات کا معیار کیا ہے۔ میں اپنے ملک کی جنت نظیر وادی
سوات سے اس لئے زیادہ محبت نہیں کرتا کہ وہ میرے اجداد کی سر زمین ہے ،
بلکہ مجھے اس بات پر فخر زیادہ اس لئے ہوتا ہے کہ بہادروں کی جنم بھومی ہے۔
ویسے تو پختون قوم کے بارے میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے پیٹھ دکھائی
ہو ، پختون اپنے غیرت ، پختون ولی ، جرات اور بہادری کے استعارے کے طور پر
پوری دنیا میں ایک شناخت رکھتے ہیں، ان کے تعارف کی ضرورت ہزاروں سال کی
تاریخ رکھنے کے سبب پیش نہیں آتی۔اپنی ضد ، اپنی سادگی اور اپنے وعدے پر
قائم پختون قوم کو سوچی سمجھی سازش کے تحت تباہ کیا جارہا ہے۔پختون قوم کی
ثقافت ، روایات و تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے۔کلچر کے نام پر رقص کسی قوم
کی ثقافت نہیں کہلائی جاسکتی۔لیکن پاکستان میں ایک عجیب سے روایت بنتی جا
رہی ہے کہ رقص کو بھی ثقافت و روایات کا نام دے دیا گیا ہے۔ روایات کیا
ہوتی ہیں، اس کی چند مثالیں ضرور دینا چاہوں گا ۔ بہادری ، جرات اور اپنی
وعدے پر ڈٹ جانا ،اس قوم کے فرد کی ثقافت کی پہلی نشانی ہے۔ ابتدائیہ میں
سول اعزازات کے حوالے سے تذکرہ کیا تھا ۔ ملالہ یوسف زئی ، اب کسی تعارف کی
محتاج نہیں ہے ، آئی ایم ملالہ ، اور آئی ایم ناٹ ملالہ نامی دو کتابیں اس
وقت چھپ چکی ہیں ،اس لئے اس کا موازنہ آپ خود کریں ، لیکن ملالہ یوسف زئی
کو سوات میں انتہا پسندوں کے حوالے سے جرات کا ایک استعارہ دیا گیا تھا اور
پھر پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایک مخصوص مقررہ معیار کے پیش نظر ان گنت
اعزازت اس سوات کی بچی کو دئیے گئے۔ لیکن سوات کی سب سے جرات مند خاتون آہن
،ان پڑھ مہر النسا کو ہم سب بھول چکے ہیں۔ کیا کسی کو یاد آیا کہ سوات کی
یہ ان پڑھ مہر النسا ء کون تھی ؟۔ ہم پاکستانی عوام شارٹ ٹرم میموری کی
بیماری کا شکار ہیں ۔ یہ خاتون آہن وہ ہیں ، جو کالام میں رہتی ہیں ، انھوں
نے اس وقت جرات کی مثال قائم کی ، جب انتہا پسندوں نے سوات سے پاکستان کا
جھنڈا اتار دیا تھا ۔ ان کے کارندے وادی کے ایک ایک فرد کو غیر مسلح کررہے
تھے ، خاتون آہن مہر النسا اور ان کے شوہر مرد آہن مہر علی ، نے انتہا
پسندوں کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا اور بار بار کی دھمکیوں سے خوف زدہ
ہونے کے بجائے ڈٹ کر کھڑی ہوگئیں اور انتہا پسندوں کی جانب سے جب ان کے
گاؤں پر حملہ کیا گیا تو خاتون آہن مہر النسا نے کلاشنکوف سے 6انہتا پسندوں
کو ہلاک اور دو کو زخمی کردیا ، لیکن اپنا گھر نہیں چھوڑا ۔ ہم سب مہر
النسا و مہر علی کو کو بھول چکے ہیں ، جس نے انتہا پسندوں کی رٹ کو چیلنج
کیا تھا ، جب پاکستانی افواج سوات میں پاکستان کا جھنڈا لیکر آپریشن کیلئے
نکلی تھی۔کیا سوات کا کوئی مقامی اخبار ، مقامی چینل ، قومی چینل یا اخبار
مہر النسا و مہر علی کے بارے میں معلومات دے گا کہ وہ کیسے ہیں ، ان کے
حالات کیسے ہیں ؟۔ کیا پاکستان کے سول اعزازات میں مہر النسا و مہر علی کی
بہادری کے لئے ایک تغمہ شجاعت کا حق نہیں بنتا تھا ۔ بلکہ انھیں تو ایسے
فراموش کردیا گیا کہ جیسے ان کا وجود سوات میں تھا ہی نہیں۔ ملالہ یوسف زئی
سب کو یاد رہ گئی ، لیکن ہم مہر النسا کو بھول گئے اور فراموش کر بیٹھے۔
ہماری حکومت کو سوات کی ایک اور جرات مند بیٹی بھی یاد نہیں ہوگی ، جس نے
ـ"خویندو جرگے"( خواتین کا جرگہ یعنی بہنوں کی کونسل)کی بنیاد ڈالی ۔ یہ
بہادر خاتون تبسم عدنان ہیں ۔ جن کی بہادری کو پاکستان نے تو تسلیم نہیں
کیا لیکن اقوام متحدہ نے2015میں "حوصلہ مندخاتون"کے عالمی ایوارڈ سے نوازا۔
سوات کی بیٹی تبسم عدنا ن نے ـ"خویندو جرگے" کے ذریعے خواتین کے مسائل کو
حل کرنے اور مہمات کو چلایا ، جس سے خواتین کو اپنی حفاظت کے حوالے سے
آگاہی مل سکے۔ـ’ جرگہ ‘ بنیادی طور پر مرد حضرات پر مشتمل ہوتا ہے ،تبسم
عدنان کی شادی کم13سال کی کم عمری میں کردی گئی تھی ، لیکن 20 سال شوہر کی
جانب سے ذہنی اور جسمانی تشدد برداشت کرنے کے بعد خلع لے لی۔ خویندو جرگہ
یعنی بہنوں کی کونسل کے نام سے ایک این جی او بنائی جو ہفتہ وار بنیادوں پر
خواتین کے مسائل کو دیکھتا تھا ، ان مسائل میں غیرت کے نام پر قتل ، خواتین
پر تیزاب کے حملے ، اور "سوارا"جیسی رسم ، یعنی کسی جرم یا معاہدے کے بدلے
خواتین کو دیئے جانے والی قبیح روایات کے خلاف آواز اٹھائی ، جو پاکستانی
ایوانوں تک تو نہیں پہنچی ،لیکن تبسم عدنان کو نیلسن مینڈ یلاگارسا مشیل
انوویشن ایوارڈ بھی حقدار لاطینی امریکہ کے ملک کولمبیا کے دارالحکومت
بوگوٹا میں دیا گیا ۔تبسم عدنان نے2015میں امریکہ محکمہ خارجہ کی جانب سے
سیکرٹری آف اسٹیٹس انٹر نیشنل ویمن آف کریج کا ایوارڈ بھی حاصل کیا ہے۔لیکن
پاکستان کے سول اعزازت میں اس بہادر خاتون کیلئے بھی ایک تغمہ نہیں ہے۔سوات
کی ایک اور بہادر خاتون مسرت زیب کو بھی کوئی نہیں جانتا ۔ انھیں بھی
فراموش کردیا گیا کہ کون سی مسرت زیب ؟۔ یہ وہ مسرت زیب ہے جس نے کئی
خواتین کو انتہا پسندوں کے جنگل سے چھڑایا تھا۔سوات کی اس بہادر بیٹی کیلئے
پاکستان کے ایوان صدر میں کوئی اعزاز نہیں ۔ مسرت زیب کے علاوہ سوات کی ایک
اور بیٹی حدیقہ بشیر کوایشین گرلز ایمبسڈر کا ایوارڈ دے کر مقرر کیا کہ
حدیقہ بشیر نے14سال کی عمر میں نویں جماعت کی طالبہ تھی اور سوات میں کم
عمر ی کی شادی کے خلاف مہم چلا کر کئی کم سن لڑکیوں کی شادیاں رکوائی ۔
امریکا میں محمد علی انٹرنیشنل ہیومینیٹیری ایوارڈ دیا حدیقہ بشیر پہلی
پاکستانی خاتون ہیں ، جنھیں یہ اعزاز دیا گیا ۔ پشتون معاشرے میں کم عمری
کی شادی کے خلاف ، کم عمر لڑکی کی جدوجہد اور وہ بھی سوات جیسے علاقے میں
انتہائی بہادری جرات کا عملی مظاہرہ ہے ، حدیقہ بشیر پہلی پاکستانی ایشائی
خاتون ہیں جنھیں کم عمر کی شادیوں کی خلاف مہم میں پہلی پاکستانی کو ایوارڈ
ملا ۔لیکن پاکستان کے ایوان صدر میں سوات کی اس بیٹی کیلئے بھی کوئی اعزاز
نہیں ۔قلم سے جہاد کرنے والی طلعت اخلاق احمد معروف شاعرہ ، افسانہ نگار
اور کئی کتابوں کی مصنف ہیں ، یہ بھی سوات کی بہادر بیٹی ہے جنھیں اپنی
پہلی ہی کتاب ’ گم شدہ سر ‘ پر پروین شاکر ایوارد سے نوازا گیا۔جنھوں نے نا
انصافی ، دہشت گردی کے خلاف اپنے قلم سے جدوجہد کو جاری رکھا ۔ لیکن
پاکستان کے ایوان صدر میں سوات کی اس بہادر بیٹی کیلئے بھی ایک تغمہ نہیں
ہے۔ملالہ یوسف زئی ، کو سب جانتے ہیں ، لیکن سوات کی ان جرات مند بیٹیوں ،
مہر النسا ، تبسم عدنان، مسرت زیب اور طلعت اخلاق احمد کو کیوں فراموش
کردیا گیا ہے ۔ یہ تو وہ بہادر سوات کی بیٹیاں ہیں ، جو عالمی ایوارڈ حاصل
کرنے کی وجہ سے سامنے آئیں ، ان جیسی پورے پاکستان میں ان گنت بہادر بیٹیاں
ہیں ، ان کے لئے ایوان صدر میں کوئی تغمہ کیوں نہیں ہے ؟۔ کیا ان کی جدوجہد
، جہاد نہیں تھا ، کیا اس ہولناک معاشرے میں انھوں نے وہ کردکھایا جو مرد
بھی نہیں کرسکتے تھے ، خاص طور پر اس معاشرے میں جہاں روایات و ثقافت کی
صدیوں کی تاریخ ہے۔ لیکن ہمارے فلمساز ، ٹی وی پروڈیوسر ، اپنے ڈراموں اور
فلموں میں پختون ثقافت کی کون سی روایات سے دنیا کو کیا بتا رہے ہیں ، سنسر
بورڈ انھیں اس بات کی اجازت صرف چند روپوں کیلئے دے دیتا ہے کہ جس فلم کی
ہیروئین کو پشتو بولنے بھی نہیں آتی ، وہ گلیمر اور فنکارہ کے نام پر پختون
ثقافت کے دشمن ، دولت کے پجاریوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں ۔ گلہ کریں تو کس
کریں ، ان بہادر خواتین کے تذکرے کا واحد مقصد یہ ہے کہ پختون ثقافت کو
مسمار نہ کیا جائے ، حکومت سول اعزازات میں ان کی طرح بہادر خواتین کو
پاکستان کا اعلی ترین اعزاز بھی دیں تاکہ پاکستانی معاشرے میں خواتین کے
مثبت کردار کو سامنے لایا جاسکے ۔ انھیں پختون سمجھ کر نظر انداز مت کریں ،
یہ سوات کی ہی نہیں ، پاکستان کی بھی بیٹیاں ہیں۔ |