دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا

ایک صحافی جن کا کسی زمانے میں بڑا نام تھا اور اخبار میں چھپ جانیوالی ان کی خبریں دیکھ کر عام لوگ بھی ان سے ڈرتے تھے بڑے بڑے افسران کیساتھ ان کی تصاویر چھپتی تھی اور وہ صاحب لوگوں کو یہ کہتے پھرتے کہ میرا تعلق ہے فلاں افسر کیساتھ میری دوستی ہے اس لئے اپنے دور میں ان صاحب نے بڑے غلط کام بھی ان افسران سے کئے اور کرائے اور پھر یوں ہوا کہ وہ صاحب میڈیا کے فیلڈ سے ہی نکل گئے اور پھر ہوا وہی جو وزیر کیساتھ ہوا یعنی جن افسران کا لوگوں کو کہہ کر ڈراتے تھے کہ یہ صاحب میرے دوست ہیں انہوں نے بھی ایسے ہی منہ موڑ لیا کہ جیسے جانتے ہی نہیں اور پھر وہ صاحب لوگوں کو دل کی بھڑاس یہ کہہ کر نکالتے کہ فلاں .,... )گندی گالی ( دیکر کو میں نے انکوائری سے بچایا اور خبراس کے حق میں دیکر سب کچھ تبدیل کروایا لیکن آج یہ کس طرح منہ چھپا رہا ہے- ان کی باتیں کچھ لوگ سمجھ جاتے لیکن بیشتر یہی کہتے کہ ہاں زیادتی کرتے ہیں لیکن وہ صاحب یہ نہیں بتاتے کہ اپنے دور میں متعلقہ افسر سے ان صاحب نے کتنے دو نمبر کام کروائے ‘ ٹرانسفر کروائے اور عام لوگوں سے ان افسران کے نام پر پیسے لئے-
خیبرپختونخواہ اسمبلی کے ایک سابق وزیر اطلاعات جو نہایت ہی شریف انسان تھے چونکہ اطلاعات کا محکمہ ان کے پاس تھا اس لئے اخبارات میں ان کی خوب آؤ بھگت ہوتی تھی چونکہ وہ دور اخبارات کا تھا اس لئے پشاور سے چھپنے والے ہر اخبار میں تین کالمی ‘ چار کالمی خبر فرنٹ اور بیک پیج پر انہی کی چھپتی تھی وجہ صرف یہی تھی وہ اطلاعات کے محکمے کے وزیر تھے اور اشتہارات بھی اخبارات کو انہی کا محکمہ جاری کرتا تھا اس لئے جس بھی اخبار میں جاتے ان کی خوب آؤ بھگت ہوتی تھی-چونکہ وزیر موصوف نے کچھ عرصہ ریڈیو پاکستان میں بھی گزارا تھا اس لئے ان کی خبریں ریڈیو پاکستان سے بھی نشر ہوتی تھی کیونکہ تعلق بھی تھا اور ساتھ میں وزیر بھی تھے اس لئے کام چلتا تھا- جس اخبار میں بھی جاتے اس کے مالک اور ایڈیٹر سمیت مارکیٹنگ والے بہت آگے پیچھے ہوتے کہ " صاحب آگئے ہیں " ان کیلئے ہر وقت ہر قسم کی پارٹیاں ہوتی تھی موصوف شریف آدمی تھے اس لئے مخصوص پارٹیوں میں جانے سے گریز کرتے لیکن اپنے دور حکومت میں ہونیوالی اپنی پذیرائی کو اپنا ذاتی تعلق سمجھ بیٹھے - اور پھر کچھ .....

ایسا ہوا کہ ان کی حکومت ختم ہوگئی اور وہ صاحب جو کبھی وزیر تھے اور ان کے آگے پیچھے ہر کوئی پھرا کرتا تھا اب ہاتھ میں پریس ریلیز لئے آتا لیکن اخبارا ت کے دفتر میں انہیں خوش آمدید کہنے والا کوئی نہیں ہوتا تھااور جولوگ دور وزارت میں انہیں خوش آمدید کہا کرتے تھے اب ان کی اطلاع ہوتے ہی کونے کھدروں میں چھپتے اور اگر غلطی سے کوئی جاننے والا صحافی اور ایڈیٹر مل بھی جاتا تو وہ ان کا رویہ بھی ویسا نہیں ہوتا تھا بس پریس ریلیز لگانے کی یقین دہانی کراتے اور پھر ان کی اخبار ات کے اندرونی صفحات میں سنگل خبر بھی بڑی مشکل سے لگ جاتی-ان صاحب کو کچھ عرصے بعد احساس ہوا کہ ذاتی تعلق الگ ہوتا ہے اور وزارت کے دور کا تعلق کچھ اور ہوتا ہے اس لئے بعد میں موصوف نے ذاتی تعلقات صحافیوں کیساتھ بنا لئے اور آج صورتحال یہ ہے کہ اس کی آؤبھگت وی آئی پی جیسی تو نہیں ہوتی لیکن پھر بھی یہی ذاتی تعلق ہی ہے کہ آج انہیں پریس ریلیز ہاتھ میں لیتے ہوئے بھاگنا نہیں پڑتا اور ان کے مخصوص دوست ہی ان کے کام آتے ہیں-

تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز ، دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا .... اس شعر کی تشریح یہاں پر ہو جاتی ہیں- ہمارے لوگ دوست ، لنگوٹیے ،اور راہ چلتے تعلق کو بھی ذاتی تعلق سمجھ بیٹھتے ہیں-کچھ لوگوں کو نقصان اٹھانے کے بعد عقل آتی ہیں اور کچھ لوگوں کی عمریں گزر جاتی ہیں لیکن وہ اس تعلق کو سمجھ نہیں پاتے- کسی زمانے میں سنا کرتے تھے کہ راہ چلتے تعلق اور دوست اور لنگوٹیے میں فرق ہے سمجھ نہیں آتی تھی کہ اس میں فرق کیا ہے لیکن زمانے کے دھکوں نے بتا دیا کہ کتنا بڑا فرق ہے لیکن ہمارے کچھ صحافی دوست ابھی تک اس چیز کو سمجھ ہی نہیں سکے ہیں-

ایک صحافی جن کا کسی زمانے میں بڑا نام تھا اور اخبار میں چھپ جانیوالی ان کی خبریں دیکھ کر عام لوگ بھی ان سے ڈرتے تھے بڑے بڑے افسران کیساتھ ان کی تصاویر چھپتی تھی اور وہ صاحب لوگوں کو یہ کہتے پھرتے کہ میرا تعلق ہے فلاں افسر کیساتھ میری دوستی ہے اس لئے اپنے دور میں ان صاحب نے بڑے غلط کام بھی ان افسران سے کئے اور کرائے اور پھر یوں ہوا کہ وہ صاحب میڈیا کے فیلڈ سے ہی نکل گئے اور پھر ہوا وہی جو وزیر کیساتھ ہوا یعنی جن افسران کا لوگوں کو کہہ کر ڈراتے تھے کہ یہ صاحب میرے دوست ہیں انہوں نے بھی ایسے ہی منہ موڑ لیا کہ جیسے جانتے ہی نہیں اور پھر وہ صاحب لوگوں کو دل کی بھڑاس یہ کہہ کر نکالتے کہ فلاں .,... )گندی گالی ( دیکر کو میں نے انکوائری سے بچایا اور خبراس کے حق میں دیکر سب کچھ تبدیل کروایا لیکن آج یہ کس طرح منہ چھپا رہا ہے- ان کی باتیں کچھ لوگ سمجھ جاتے لیکن بیشتر یہی کہتے کہ ہاں زیادتی کرتے ہیں لیکن وہ صاحب یہ نہیں بتاتے کہ اپنے دور میں متعلقہ افسر سے ان صاحب نے کتنے دو نمبر کام کروائے ‘ ٹرانسفر کروائے اور عام لوگوں سے ان افسران کے نام پر پیسے لئے-

شعبہ صحافت میں بیشتر صحافی ایسے ہی ہیں جب ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ آپ کے شعبے میں فلاں شخصیت ‘ تو جواب ملتا ہے کہ وہ صاحب میرے دوست ہے اس لئے ان کا خیال کیجئے اور ان کے حق میں خبر چھپوانی ہے تو ٹھیک اگر ان کی مخالفت میں خبر چھپوانی ہے تو ان صحافیوں کو مرچیں لگ جاتی ہیں کیونکہ انہیں ماہانہ خرچہ پانی ملتا ہے اور وہ اپنے اس خرچہ پانی کو متعلقہ افسران کی پی آر او شپ میں خرچ کرتے ہیں یعنی اگر ان کے متعلقہ افسران کے خلاف خبریں چھپتی ہیں تو یہ صاحبان جی حضوری کرکے ان کے حق میں خبریں لگواتے ہیں-ان میں چند ایسے صحافی بھی شامل ہیں جنہیں ماہانہ بھتہ ملتا ہے جبکہ بعض ایسے ہیں جنہوں نے سرکاری زمینیں لے رکھی ہیں بنیادی طور پر خوشامد اور مکھن بازی کی اہمیت سے باخبر یہی لوگ شعبہ صحافت سے صحیح طور پر فائدہ اٹھا رہے ہیں کیونکہ جس طرح کی روش ہمارے معاشرے میں چل پڑی ہیں یعنی جتنی خوشامد اتنا فائدہ ‘ اس لئے افسران بھی خوش ہیں اور اسی خوشی میں ان صحافیوں کاہر کام ہوتا ہے-
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 497923 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More