وہ سرکشی میں بہت آگے نکل چکے تھے۔لادینیت
تو ان میں تھی ہی لیکن ہر طرح کی معاشرتی برائیاں بھی ان میں سرایت کر چکی
تھیں۔خدا کے نمائندوں کا ان کے پاس آنا ان کے لیے محض مذاق تھا،وہ اپنی،انا
،ضد اور ہٹ دھرمی میں اس طرح پختہ ہو چکے تھے گویاکہ وہ خود زمین کے خدا
ہوں۔ ان کے نزدیک خدا کے نمائندے ان کے عام لوگوں سے بھی کم تر تھے۔چٹانوں
میں گھربنا کر وہ خود کو ناقابل تسخیر سمجھنے لگے تھے۔ان کا گمان تھا کہ یہ
جواُن کے مضبوط جسم اور عجیب وغریب طاقتیں ہیں یہ ان کی اپنی محنت کا نتیجہ
ہے۔وہ کہتے کہ اگر خدا کو ہمیں سیدھی راہ دکھانے کا اتنا ہی شوق تھا تو پھر
ہماری طرح مضبوط جسم کے مالک اور دولت یافتہ لوگ بھیجتاجو خود کو رسول کہتے
تو ہم مان بھی لیتے،یا کوئی سردار اور بادشاہ نبی بنا کر بھیجا جاتا کہ
لوگوں پر اس کا رعب توہوتا۔
یہ بیچارے تو دووقت کے کھانے سے مجبور ہیں۔بمشکل گزراوقات کر رہے ہیں۔بھلا
یہ ہمیں کیا دین سکھائیں گے۔حقیقت تو یہ ہے کہ ہم پہلے سے ہی سیدھی راہ پر
ہیں تبھی تو ہمیں دنیا کی ہر نعمت سے نوازا گیا ہے ،ہمارے پاس کسی چیز کی
کمی نہیں وہ سیدھی راہ سے اتنا دور جاچکے تھے کہ واپسی مشکل تھی۔جب انہوں
نے اپنی ضد اور انا کی انتہا کر دی تو پھر پیدا کرنے والے نے ان کو دکھایا
کہ تم ابھی بچے ہو،بہت چھوٹے ہو،لو پھر چکھو میرے مزیدار عذاب کا مزہ۔ذرا
میں بھی تو دیکھوں ، تمہاری ضد ،تمہاری انا،تمہارا مال ودولت اور یہ تمہاری
طاقتیں تمہیں کیسے بچاتی ہیں۔
قرآن نے اس کا نقشہ یوں کھینچا ہے:
﴿ وَلَوْ اَنَّ اَہْلَ الْقُرَی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا
عَلَیْہِمْ بَرَکَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ وَلٰـکِنْ کَذَّبُوْا
فَاَخَذْنَاہُم بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ﴾’’اور اگر ان بستیوں کے رہنے
والے ایمان لے آتے اور پرہیز گاری اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین
کی برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کی وجہ
سے ان کو پکڑ لیا۔‘‘(الاعراف:۹۶)
ہم انسانوں میں ویسے تو کئی خامیاں ہیں لیکن سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ بہت
جلد ناشکری پر اتر آتے ہیں ۔احسان کرنے والے کے احسان کو ناصرف بھلا دیتے
ہیں بلکہ اس کے احسان کے بدلے اس پر ظلم کرتے ہیں اورایسا کر کے ہم سمجھ
رہے ہوتے ہیں کہ ہم نے بڑی عقلمندی کا مظاہرہ کیا۔وہ لوگ بھی ایسا ہی سمجھ
رہے تھے لیکن کل کیا ہوگا،یہ ان کو پتا نہیں تھا۔
﴿اَفَاَمِنَ اَہْلُ الْقُرٰی اَنْ یَّأْتِیَہُمْ بَأْسُنَا بَیَاتاً وَّہُمْ
نَآئِمُوْنَ﴾(الاعراف:۹۷)
’’کیا پھر بھی ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے فکر ہو گئے ہیں کہ ان
پر ہمارا عذاب شب کے وقت آپڑے جس وقت وہ سوتے ہوں۔‘‘
بعض اوقات وہ ہوجاتا ہے جو ہمارے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا،کیوں کہ
ہماری آنکھیں صرف ظاہری روشنی کو ہی دیکھتی ہیں اس کے پیچھے چھپا اندھیرا
ہمیں نظر ہی نہیں آتا۔وہ بھی نڈر ہو چکے تھے ان کی اس دلیری نے ان کو سرکش
کر دیا تھا۔
﴿اَوَ اَمِنَ اَہْلُ الْقُرٰی اَنْ یَّاْ تِیَہُمْ بَاْسُنَا ضُحًی وَّہُمْ
یَلْعَبُوْنَ﴾(الاعراف:۹۸)
’’ اور کیا ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے فکر ہوگئے ہیں کہ ان پر
ہمارا عذاب دن چڑھے آپڑے جس وقت کہ وہ اپنے کھیلوں میں مشغول ہوں۔‘‘
وہ بھول چکے تھے کہ جس نے ان کو یہ سب کچھ دیا ہے وہ باآسانی چھین بھی سکتا
ہے ،اور ایسا کرنے سے زمین وآسمان کی کوئی بھی طاقت اسے روک نہیں سکتی کیوں
کہ……’’وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ‘‘
﴿اَفَاَمِنُوْا مَکْرَ اﷲِ فَلاَ یَأْمَنُ مَکْرَ اﷲِ إِلاَّ الْقَوْمُ
الْخَاسِرُوْنَ﴾ (الاعراف:۹۹)
’’کیا پس وہ اﷲ اس کی اس پکڑسے بے فکر ہوگئے۔سو اﷲ کی پکڑسے بجزان کے جن کی
شامت ہی آگئی ہو اور کوئی بے فکر نہیں ہوتا۔‘‘
بعض اوقات زیادہ چالاکی بھی انسان کو لے ڈوبتی ہے اور خدا کے ساتھ چالاکی……یہ
تو بیوقافانہ حرکت ہے لیکن انہوں نے یہ حرکت کرنے کی کوشش کی اور پھر خدا
نے ان کو دکھادیا ناصرف ان کو بلکہ قیامت تک کے انسانوں کو دکھا دیاکہ تم
جتنے مرضی طاقتور اور مضبوط ہو جاؤ،ایٹم بم بنا لواور ناقابل تسخیر بن جاؤ
لیکن پھر بھی تم بہت کمزور ہو کیونکہ پیدا کئے گئے ہو اور ہر وہ چیز جو
پیدا کی گئی ہے اس کی ایک مدت ہے،پھر وہ ایکسپائر ہو جائے گی۔
مندرجہ بالا باتیں ہم نے پہلے بھی سنی ہیں ۔مساجد میں علماء سے،یونیورسٹیوں
میں پروفیسروں سے،اسلامک سنٹرز میں اسکالرز سے ،کہ فلاں قوم نے سرکشی کی تو
ان کے ساتھ یہ معاملہ ہوا،فلاں کو زمین میں دھنسادیا گیا،فلاں پر زبردست
زلزلہ آیا،فلاں پر پتھروں کی بارش ہوئی……لیکن یہ باتیں ہم صرف سننے کی حد
تک ہی کیوں لیتے ہیں؟کیا وہ قومیں جن پر یہ عذاب آئے وہ طاقتور نہیں تھیں ،کیا
ان کے پاس مال ودولت ،عقل کی کمی تھی،کیا ان میں پڑھے لکھے نہیں تھے؟کیا وہ
انسان نہیں تھے؟ان کے پاس یہ سب کچھ تھا لیکن انہوں نے اس سب کچھ کے دینے
والے سے ٹکڑلی۔وہ طاقت کے نشے میں اس قدر ڈوب چکے تھے کہ ان کو اپنی اصلیت
بھول گی اور انجام کار ان کی تباہی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔یو توہمیں
کس بات کا مان ہے؟یہ جو ہم میں غرور ہے کس بات کا ہے؟کیا ایٹم بم کا ہے یا
اپنی جاگیر وجائداد کا،اپنے علم کا یا حسب نسب کا؟ ہم میں بمشکل ہی چند لوگ
نظر آتے ہیں جو ہمیں ہماری اصلیت کی طرف لے جانے کی کوشش کرتے ہیں،باقی
لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟کیا دل اتنے سخت ہو چکے ہیں کہ پانچ وقت پکارنے
والے منادی کی آواز ہمیں سنائی ہی نہیں دیتی،کیا ہم اتنے پڑھ لکھ گئے ہیں
کہ بے آسرا اور بے سہارا کی سسکیاں سن ہی نہیں پاتے؟کیا ہمارے پاس اتنا مال
ودولت آگیا ہے کہ بھوکے ہمسائے کا خیال ہی نہیں،کیا ہم اتنے نڈر ہوگئے ہیں
کہ خدا کا بھی ڈر نہیں؟کیا ہم اتنے صاف ستھرے ہوگئے ہیں کہ ہمیں باطن کی
صفائی کی ضرورت ہی نہیں؟وہ قومیں بھی ہم جیسی تھیں بلکہ ہم سے کئی گنازیادہ
طاقتور تھیں تو پھر کیا حال ہوا ان کا؟ان کی طرف بھی نبی آئیتھے۔پیغام ملا
تھا ان کو لیکن اپنی نفسی مصروفیات نے ان کو کچھ اور کرنے کا موقع ہی نہیں
دیا۔
ہمارے دل بھی پتھر ہو چکے ہیں ۔احساس زیاں جاتا رہا ہے۔مادہ پرستی اور دنیا
کی رنگینوں نے،ان چکا چوند روشنیوں نے ہمارے آنکھوں کو چند ھیا دیا ہے۔ہمیں
اپنے علاوہ کسی اور کی پرواہ ہی نہیں،کسی کا دکھ،غم،تکلیف اور بے چینی نظر
ہی نہیں آتے۔روحانی طورپر ہم بہت کمزور پڑچکے ہیں ،زلزلے آتے ہیں،بے موسمی
بارشیں ہوتی ہیں ،آفتیں آتی ہیں لیکن ہم ڈرتے ہی نہیں۔ہمارے دل متضاضی ہیں
روحانی سکون کے،دل کی زمینیں بنجر ہو چکی ہیں ۔کلر پڑگیا ہے ، اب ضرورت ہے
ایک اور زلزلے کی،لیکن یہ زلزلہ دل کی زمین پر آئے اور پتھروں کو اٹھا اٹھا
کر پھینکے ،کلّر زدہ زمین کو صاف کرے تا کہ نیچے سے نرم مٹی اور ٹھنڈا پانی
نکلے اور دوبارہ سے دل کی مردہ زمین سرسبز وشاداب ہوجائے ۔خدایا اب ایک
زلزلہ اور لیکن ہمارے پیروں کے نیچے والی زمین پر نہیں بلکہ ہمارے سینے کے
اندر جو دل ہے اس کی زمین پر،تاکہ ہم دوبارہ سے وہی بن جائیں جن سے اﷲ اور
اس کا رسولa راضی ہوں۔خدایا ہمیں اس دلدل سے نکال لے،کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم
سرکشی میں اتنا آگے نکل جائیں کہ واپسی مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو جائے
۔خدایا ایک زلزلہ اور……
اوربنا دے ہمیں ویسا ،جیسا آپ چاہتے ہیں……خدایا ایک زلزلہ اور…… |