مایوسی ایک بیماری ہے جو کسی بھی فرد کو
لاحق ہو سکتی ہے خواہ وہ پڑھا لکھا ہو یا نہ ہو،بوڑھا ہو یا جوان ہو بچہ ہو
یا پھر ابھی بھی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہا ہو۔مایوسی ایک ایسی بیماری
ہے جو اپنی جڑوں کو پھیلا کر فوراْ سے بڑھ جاتی ہے۔آپ اپنی ذات کا تجزیہ
کریں تو محسوس کریں گئے کہ چند لمحے بھی نہیں لگتے آپ کی سوچوں میں مایوسی
کو پھیلانے میں ۔کچھ لوگ مایوسی کو بچتے اور خریدتے بھی ہیں یہ بیچنے والوں
کو منافع دیتی اور خریدنے والوں کو ڈبو دیتی ہے۔اس کا معمولی سا اندازہ آپ
کوئی ایس فلم دیکھ کر دیکھیں جو اس موضوع کو اجاگر کرتی ہو کہ کچھ اچھا
نہیں ہو سکتا ۔مثلاْ ماضی کی فلم بازیگر اگرچہ انڈیا کی ایک مشہور فلم تھی
لیکن اس میں آخر تک کچھ اچھا نہیں ہوتا ۔مایوسی کے سوا آپ کے ذہین کو کچھ
نہیں ملتا ۔فلم بنانے اور بیچنے والوں کو تو خوب منافع ہوا لیکن آپ کو کیا
ملتا ہے سوائے اس کے کہ آ بیل مجھے مار ۔اس کی ایک اور مثال موت کا منظر
کتاب ہے۔لوگوں کو خوف اور مایوسی کو لکھ کر بہت وثوق سے بیچا گیا ۔کوئی شخص
جب اسے پڑھتا ہے تو جس رب کے رحیم ہونے کا دعوی مکمل قرآن کرتا ہے اس کتاب
کی چند سطریں پڑھ کر ہی دل و دماغ سے محو ہونے لگتا ہے دوزخ کی گہرائی اور
کیفیت کا بیان لکھاری یوں کرتا ہے کہ جیسے اس کے اندر بیٹھ کر کتاب کی
تدوین کررہا ہو۔ پڑھنے والا نہ صرف اثر لیتا ہے بلکہ بچوں کو خاص طور سے اس
کتابسے واقعات لے کر ڈراتا بھی ہے یعنی خود کے پاس جو مایوسی ہوتی ہے ہم
اسے اپنے تک محدود نہیں رکھ سکتے۔
میں نے جتنا اس سلسلے میں مطالعہ کیا ہےیا اپنی زندگی میں بہت سے لوگوں سے
متعلق جو مشاہدہ کیا ہے اس کا نتیجہ کچھ یوں ہے کہ مایوسی بھی دیگر
بیماریوں کی طرح ایک بیماری ہے جو کسی بھی ذریعہ کے تحت دماغ میں داخل ہو
جاتی ہے لیکن اس بیماری کے لگتےہی بُری بات یہ ہے کہ یہ دوسروں کو لگانے کے
لیے فرد میں بے چینی پیدا کر دیتی ہے۔ہمارے ارد گرد کے لوگ جب اس بیماری کا
شکار ہوتے ہیں تو لاشعوری طور پر اپنے پیاروں میں بھی اسے منتقل کر دیتے
ہیں۔ایسے قصے اور کہانیاں تشکیل دیتے ہیں کہ اگلا بندہ سچ میں سمجھنے لگتا
ہے کہ حضور بجا فرما رہے ہیں ۔جبکہ اکثر باتیں محض جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں
یا پھر ان کا سیاق و سباق محتلف ہوتا ہے۔
اس کی ایک عام سی مثال میں اپنی زندگی سے دینا چاہوں گی۔ جب میں میٹرک میں
تھی تومیری ایک دوست نے بتایا کہ میرے ابو کہتے ہیں پاکستان کے سارے
لیڈرکرپٹ ہیں ۔عوام کو جو آتا ہے لوٹتا ہے۔ہم لٹ رہے ہیں۔ترقی تو بس اِن
لیڈروں کے بچوں کے لیے ہے۔ ہم کیا اور ہمارے بچے کیا۔میرے ابو تو کہتے ہیں
کہ وہ کسی کو بھی ووٹ نہیں دیں گئے تمہارے ابو کس کو ووٹ دیں گئے الیکشن
میں ۔میں خاموشی سے اس کی باتیں سنتی ری اور پتہ نہیں بول کر پھر سے خاموش
ہو گئی۔اس کی باتیں اگرچہ مجھے اہم محسوس نہیں ہوئی لیکن پھر بھی کچھ نہ
کچھ دماغ نے اپنے اندر محفوظ کر لیا۔میں اس دن جب گھر گئ تو میں نے معمول
کے مطابق کپڑے تبدیل کیے ،کھانا کھایا لیکن کوئی بات کیے بغیر کتابیں لی
اور چھت پر چلی گئی ۔میری باجی نے آ کر جب پوچھا کیا ہوا؟ تو میں نے کہا
کچھ نہیں ۔باجی نے پھر پوچھا کیا ہوا تو میں نے اپنی دوست کی تمام باتیں
اُن کو بتا دیں۔
باجی مسکرائی اور بولی ہم نہیں لٹ رہے ہیں، محنت کرنے والے کو ضرور صلہ مل
کر رہتا ہے۔کوئی بھی قابل بندے کی قابلیت نہیں چھین سکتا۔میں پاکستان اور
پاکستان کے لیڈروں سے متعلق تو تمہیں کچھ نہیں بتا سکتی لیکن ایک بات ضرور
بتا سکتی ہوں کہ ہمارے نبیﷺجس معاشرے میں پیدا ہوئے وہاں پر بہت برائیاں
تھیں۔انسانوں کی خریدو فروخت ہوتی تھی ،ایسے معاشرے میں سے نبیﷺ نے
اپنےساتھی چنے اوروہ بھی اسی معاشرے میں سے ہی تھے۔ صحابہ کرامؓ آج بھی
معزز ہیں۔ ہیں نا؟انہوں نے معاشرے کو بدل کر رکھ دیا۔ہر جگہ اچھائی اور
بُرائی ساتھ ساتھ چلتی ہے لیکن یہ دیکھنے والے پر ہے کہ وہ کہاں اور کیا
دیکھے۔ اچھائی اچھائی کو اور بُرائی بُرائی کو کھینچتی ہے۔تم ہمیشہ اچھا
سوچا کرو ،تمہارے ساتھ بُرا نہیں ہو گا۔مجھے لگا جیسے کسی نے کوئی بھاری
پتھر میرے دماغ سے ہٹا کر دور پھینک دیا ہو۔یوں جو میں مایوسی کے جراثیم لے
کر گھر آئی تھی میری باجی نے ان کو پنپنے سے پہلے ہی مار دیا اور میرے
اندر پھر امید کا بیچ بو کر چلی گئی۔ ایسا ہی ہوتا ہے ہم اپنے ارد گرد بہت
سے لوگوں سے مایوسی کے جراثیم لیتے ہیں جن کو اگر مذید پنپنے کا موقع مل
جائے تو ہم بھی جراثیم پھیلانے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔
دوسرے دن میں نے اپنی دوست کو اپنی باجی کی باتیں سنائی تو اس نے پھر تردید
کر دی بولی تمہاری باجی کو کیا پتہ میرے ابو تو بینک میں افسر ہیں وہ غلط
کہہ ہی نہیں سکتے،لیکن مجھے اپنی باجی کی باتیں ہی ٹھیک لگی لہذا مجھ پر اس
کے انکار کا اثر نہیں ہوا لیکن جو غلطی اس نے کی ہم سب وہی غلطی کرتے ہیں
،ہم ایسے انسان کو قابل اعتبار سمجھتے ہیں جو ذیادہ ڈگریاں رکھتا ہو اگرچہ
علم سے خالی ہو۔ہمارے ماں باپ، ہمارے استاد اِن جراثیموں کو من چاہی بڑھوتی
دیتےہیں اور ہم سوچے سمجھے بغیر قبول کرتے اور آگے پھیلاتےہیں۔
موجودہ دور میں ہمارا سوشل میڈیا یہ کام بہت خوبصورتی سے سر انجام دے رہا
ہے۔ہمارے موجودہ ڈرامے ،ہماری خبریں یہاں تک کہ کامیڈی شو میں بھی بہت
ذیادہ مایوسی ٹپکتی ہے۔ جو بہتر ہیں میں ان کی بات نہیں کر رہی۔جیسا کہ
باجی نے کہا تھا بُرائی اور اچھائی ساتھ ساتھ چلتی ہے ،میں یہاں صرف ان
لوگوں کی بات کر رہی ہوں جو ہمیشہ ہی منفی باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ اچھائ
کا پہلو دیکھائی دے بھی تو وہ اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔میں یہاں معروف
کالم نگار حسن نثار کا نام لوں گی وہ ہمشہ ہی کہتے نظر آتے ہیں شرم کریں
،پانی میں ڈوب کر مر جایں۔ہم میں غیرت نہیں رہی وغیرہ وغیرہ جو کم عمر بچے
اس قسم کی باتیں سنتےہیں تو پوچھتےہیں ۔یہ بے غیرت کیا ہوتا ہے؟ ہم میں
غیرت نہیں ہے کیا؟ہم نے شرم بیچ دی ہے کیا ؟انکل کسی کی بات کر رہے ہیں ۔یہ
ہم کہہ رہے ہیں تو یہ اپنی بات کر رہے ہیں ؟عجیب عجیب سوال جن کے جواب دینا
مشکل ہیں۔
اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو مایوسی سے بچایں۔اُنہیں ہر چیز سے متعلق سوچ
سمجھ کر جواب دیں ۔آپ کی باتیں ان کی سوچوں کو اور تخیل کو ترتیب دیتی
ہیں۔ان کے لیے بہترین لفظوں کو چنیں جن سے ان کی آنے والی زندگی نے رُخ
لینا ہے۔آپ کی غلط اور بے تکی باتیں ان کے اذہان کا بوجھ ہی نہیں بنیں گی
بلکہ ان کے مستقبل کو متعین کریں گی کیونکہ اچھائی اچھائی کو کھینچتی ہے۔پر
امید لوگ دوسروں کو بھی امید دینے کا سبب بنتےہیں۔دنیا ایسے ہی لوگوں کی
بھلائی سے چل رہی ہے جو اچھی امید رکھتے اور اچھی امید دیتےہیں۔اس کی مثال
ڈاکٹر خالد جمیل ہیں ۔ ان کی باتیں امید دیتی ہیں ۔انہوں نے نہ صرف اپنی
ذات کو امید سے بہتر بنایا بلکہ دوسروں کو بھی ہمیشہ کہتے ہیں کہ سب کچھ
ممکن ہے اگر محنت اور امید سے منزل کی تلاش کی جائے۔لہذا مایوسی سے دور
رہیں۔شہد کی مکھی جہاں بھی رہے پھولوں کو ڈھونڈ ہی لیتی ہے ۔پر امید رہیں
آپ کے لیے رب راستے خود نکالے گا۔
اگرچہ ہمارے ملک میں کچھ کمیاں ہو سکتی ہیں سب میں ہوتیں ہیں۔ بہترین سے
آگے بھی ایک بہترین ہوتا ہے ، ترقی ،کامیابی کی تو حد ہے ہی نہیں ۔ہمیں
اپنی نئی نسل کو اپنے ملک کے روشن پہلو دیکھانے اور ان پر فخر کرنے کے لیے
کوشش کرنی چاہے نہ کہ ان میں مایوسی کے جراثیم بو دینے چاہیے۔ ہمارا ملک
اللہ کے فضل سے بہت سے ممالک میں بہتر ہے ،وسائل سے بھرپور ہے ،اگرچہ مسلے
بھی ہیں لیکن مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھنے والے باہمت لوگ موجود ہیں
۔ملالہ کو ہی لیجیے کیسی باہمت لڑکی ہے سولہ سالہ اس لڑکی کو پوری دنیا نے
نہ صرف سراہا Winner of the DOTA 2 Asian Championshipبلکہ سر انکھوں پر
بٹھایا اورحارث خان جس نے صرف گیارہ سال کی عمر میں سمارٹ فون بنایا۔شمائل
حسین سیدجس نے ڈوٹا 2 چیمپین شپ جیتی اور ان جیسے بے شمار بچے ہماری مٹی کے
زرخیز ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ جو بھی آپ سے مایوسی کی باتیں کریں یا آپ
خود کچھ ایسا بولنے لگیں تو سوچیں کہ آپ کیوں ایسی بیماری کے جراثیم کو
پھیلانے کا سبب بن رہیں ہیں یا شکار ہو رہے ہیں جس کو ختم کرنا آپ کے
اختیار میں ہے۔
اپنی زبان سے ہمیشہ اچھا اچھا ادا کیجئے۔ ہم جس مذہب کے پیروکار ہیں وہ
ہمیں سکھاتا ہے کہ مایوسی کفر ہے۔وہ رب جس نے انسان کو پیدا کیا ہے ستر
ماوں سے ذیادہ مہربان اور شفیق ہے۔آپ خوش رہیں اور خوشی پھیلائیں۔محنت
کریں اور نتائج کو رب کریم پر چھوڑ دیں۔اللہ ہم سب کو مایوسی سے دور
رکھے۔امین |