پلی بارگین کا قانون اور طبقاتی تفریق

کسی بھی کامیاب معاشرے کا انحصار تین طبقاتی افراد پر ہوتا ہے ۔اور یہ طبقات بتدریج امیر، غریب اور متوسط درجے کے افراد پر مشتمل ہوتے ہیں۔اور جس معاشرے کے متوسط طبقے کے افراد کی تعداد زیادہ ہو وہاں معاشرہ بہت تیزی سے ترقی کرتا ہے۔اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ درمیانے درجے کا طبقہ امیر اور غریب کے درمیان فرق کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔اور اگر کسی جگہ پر ایسا لگے کہ ایک طبقہ دوسرے کی حق تلفی کر رہا ہے ۔تو یہ اوسط درجے کے افراد مظلوم کے لیے آواز اٹھاتے ہیں۔جس کے نتیجے میں معاشرہ اپنا توازن برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔اب اگر اسی تناظر میں وطن عزیز کی بات کی جائے تو یہاں پرایک منظم سازش کے تحت صرف دو طبقات ہی پر اکتفا کیا گیا ہے۔جن میں ایک طبقے کے افراد غریب ترین جبکہ دوسرے طبقے کے افراد امیر ترین ہیں۔تیسرا طبقہ نا ہونے کے برابر ہے اور اگر تھوڑی تعداد میں لوگ ہیں بھی تو وہ معاشرتی توازن کو برقرار رکھنے کے لیے ناکافی ہیں۔ کیونکہ جو افراد ہیں بھی، وہ اپنا طرز زندگانی بہتر کرنے کی دوڑ میں کوہلو کے بیل کی طرح ایک خاص مدار میں چکر کاٹ رہے ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی بنیادی سماجی ذمہ داریوں سے بھی ناآشنا ہیں۔انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون سا طبقہ کس کے ساتھ زیادتی کر رہا ہے۔وہ اپنی دنیا میں مگن شاندار مستقبل کے رنگیں سپنے سجائے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔لیکن ہم بھول جاتے ہیں کے جب ہم کسی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں تو تو ہم پر بہت سی معاشرتی ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں ۔ جو کہ بطور پاکستانی قوم ہم نبھانے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ہمیں کچھ فرق نہیں پڑتا چاہے کوئی ہمارے ملک کو مال غنیمت کی طرح لوٹے ، دو نمبر طریقے سے مال بنائے، سفارش اور رشوت ہمارے ایمان کا حصہ بن چکی ہیں۔اور رہی سہی کسر ہمارے نام نہاد اداروں نے نکال دی ہے وہ ادارہ چاہے اینٹی کرپشن کا ہو،ٖایف بی آر یا پھر نیب سب ادارے طاقتور کے گھر کی لونڈی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں غریب غریب تر ہو تا جا رہا ہے اور امیر ،امیر ترین۔اور اگر میری بات افسانہ معلوم ہو تو کچھ عرصہ قبل بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کی میگا کرپشن سکینڈل میں گرفتاری اور پھر مال غنیمت کروڑوں روپے کی صورت میں برآمد ہونا اور پھر یہی نہیں بلکہ مزید تحقیقات کرنے پر مبینہ طور پر تقریباــ دوارب روپے کی کرپشن کا انکشاف ہونا یہ سب ہماری مجرمانہ خاموشی اور ہمارے حکمرانوں کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔نیب کے مطابق ملزمان نے اعتراف جرم کر لیا ہے۔ اور وہ دو ارب روپے قومی خزانے میں واپس جمع کرانے پر تیار ہو گئے ہیں۔بلوچستان میگا کرپشن کیس میں دو ارب پچیس کروڑ روپے کی رقم ریلیز ہوئی تھی جس میں سے دو ارب روپے سے زائد کرپشن کی نظر ہوگئے اور بلوچستان کی عوام پر ایک روپیہ بھی خرچ کرنا گناہ کبیرہ سمجھا ۔نیب بلوچستان کے اس کیس کی تحقیقات مکمل کرنے پر ملزمان اس وقت جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں۔اور وہ پر امید ہیں کہ بہت جلد وہ جیل سے باہر ہوں گے کیونکہ ان کی پلی بارگین یعنی نیب سے مک مکا کی درخواست منظور کر لی گئی ہے۔جس کے بعد یہ صاحب مبینہ طور پر اربوں روپے لوٹی ہوئی رقم کے بدلے صرف دو ارب روپے واپس لوٹا کر باعزت بری ہو جائیں گے۔ اور شائد عین ممکن ہو کہ دوبارہ سے عہدہ بھی مل جائے۔اگر ہم صرف اس قانون کی ہی بات کر لیں تو کبھی کبھی گمان ہوتا ہے جیسے یہ قانون کرپشن کی روک تھام کے لیئے نہیں ، کرپشن بڑھانے کے لیے بنایا گیا ہو۔اور اس قانون کی خاص بات یہ ہے کہ اس قانون سے چھوٹا چور فائدہ نہیں اٹھا سکتا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ہزار روپے کا دھنیا چور دوسال جیل میں کیسے گزار دیتا،جیب کترے کی سزاپھر جیل کیوں ہوتی۔اور بعض اوقات تو جیب کترے کی سزا روڈ پر ہی شروع ہو جاتی ہے۔ اور ماشائاﷲ ہماری قابل پولیس لاتوں گھونسوں اور گندی گالیوں سے اسکا استقبال کرتی ہے۔اور پھر چالان میں کچھ اضافی بوجھ لاد کر اس غریب جیب کترے کو عدالتوں کے آگے ڈال دیا جاتا ہے جہاں ناکافی دولت ہونے کی بناء پر وہ اس نظام سے پلی بارگین کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے۔ جس کے بعد اسے لمبے عرصے کے لیے جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے۔ ایسے میں وہ حالات کے ہاتھوں مجبور ، غربت کی چکی میں پسا ہوا انسان خود کو سدھارنے کی بجائے جیل سے بڑا ڈاکو بن کر نکلتا ہے۔ اور پھر وہ کبھی چھوٹو گینگ یا موٹو گینگ کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ کیونکہ ا ب و ہ جان چکا ہے کہ یہ گلا سڑا نظام دولت مند کے ساتھ پلی بارگین کر سکتا ہے۔ میں جانتا ہوں ادارے کے لوگ مجھ سے اتفاق نا کرتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ جناب پلی بارگین کا قانون موجود ہے اس لیے کرتے ہیں ۔ تو میرا بڑا سادہ سا سوال یہ ہے کہ جناب تو پھر ہزار روپے کے دھنیا چور کا کیا قصور،گلی کے غنڈوں کا رونا پھر کس بات کا ، قبضہ مافیااور باقی بد عنوان لوگوں سے مک مکا کیوں نہیں۔ میری رائے میں اگر ان سب سے اس قانون کے تحت دولت واپس لی جائے تو مجھے پوری امید ہے کہ ملک کا خزانہ تو بھرے یا نا بھرے آپکا کاروبار ضرور چمکے گا۔اور اس سے بڑھ کر یہ کہ میڈیا میں خوب داد بھی وصول ہوگی۔آج ہر طرف اس قانون کی وجہ سے ہمارے ملک و قوم کی جگ ہسائی ہو رہی ہے۔ اس سے پہلے اس قانون کے حوالے سے چیف جسٹس جناب انور ظہیر جمالی صاحب بھی ریمارکس دے چکے۔ ان کے مطابق یہ اختیار تو عدالت کو بھی حاصل نہیں جو نیب حکام استعمال کر رہے ہیں۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں حقیقی معنوں میں احتساب ہو تو پھر ہمیں اپنی تمام تر مصلحتوں سے بالا تر ہو کر صرف ملک و قوم کے بارے میں سوچنا ہوگا۔اور کرپشن کرنے والے ان بد عنوان عناصر کو عبرت کا نشان بنانا ہوگا۔اور یہ سب اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس سے امیر اور غریب کے درمیان بڑھتی ہو ئی حد فاصل کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔اور ہمارا معاشرہ ایک متوازن زندگی گزارنے میں کامیاب ہو گا۔اور ایک متوازن معاشرہ ہی ملک و قوم کی ترقی کا ضامن ہوتا ہے۔ اﷲ تعالی اس ملک و قوم کی حفاظت فرمائے۔آمین
Muhammad Zulfiqar
About the Author: Muhammad Zulfiqar Read More Articles by Muhammad Zulfiqar: 20 Articles with 15552 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.