کاش میرا جنم بھی دیار غیر میں ہوتا
(Dr B.A Khurram, Karachi)
تحریر ۔۔۔شیخ توصیف حسین
گزشتہ دنوں کئی سالوں کے بعد امریکہ سے واپس لوٹنے والے میرے ایک پاکستانی
دوست نے مجھے ایک ملاقات کے دوران بتایا کہ امریکہ میں آباد لا تعداد
پاکستانی افراد امن و امان کے ساتھ اپنی زندگی گزار رہے ہیں چونکہ وہاں پر
انھیں چوری ڈکیتی راہزنی لوٹ مار اغواء برائے تاوان اور قتل جیسی سنگین
وارداتوں کے علاوہ مذہبی فسادات کے دوران جلاؤ گھیراؤ کا کوئی خطرہ لاحق
نہیں اور نہ ہی اشیائے خوردنوش اور ادویات وغیرہ میں ملاوٹ کا خطرہ لا حق
ہے انھیں وہاں پر ہر قسم کی سہولیات کے ساتھ ساتھ مکمل طور پر آ زادی حاصل
ہے توصیف بھائی آپ جانتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے اگر آپ نہیں جانتے تو میں آپ
کو آ گاہ کرتا ہوں کہ اُس ملک کے حاکمین ملک و قوم پرست ہونے کے ساتھ ساتھ
قانون اور انسانیت کے پرستار ہیں اور یہی کیفیت اُس ملک کی عوام کی ہے جس
کا واضح ثبوت یہ ہے کہ امریکہ کا صدر او باما جب اپنے عہدے پر فائز تھا تو
اُس کے ساتھ سکواڈ کی صرف دو گاڑیاں ہوتی تھی راستے میں اگر ٹریفک کا اشارہ
آ جاتا تو قانون کے مطا بق صدر اوباما کے سکواڈ کی گاڑیاں عام شہریوں کی
گاڑیوں کی طرح اس ٹریفک کے اشارے پر رک جاتی تھی تعجب خیز بات تو یہ ہے کہ
جب امریکہ کے صدر اوباما اپنے صدارتی عہدے سے فارغ ہوئے تو وہ کرائے کے
فلیٹ میں رہائش پذیر ہو کر رہ گئے جبکہ اُن کی بیٹی ایک پرائیویٹ ادارے میں
ملازمت کرتی آ رہی ہے جبکہ یہی کیفیت باقی ماندہ غیر مسلم ممالکوں کی بھی
ہے آئرلینڈ کا وزیر اعظم اپنی پرائیویٹ سائیکل پر دفتر آتا ہے بر طانیہ کا
وزیر اعظم صرف تین کمروں کے فلیٹ میں رہائش پذیر ہے جاپان اور چین وغیرہ کی
بھی یہی کیفیت ہے بس یہی وجہ ہے کہ اِن غیر مسلم ممالکوں میں قانون اور
انسانیت کی بالا دستی قائم ہے جس کے نتیجہ میں یہ غیر مسلم ممالک دن بدن
ترقی کی راہ پر گامزن ہو کر رہ گئے ہیں جبکہ دوسری جانب ہمارا ملک پا کستان
ہے جس کے حاکمین اقتدار سے قبل عدل و انصاف اور قانون کی بالا دستی کے بڑے
بڑے دعوے کرتے ہیں لیکن اقتدار میں آ جانے کے بعد ظلم و ستم اور ناانصافیوں
کی تاریخ رقم کرنے کے بعد ملکی دولت لوٹ کر غیر ممالکوں میں راہ فرار
اختیار کر جاتے ہیں جس کے نتیجہ میں ہمارا یہ ملک بھکاری ملکوں کی صف میں آ
کھڑا ہوا ہے جبکہ یہاں کی عوام اپنے معصوم بچوں کو فروخت کرنے کیلئے سڑکوں
پر آ کھڑی ہوئی ہے تعجب خیز بات تو یہ ہے کہ جب یہ لا قانونیت کا ننگا رقص
کرنے والے حاکمین بیرون ممالکوں میں عیاش زندگی گزارنے کے بعد وطن واپس آتے
ہیں تو اس ملک کی نفسا نفسی اور بے حسی کی شکار عوام اِن لٹیرے حاکمین جو
ملک و قوم کے نام پر ایک بد نما داغ ہیں کا استقبال اس قدر کرتی ہیں کہ
جیسے یہ آ سمان سے اترے ہو بھائی توصیف افسوس صد افسوس کہ اس ملک کی نوے
پرسنٹ عوام دو کلو خربوزے خریدتے وقت خوب دیکھ بھال کرتی ہیں لیکن اپنے
لیڈر کے چناؤ کے دوران اندھی بن کر صرف اور صرف نعرے بازی تک محدود ہو کر
رہ جاتی ہے جس کے نتیجہ میں آج اس ملک کے ہر ادارے کا اہلکار لوٹ مار ظلم و
ستم اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم کرنے میں مصروف عمل ہیں جن کے اس گھناؤنے
اقدام کو دیکھ کر انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے اگر آپ حقیقت کے آ ئینے
میں دیکھے تو اس ملک کی تباہی کی ذمہ دار از خود عوام ہے جو چند کاغذ کے
ٹکڑوں کے حصول کی خا طر اشیائے خوردنوش اور ادویات وغیرہ میں ملاوٹ کر کے
انسانی جانوں سے کھیل کر انسانیت کی تذلیل کر رہی ہے توصیف بھائی اس سے بڑھ
کر افسوس ناک پہلو تو یہ ہے کہ اس ملک کا گریجویٹ طبقہ جہنوں نے ملک وقوم
کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا تھا وہ بھی لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصافیوں
کی تاریخ رقم کر نے میں مصروف عمل ہیں جس کے نتیجہ میں اس ملک کا سفید پوش
طبقہ عدل و انصاف سے محروم ہو کر بے بسی اور لا چارگی کی تصویر بن کر رہ
گیا ہے توصیف بھائی اس نفسا نفسی اور بے حسی کے شکار معاشرے میں عظیم سے
عظیم تر پیشے سے وابستہ ڈاکٹرز و لیڈی ڈاکٹرز جہنیں متعدد غریب افراد مسیحا
کہتے تھے آج ڈریکولا کا روپ دھار کر غریب اور بے بس مریضوں کا خون چوس رہے
ہیں سرکاری ہسپتالوں میں تو یہ غریب مریضوں کو ایسے دیکھتے ہیں جیسے ہندو
برہمن قوم اچھوتوں کو جس کے نتیجہ میں سرکاری ہسپتالوں میں غریب مریضوں کی
اموات میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مذکورہ
ڈاکٹرز اپنے پرائیویٹ کلینکوں پر امیر ترین مریضوں کے ساتھ ایسا رویہ
اپناتے ہیں جیسے طوائف اپنے مالدار عاشق کے ساتھ اگر آپ ان کے کلینکوں کے
کمروں کا کرایہ دیکھے تو وہ فائی سٹار ہوٹل کے کمروں سے کم نہیں ہوتا قصہ
مختصر کہ مذکورہ ڈاکٹرز کا رویہ سرکاری ہسپتالوں میں غریب مریضوں کے ساتھ
ہلاکو خان اور چنگیز خان جیسا ہوتا ہے اور اگر کوئی مظلوم شخص ان کے
ظالمانہ رویہ کے خلاف احتجاج کرے تو یہ نہ صرف اپنے مقدس پیشہ بلکہ انسانیت
کی تذلیل کرتے ہوئے ہرتال کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے متعدد غریب افراد کی
اموات کا سبب بن جاتے ہیں جس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ انھیں نہ تو قانون کا
ڈر ہے اور نہ ہی انسانیت کا توصیف بھائی یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا ہوا
یوں کہ گزشتہ دنوں ڈی سی او جھنگ غازی امان اﷲ جن کے متعلق شنید ہے کہ جو
نہ صرف نام کے غازی ہیں بلکہ کردار کے بھی غازی ہیں نے سول ڈیفنس کے دس
اہلکاروں کو ڈی ایچ کیو ہسپتال جھنگ میں بطور سیکورٹی گارڈ تعنیات کر دیا
گزشتہ روز محسن رضا نامی سیکورٹی گارڈ اپنے فرائض و منصبی صداقت امانت اور
شرافت کا پیکر بن کر ادا کرنے میں مصروف عمل تھا کہ اسی دوران ایک ینگ
ڈاکٹر نے بغیر اجازت گیٹ کراس کرنے کی کوشش کی جسے مذکورہ سیکورٹی گارڈ نے
گیٹ پر روک لیا جس پر ینگ ڈاکٹر نے اسے اپنی بے عزتی سمجھتے ہوئے اس واقعہ
کی اطلاع اپنے ساتھی ڈاکٹر آ صف رضا خان کو دی جس نے بغیر سوچے سمجھے
مذکورہ سیکورٹی گارڈ کو تھپڑ مارنے کے ساتھ ساتھ غلیظ گالیوں کی بارش شروع
کر دی جس کی بناء پر مذکورہ سیکورٹی گارڈ بلکہ اس کے چند ایک ساتھیوں نے اس
بلاوجہ کی بے عزتی کا بدلہ لینے کیلئے مذکورہ ڈاکٹر کو چند ایک تھپڑ مار
دیئے جس کے نتیجہ میں ڈی ایچ کیو ہسپتال جھنگ کے متعدد ڈاکٹروں نے ملکر نہ
صرف مذکورہ سیکورٹی گارڈ وغیرہ پر مقدمہ درج کروا کر بند سلاسل کروانے کے
باوجود ہڑتال کے سلسلے کو محض اس لیئے جاری رکھا کہ محکمہ پولیس نے مذکورہ
سیکورٹی گارڈ پر دہشت گردی کا مقدمہ درج نہیں کیا شنید ہے کہ بعد ازاں
محکمہ پولیس جھنگ نے قانون اور انصاف کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے مذکورہ گارڈپر
مذید کوئی دہشت گردی کی دفعہ لگا دی ہے توصیف بھائی اگر حقیقت کے آ ئینے
میں دیکھا جائے تو یہ ہمارے ارباب و بااختیار کی نااہلی اور بزدلی کا ثبوت
ہے جو لا قانونیت کا ننگا رقص کرنے والے ڈاکٹرز کی حمایت جبکہ فرض شناسی کا
مظاہرہ کرنے والے سیکورٹی گارڈز کو سزا دینے میں مصروف عمل ہیں اُس دوست کی
ان باتوں کو سننے کے بعد میں سوچوں کے سمندر میں ڈوب کر یہ سوچنے لگ گیا کہ
کاش میں بھی کسی غیر مسلم ملک میں پیدا ہوتا تو آج یوں ظلم و ستم لوٹ مار
اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم کرنے والوں کو کبھی بھی دیکھ نہ پاتا جو آج
یہاں دیکھ رہا ہوں
بالآ خر کٹ ہی جائے گی یہ ظلم و ناانصافیوں کی زنجیریں
میں تو بے رحم وقت کی تقدیر بدلنے کیلئے چلا ہوں |
|