حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہٗ کی
سیرت و زندگی سراپا تقویٰ تھی،آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اور ایک ایک
گوشہ کتاب و سنت کی پیروی میں گزرا ،آپ کی زندگی کے تمام گوشے اور شعبے
اتباع شریعت اور اطاعت رسول ﷺ سے معمور تھے۔۔۔۔
اﷲ عز و جل فرماتا ہے پارہ ۳ سورہ آل عمران آیت ۷۳ قُلْ اِنَّ الْفَضْلَ
بِیَدِ اللّٰہِ یُؤْ تِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ (ترجمہ کنز الایمان )تم فرما دو
کہ فضیلت اﷲ کے ہاتھ ہے جسے چاہے عطا فرماتا ہے ۔
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ فضل تو اﷲ کے ہاتھ ہے جسے چاہے عطا فرمائے ،نبوت
و ولایت اعمال پر موقوف نہیں ،کبھی عمل سے اور کبھی بغیر عمل سے عطاءِ رب
سے ملتی ہے ،حضرت مریم بچپن شریف مین ہی ولی تھیں حالانکہ اس وقت کو ئی عمل
نہ کیا تھا اس سے معلوم ہوا جسے اﷲ خاص کر دے اسے کو ئی عام نہیں کر سکتا
حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہٗ کی حیات مبارکہ اہل
طریقت کیلئے مشعلِ راہ رہی ہے ،آپ ولایت و معرفت کے مینارۂ نور کی حیثیت سے
کائنات ارضی پر جلوہ گر ہوئے اور اسلام کی روحانی زندگی کو مشارق و مغارب
کی پہنائیوں میں نافذ کرتے رہے دنیائے اسلام کی روحانی بارگاہیں آپ ہی کی
نگاہِ کرم سے منور روشن ہوئیں ، اور ولایت کے تمام سلاسل آپ سے فیض یاب ہو
رہے ہیں ۔
حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ (متوفٰی ۱۰۵۲ھ) غوث اعظم رضی
اﷲ عنہ کی سیرت کی ایک جھلک پیش کرتے ہوئے رقمطراز ہیں ’’بعض مشائخ وقت نے
آپ کے اوصاف میں لکھا ہے کہ حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی اﷲ تعالیٰ
عنہٗ بڑے با رونق ،ہنس مکھ ،خندہ رو،شرمیلے،نرم طبیعت ،کریم الاخلاق ،پاکیزہ
اخلاق ، پاکیزہ اوصاف اور مہربان و شفیق تھے ،ہمنشیں کی تعظیم و تکریم کرتے
اور غمزدہ افراد کو دیکھ کر امداد فرماتے تھے،مزید لکھتے ہیں ، ہم نے آپ
جیسا فصیح و بلیغ کسی کو نہیں دیکھا ،بعض بزرگوں نے آپ کا اس طرح وصف بیان
فرمایا ہے کہ حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہٗ بکثرت
رونے والے ،اﷲ تعالیٰ سے بہت زیادہ ڈرنے والے تھے ۔
خوف ِخدا ایمان کا لازمی تقاضہ :۔ قرآن میں فرمانِ الٰہی ہے ، پارہ ۲۹
سورہ ملک آیت ۱۱ اِنَّ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَیْبِ لَھُمْ
مَغْفِرَۃٌ وَّ اَجْرٌ کَرِیْمٌ (ترجمہ کنز الایمان )بے شک وہ بے دیکھے
اپنے رب سے ڈرتے ہیں ان کیلئے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔(تفسیر روح البیان )میں
ہے حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے سینے سے بھنی ہوئی کلیجی کی طرح خوشبو
آتی تھی ، حضور ﷺ تہجد میں اتنا روتے کہ سینہ مبارک سے ہانڈی کھولنے کی طر
ح آواز آتی تھی ۔
خوف خدا ایمان کی علامت ہے:۔یہ وصف آپ کے اندر بہت زیادہ تھی ،نیک اخلاق ،پاکیزہ
اوصاف ، بد گوئی سے بہت دور بھاگنے والے اور حق کے سب سے زیادہ قریب تھے ،کسی
سائل کو واپس نہ فرماتے،آپ کی ہر دعا بہت جلد قبول ہو جاتی تھی ،اﷲ تعالیٰ
کی توفیق آپ کی راہنما اور تائید الٰہی آپ کی معاون تھی ،سچائی آپ کا وظیفہ
تھا ،آپ انتہائی عبادت گزار تھے ،اﷲ رب العزت قرآن مقدس میں اپنے محبوب
بندوں سے محبت بھرے انداز میں ارشاد فرماتا ہے ،پارہ ۲ سورہ بقرہ آیت
میری یاد کرو میں تمہارا چرچا کروں گا اور میرا شکر کرو اور میری نا شکری
نہ کرو ۔
سچ اور حق تو یہ ہے کہ بندہ اپنے معبود حقیقی کی یاد میں ہمہ تن مصروف رہے
اور بندے کا خدا کو یاد کرنا ہی اصل زندگی ہے ،جہاں تک تعلق ہے خدا کی یاد
کا اور اس کے ذکر کا تو کائنات کی ہر مخلوق اپنے اپنے طور پر ذکر و تسبیح
میں مشغول ہے اور بندے (انسان ) کو بھی اس کی عبادت کرتے رہنے کا حکم ہے یہ
بات بقیہ تمام مخلوق کو یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ خدا کو یاد کرو لیکن
بندہ انسان ہے غفلت میں پڑ جاتا ہے اپنے رب کو بھول جاتا ہے ،تو اس کی غفلت
کو دور کرنے کیلئے کلام مجید میں باری تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اپنے ذ کر
کی طرف متوجہ کیا ،جب ہی تو یاد الٰہی میں زندگی گزارنے والے خدا کے مقبول
بندے ہو گئے یہ سب بندے اﷲ کی یاد میں اس قدر مصروف رہے کی دنیا کے ہر کونے
میں اب ان کو جانا پہچانا جاتا ہے حدیث میں وارد ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے بنی
اسرائیل کے ایک نبی علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی ،میرے ایسے بعض بندے ہیں
کہ وہ مجھے دوست رکھتے ہیں ،اور میں ان کو دوست رکھتا ہوں ،وہ میری طرف
دیکھتے ہیں ،میں ان کی طرف دیکھتا ہوں اس نبی علیہ السلام نے کہا کہ خداوند
ان کی علامت (پہچان) کیا ہے ؟ کہا آفتاب کے غروب کو وہ ایسا دوست رکھتے ہیں
جیسے پرندے اپنے گھونسلوں کو جب رات پڑ جاتی ہے اور اندھیرا چھا جاتا ہے ،فرش
بچھائے جاتے ہیں اور ان کو بند لگائے جاتے ہیں ،دوست اپنے دوست کے ساتھ
خلوت کرتا ہے ،تو وہ مردانِ خدا اپنے قدموں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اﷲ کی
عبادت کیلئے اور اپنے چہروں کو فرش بناتے ہیں یعنی سجدے کرتے ہیں ،مجھ سے
راز و نیاز کی باتیں کرتے ہیں بعض چلاتے روتے ہیں بعض آہیں ما رتے ہیں اور
شکوہ کرتے ہیں اور بعض کھڑے ہوتے ہیں میری عبادت کرتے ہیں (بہجۃ الاسرار
جلد اول صفحہ۸ ۵۔۵۷)
بہت مشہور روایت ہے کہ آپ نے چالیس سال تک عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا
فرمائی اور پوری پوری رات آپ کھڑے ہو کر نماز میں قرآن کی تلا وت فرماتے ۔
حضور ﷺ روایت کرتے ہیں کہ اﷲ نے فرمایا کہ جو کو ئی میری طرف ایک قدم
بڑھاتا ہے میں دس قدم اس کی طرف بڑھتا ہوں ،وہ مجھے ایک بار یاد کرے میں
اسے دس بار یاد کرتا ہوں اور جب کوئی یاد کرکے کثرتِ ذکر سے میرے نزدیک آ
جاتا ہے ،تو میں اس بندے کے حواس خمسہ بن جا تا ہوں ،اب اس کا کرنا میرا
کرنا اور اس کی ہر بات پوری کرتا ہوں ۔
چنانچہ غوث الاعظم رضی اﷲ عنہ کا رتبۂ محبوبیت یہ ہے کہ بغیر ارادہ بھی
زبان سے کچھ نکل جائے تو رب کریم اس کو پورا کر دے ، تمام اولیائے کرام اس
بات پر متفق ہیں کہ غوث الاعظم مرتبۂ ولایت میں سب کے سردار ہیں اور رتبۂ
محبوبیت پر فائز ہیں ،آپ نے پوری زندگی خدا کی یاد میں گزاری اور خدا کے
محبوب رسول اکرم ﷺ کا ذکر اتنا بلند کیا کہ خدا نے آپ کے ذکر کو بھی بلندی
عطا کردی،اور اپنا محبوب قرار دیا اور جب خدا کے لاڈلے ہو گئے تو فرماتے
ہیں کہ خدا مجھے کھلا ئے گا تو کھا ؤں گا خدا مجھے پلائے گا تو پیوں گا (اخبار
الاخیار صفحہ ۱۸)کیا خوب اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں علیہ الرحمۃ نے
فرمایا
قسمیں دے دے کے کھلاتا ہے پلاتا ہے تجھے
پیارا اﷲ تیر ا چاہنے والا تیرا
شیخ الحرمین امام عبد اﷲ یافعی رحمۃ اﷲ علیہ آپ کی سیرت کو ان الفاظ میں
بیان کرتے ہیں، آپ کے کمالات ظاہری و باطنی کا احاطہ کرنے میں بڑے بڑے
عارفین بھی قاصر ہیں اور کو ئی اسلوب تحریر ان کمالات باطنی کا احاطہ کرنے
میں مکمل بیان پر حاوی نہیں ہو سکتا ۔
حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہٗ نے احیائے دین کے
سلسلے میں وہ بطل جلی اور رہبر اعظم ہیں کہ جن کے دست بابرکت نے دینِ اسلام
کو ایک مثالی شکل میں مریض پاکر حیاتِ نو (نئی زندگی)بخشی اور چہار دانگِ
عالم میں ’’محی الدین ‘‘کے عظیم لقب سے مشہورو معروف ہوئے ،سیدنا غوث
الاعظم ہفتے میں تین بار مجلس ووعظ فرماتے،آپ کا وعط کیا ہوتا تھا علم و
معرفت کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہوتا تھا ،تذکرہ نگار لکھتے ہیں آپ کی
کوئی مجلس ایسی نہ ہوتی تھی جس میں غیر مسلم اسلام قبول نہ کرتے ہوں اور
گناہ گار توبہ سے مشرف نہ ہوتے ہوں بغداد کی آبادی کا ایک بڑا حصہ آپ کے
دست مبارک پر توبہ سے مشرف ہوا اور بکثرت غیر مسلم دائرۂ اسلام میں داخل
ہوئے ۔
حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہٗ وعط و تقریر بڑی صاف
گوئی اور جرأت و بہادری کے ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا عظیم
فریضہ انجام دیتے تھے ،چنانچہ حافظ ابن کثیر رحمۃ اﷲ علیہ رقمطراز ہیں
’’حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہٗ خلفاء ،وزراء،
سلاطین اور عوام و خواص سب کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر فرماتے اور بڑی
صاف گوئی اور جرأت کے ساتھ ان کو بھرے مجمع میں اور بر سرِممبر علی الاعلان
ٹوک دیتے تھے ،اور اﷲ تعالیٰ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی آپ کو
پرواہ نہ ہوتی تھی انتہائی بے باک ،حق گو تھے ،(بحوالہ تاریخ و دعوت عزیمت
جلد اول ،صفحہ ۲۱۶)
یا شیخ عبد القادر جیلانی کا وظیفہ:۔ حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمۃ اﷲ
علیہ اپنی کتاب ’’الانتباہ ‘‘میں حل مشکلات کیلئے تلقین فرماتے اور لکھتے
ہیں ، پہلے دو رکعت نماز پڑھے ،اس کے بعد ۔۱۱۱؍بار درود شریف ،۱۱۱؍بار کلمۂ
تمجید ،بعدہٗ ۱۱۱؍بار یاشیخ عبد القادر جیلانی شیئاً لِّلّٰہ پڑھے دعا
مانگے قبول ہو گی مجرب ہے، یاشیخ عبد القادر جیلانی شیئاً لِّلّٰہ کا وظیفہ
حصول مقصد اور دشمنوں پر ظفریابی کیلئے بہت مجرب و کامیاب وظیفہ ہے ،علماء
و صوفیاء نے لکھا ہے ،مقصد برآری کیلئے رات میں سوتے وقت (۱۰۰۰) ایک ہزار
مرتبہ پڑھ کر داہنے ہاتھ پر دم کرکے زیر کلہ (گال) داہنے کروٹ سو جائے ہر
حاجت و مراد پوری ہوگی،یا خواب میں اس کے حل کی تدبیر بتا دی جائے گی ،حضور
غوث اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے اس نام کی برکت ہر دور میں محسوس کی گئی ہے
۔حضرت شاہ اورنگ زیب عالمگیر علیہ الرحمۃ و الرضوان بھی اپنی تلوار پر کندہ
کرایا تھا۔ جس سے ہزاروں کافروں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا ،آج بھی دہلی کے
لال قلعہ میں آپ کی وہ تلوار محفوظ ہے جس میں جلی حروف میں لکھا ہے یا
سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی شیئاً لِّلّٰہ ،یا ہمارے سردار شیخ عبد القادر
جیلانی آپ اﷲ تعالیٰ کی رضا کیلئے ہمیں کچھ عطا کیجئے اور مدد کیجئے (بحوالہ
رسالہ انوار الانتباہ فی حل ندائے یا رسول اﷲ ،(۲) فتاویٰ رضویہ جلد ۱۲،صفحہ
۱۰۱، (۳) مقام غوث اعظم صفحہ ۴۷،مؤلف مفتی عابد حسین مصباحی نوری قادری)
پانچویں صدی ہجری تک عالم اسلام میں سیای و فکری ضعیف اور اضمحلال اپنے
عروج کو پہنچ چکا تھا ،چوتھی صدی ہجری کے آخر اور پانچویں صدی ہجری کے نصف
میں حجۃ الاسلام امام غزالی رحمۃ اﷲ علیہ اور شیخ عبد القادر جیلانی تاریخ
اسلام کے دو نہایت جلیل القدر عظیم المرتبت اور بلند پایہ مصلحین امت کے
طور پر ابھرے ،امام غزالی کی فکری تحریک سے اگر چہ تشکیک و الحاد کے فتنے
کا سد باب ہو گیا تھا لیکن جمہور امت میں بے یقینی اور بے عمل کے روگ کا
مداوا ابھی باقی تھا اور یہ عظیم کام محبوب سبحانی غوث الاعظم شیخ عبد
القاد ر جیلانی رضی اﷲ عنہ نے بخوبی سر انجام دیا ۔
جنہوں نے اپنے علم و حکمت ،روحانیت اور اور وعظ و خطابت سے اصلاحی کام کو
پورا کیا اور مؤثر بنایا ،اس سلسلۂ تبلیغ کے اثرات عظیم اصلاحی تحریکوں سے
بھی بڑھ کر ثابت ہوئے ،سیدنا شیخ عبد القاد ر جیلانی رضی اﷲ عنہ کے وعظ و
نصیحت کی ہر مجلس میں مشرف بہ اسلام ہونے والوں کا تانتا بندھ جاتا ،آپ کا
سلسلۂ وعظ و تبلیغ تقریباً چالیس برس تک جاری و ساری رہا آپ نے ساڑھے چھ
ہزار سے زیادہ مواعظ و خطابت فرمائیں ،اس طرح لاکھوں نفوس آپ سے براہِ راست
فیض یاب ہوئے۔
سیدنا شیخ عبد القاد ر جیلانی رضی اﷲ عنہ نے ایک طویل مدت تک تشنگانِ علم و
معرفت کو آپ نے کمالات ظاہری و باطنی سے مستفید کر کے عالم اسلام میں
روحانیت ،تقربِ الٰہی ،علم و حکمت اور رجوع الی اﷲ کا عالمگیر ذوق پیدا
کرکے مشہور قول کے مطابق ۱۱؍ربیع الثانی ۵۶۱ ھ ۔ ۱۱۶۶ء کو تقریباً ۹۰ ؍
سال کی عمر شریف میں اس عالم فانی سے عالم جاودانی کی طرف سفر فرمایا،۔آپ
کا مزار انور بغداد شریف مین مرجع خلائق ہے،جہاں لاکھوں فرزندانِ اسلام
حاضری کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور علمی و روحانی فیوض و برکات سے فیض یاب
ہو تے ہیں ،اﷲ ہم تمام عقیدتمندوں پر ان کا فیضان کرم جاری فرمائے آمین ثم
آمین ۔
جنہوں نے اپنے علم و حکمت ،روحانیت اور اور وعظ و خطابت سے اصلاحی کام کو
پورا کیا اور مؤثر بنایا ،اس سلسلۂ تبلیغ کے اثرات عظیم اصلاحی تحریکوں سے
بھی بڑھ کر ثابت ہوئے ،سیدنا شیخ عبد القاد ر جیلانی رضی اﷲ عنہ کے وعظ و
نصیحت کی ہر مجلس میں مشرف بہ اسلام ہونے والوں کا تانتا بندھ جاتا ،آپ کا
سلسلۂ وعظ و تبلیغ تقریباً چالیس برس تک جاری و ساری رہا آپ نے ساڑھے چھ
ہزار سے زیادہ مواعظ و خطابت فرمائیں ،اس طرح لاکھوں نفوس آپ سے براہِ راست
فیض یاب ہوئے۔
سیدنا شیخ عبد القاد ر جیلانی رضی اﷲ عنہ نے ایک طویل مدت تک تشنگانِ علم و
معرفت کو آپ نے کمالات ظاہری و باطنی سے مستفید کر کے عالم اسلام میں
روحانیت ،تقربِ الٰہی ،علم و حکمت اور رجوع الی اﷲ کا عالمگیر ذوق پیدا
کرکے مشہور قول کے مطابق ۱۱؍ربیع الثانی ۵۶۱ ھ ۔ ۱۱۶۶ء کو تقریباً ۹۰ ؍
سال کی عمر شریف میں اس عالم فانی سے عالم جاودانی کی طرف سفر فرمایا،۔آپ
کا مزار انور بغداد شریف مین مرجع خلائق ہے،جہاں لاکھوں فرزندانِ اسلام
حاضری کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور علمی و روحانی فیوض و برکات سے فیض یاب
ہو تے ہیں ،اﷲ ہم تمام عقیدتمندوں پر ان کا فیضان کرم جاری فرمائے آمین ثم
آمین ۔ |