اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رشدوہدایت کے لیے کم وبیش ایک
لاکھ چوبیس ہزار انبیاومرسلین بھیجے جنھوںنے انسانوںکو صراط مستقیم کی
رہنمائی فرمائی اور دین ودنیامیں کامیاب ہونے کا بہترین نسخہ بتایا۔لیکن جب
رحمت عالم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے نبوت
ورسالت کا دروازہ بند کردیامگررشدوہدایت کا دروازہ بندنہیںہوا۔ہاں! اتنا
ضرورہواکہ رشدوہدایت کایہ فریضہ انبیاورسل علیہم الصلاۃ والسلام کے بعد
اولیا اورصلحاانجام دینے لگے۔اب اولیااورعارفین باللہ قیامت تک آتے رہیںگے
اور انسانوںکو صراط مستقیم کی رہنمائی کرتے رہیںگے۔
اسی سلسلے کی ایک کڑی محبوب سبحانی شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہٗ ہیں۔آپ
نے اپنی تصنیفات و تعلیمات سے بے شمار انسانوںکی ہدایت ورہنمائی فرمائی اور
امراوعلماکی اصلاح کرکے ان کے دلوں میں عشق الٰہی اور ایمانی جذبہ
بیدارکیا۔ ہم یہاں پر شیخ کی تعلیمات کے منتخب گوشوںپر گفتگو کریں گے جوہر
اعتبار سے دین ودنیا میں صلاح وفلاح کی علامت ہے۔
یہاں قابل پہلو یہ ہےہے کہ شیخ عبدالقادرجیلانی قدس سرہٗ اور ان جیسی
شخصیات کی تعلیمات کا اثرعوام الناس پر کیوں زیادہ ہوتا ہے اور دنیاان کے
آگے کیوں جھکتی نظر آتی ہے تو اس کے متعدداسباب ہیں:
اول:یہ ہستیاںپہلے خود اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی صحبت اختیارکرتی ہیں،
ان کی تعلیمات پر عمل کرتی ہیں اور پھر دوسروں کو اس پر عمل کرنے کی دعوت
وترغیب دیتی ہیں۔جیسے ایک استاذپہلے خود تعلیم حاصل کرتاہے،اس کی پریکٹس
کرتاہے اورپھر وہ بچوں کو پڑھاتا ہے تو اس کا بہترنتیجہ سامنے آتاہے۔
دوم:یہ پاکیزہ ہستیاں اعمال صالحہ اور مجاہدانہ عمل سے اللہ تعالیٰ کاقرب
اس قدرحاصل کرلیتے ہیں کہ بظاہرہر عمل اور ہرکام ان کا ہوتاہے لیکن اس میں
اثرکی طاقت وقوت اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔
سوم:ان نیک ہستیوںکی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی، بلکہ ان کا جوبھی عمل
ہوتاہے وہ اللہ کی مرضی کے مطابق ہوتاہے ۔ بالفاظ دیگر یہ نیک ہستیاں خود
کو اپنے رب کے سپرد کردیتی ہیں اورجو بندہ اللہ کا ہوجاتاہے اللہ اس بندے
کا ہوجاتاہے، اس لیے ان کی تعلیمات میں انقلابی اثر ہوتاہے۔
مزیدشیخ عبدالقادرجیلانی قدس سرہٗ کو اللہ رب العزت کی ایسی عنایتیں حاصل
تھیںکہ ان کی تعلیمات کااثرہونالازمی تھا،اورایسا ہوا بھی کہ آپ نے جوکچھ
تعلیمات دیں وہ فطری طورپر انسانی دلوں پر اثرانداز ہوئیں،بلکہ آج
سالہاسال گذر جانے کے باوجود اگر کوئی آپ کی تعلیمات کے مجموعے،،الفتح
الربانی’’ اور’’فتوح الغیب‘کا مطالعہ کرے تواسے وہی ایمانی و اصلاحی
اورپاکیزہ اثرمحسوس ہوگاجوچھٹی صدی ہجری میں محسوس ہوتا تھا اور جسے سن کر
لوگ مست وبے خودہوجاتے تھے، دل نور عرفان سے روشن ہوجاتاتھا،ایک روحانی
کیفیت اور ایمانی لطف و لذت کا احساس ہوتاتھا اوراللہ تعالیٰ کے خوف وجلال
سے ان کا بدن لرزاٹھتاتھا۔مثلاً:
محبت خالص اللہ کے لیے ہو
محبت وتعلق وہی مزیدارہے جس میں خلوص وایثارکے ساتھ دوام وپائداری بھی
ہو،اگر محبت عارضی ہے تو سمجھ لو لاحاصل ہے۔شیخ جیلانی قدس سرہٗ خالص
اورپائدارمحبت کی تلقین کرتے ہوئے فرماتےہیں:’’ تو اکثر کہتاہے کہ میں جس
چیزسے محبت کرتا ہوں وہ عارضی ثابت ہوتی ہے،کیوںکہ جلد ہی درمیان میں جدائی
اور موت یا دشمنی کی دیوار حائل ہوجاتی ہے،اگر مال سے محبت ہے تو وہ بھی
جلدی ختم ہوجاتاہے یا گم ہوجاتاہے۔اے اللہ کے بندو!کیا تجھے پتا نہیں کہ
اللہ تعالیٰ نے تجھے اپنے لیے پیدافرمایاہے اورتو غیرکی طرف بھاگاجارہا
ہے،کیاتونے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیںسنا: یُحِبُّہُمْ
وَیُحِبُّوْنَہٗ(مائدہ:۵۴)
ترجمہ:اللہ اُن کو اوروہ اللہ کو دوست رکھتے ہیں۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا
لِیَعْبُدُونِ(ذاریات:۵۶)
ترجمہ:میںنے جنات وانسان اس لیے پیدا کیے کہ وہ میری عبادت کریں۔ ‘‘ (فتوح
الغیب،بتیسواںمقالہ)
محبت وعداوت کامعیار
کس بنیادپر ایک بندے سے محبت کی جائےاور کس بنیاد پر دشمنی ، کیوںکہ یہ بھی
دنیاو آخرت کی کامیابی کا ایک اہم حصہ ہے،اگر محبت وعداوت رکھنے میں توازن
(Balance)نہیں تو ممکن ہے کہ اعمال صالحہ کے باجود بندہ فلاح کی خوشبوسے
محروم رہ جائے۔شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہٗ اس پہلو کی نشاندہی کرتے
ہوئےفرماتے ہیں:’’جب تو اپنے دل میں کسی شخص کی محبت یا عداوت پائے تو اس
شخص کے اعمال کتاب وسنت کی کسوٹی پر پرکھ،اگر وہ اعمال کے لحاظ سے کتاب
وسنت کا مخالف ہے تو تو صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے
دوستی ومحبت پر خوش رہ ۔لیکن اگر اس کے اعمال کتاب وسنت کے مطابق ہیں پھر
بھی تو اسے دشمن سمجھتاہے تو تو نفسانی خواہشات میں گرفتار ہے اور اپنے
ذاتی اغراض کے لیے دشمنی رکھتا ہے۔اس بغض وعداوت کی وجہ سے تو اس پر ظلم
کررہاہے اور اللہ و رسول کے فرمان کی مخالفت کررہا ہے جو ایک جرم ہے،اس لیے
اپنے اس بغض وعداوت سے بارگاہ الٰہی میں توبہ کراور اللہ سے خود اس کی اور
اس کے نیک بندوں اور صالحین کی محبت کا سوال کر۔اسی طرح جس شخص سے تو محبت
رکھتاہے اس کے افعال وکردار کتاب وسنت کی روشنی میںپرکھ،اگراس کے اعمال
کتاب وسنت کے مطابق ہیں توبے شک اس سے محبت رکھ اوراگر اس کے اعمال کتاب
وسنت کے خلاف ہیں توتو اسے دشمن جان! تاکہ تیری محبت ودشمنی محض خواہشات
نفسانی کے تابع ہوکرنہ رہ جائے، کیوںکہ تجھے اس کی مخالفت کا حکم دیاگیاہے
:وَلَا تَتَّبِعِ الْہَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیلِ اللّٰہِ(ص:۲۶)
ترجمہ:نفسانی خواہش کے پیچھے نہ بھاگ،کیونکہ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بہکادے
گی۔‘‘ (ایضاً،اکتیسواں مقالہ)
حسد وکینہ ایک بیماری ہے
ہمارے درمیان حسد، کینہ دشمنی اور جلن کی بیماری عام ہے ۔نہ چاہتے ہوئے بھی
ہم اس بیماری کے شکار ہوجاتے ہیں اور خود کو ہلاکت میں ڈال لیتے ہیں ۔ شیخ
جیلانی قدس سرہٗ اس سے پرہیزکی تلقین کرتے ہوئےفرماتے ہیں:’’کیا وجہ ہے کہ
میں تجھے اپنے ہمسائے اورپڑوسی سے حسد کرنے والا دیکھتا ہوں؟ تو اس کے
خوردونوش،لباس ومکان،زن و مال اوراللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی ہوئی دوسری
نعمتوں سے جلتاہے۔ تجھے علم نہیں کہ حسدایک ایسی خطرناک بیماری ہے جو ایمان
کو کمزور،مولیٰ کی بارگاہ سے دور اوراللہ کی نافرمانی کا باعث بن جاتی ہے
۔کیاتونے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نہیں سنا:حاسدمیری
نعمتوںکے دشمن ہیں اورحسد نیکیوںکو اس طرح کھاجاتاہے جیسے آگ لکڑی کو۔اے
مسکین !تو اس کی کس چیزپر حسدکرتاہے؟اس کی قسمت پر یا اپنی قسمت پر؟ اگر
تواس کی قسمت پر حسدکرتاہے تو وہ اللہ کی طرف سے عطاکردہ ہے، فرمان باری
ہے:نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَہُمْ مَعِیْشَتَہُمْ فِی الْحَیَاۃِ
الدُّنْیَا(زخرف:۳۲)ترجمہ:ہم نے ان کے درمیان ان کے جینے کا سامان دنیا کی
زندگی میں بانٹ دیا۔
پس تو ایک ایسے شخص پرجو اللہ تعالیٰ کی نعمتوںپر صابر ہے، حسد کے ذریعے
ظلم کا ارتکاب کررہاہے ۔خود ہی غورکرکہ تجھ سے زیادہ ظالم،بخیل،احمق اورکم
عقل کون ہے؟اگرتو اپنے نصیب پر حسدکررہاہے تو یہ اس سے بھی زیادہ جہالت اور
نادانی ہے، تیرا حصہ غیر کو کبھی نہیں دیا جائے گا،کیونکہ اللہ ایسا کرنے
سے پاک ہے :مَا یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ
لِلْعَبِیدِ(ق:۲۹)
ترجمہ:میرافیصلہ بدلتا نہیں اور نہ میں بندوںپر ظلم کرتاہوں۔
‘‘(ایضاً،سینتیسواں مقالہ)
خواہشات نفسانی سے پرہیز
انسان کے پاس نفس کی شکل میں ایک شیطان ہے جسے چاہ کر بھی اپنے سے الگ نہیں
کرسکتا ، البتہ! اس کو اپنے قابومیںکرکے اس کی وجہ سے آنے والی
مصیبتوںاورعذاب سے محفوظ رہاجاسکتا ہے۔ نفس کے شر اور فساد سے پرہیز کی
تلقین کرتے ہوئے شیخ جیلانی قدس سرہٗ فرماتے ہیں:’’نفس کی دو حالتیں
ہیں:ایک حالت عافیت اوردوسری حالت آزمائش۔جب نفس آزمائش میں مبتلا ہوتا
ہے تو گھبراہٹ، شکایت، اعتراض اور اللہ پر تہمت لگاتا ہے۔اس وقت اسے نہ صبر
رہتاہے اورنہ وہ تقدیرالٰہی پر راضی، بلکہ بے ادبی اور شرک وکفرمیں مبتلا
ہوجاتاہے اورجب نفس عافیت کی حالت میں ہوتاہے تو لالچ ، نافرمانی
اورخواہشات میں پڑجاتا ہے۔ جب ایک خواہش حاصل کرلیتاہے تو دوسری طلب کرتا
ہے ۔حاصل شدہ نعمت اسے حقیر دکھائی دیتی ہے اور اس میں عیب نظرآتا ہے۔وہ
اس سے ایسی اعلیٰ اور بہترنعمت کی تمنا کرتا ہے جو سرے سے اس کی قسمت میںہے
ہی نہیں۔اس طرح وہ اپنے حصے سے منھ پھیر لیتا ہے۔پھرنفس انسان کو عظیم
مصیبت میں ڈال دیتاہے۔ تقسیم کی ہوئی اورموجودہ چیزوںپر راضی نہیں ہوتا،پس
وہ سختیوںمیں مبتلا ہوجاتاہے اوردنیاو آخرت میں مشقتوںکے درمیان
گھرارہتاہے ،کیونکہ کہاگیا ہے کہ جو چیز قسمت میں نہیں اس کا طلب کرنا سخت
عذاب ہے۔‘‘
(ایضاً،بیالیسواں مقالہ)
صبر وشکرکی حیثیت
یہ دونوں انسانی زندگی کا لازمہ ہے اور اخلاق کے بنیادی حصے ہیں۔یہ دونوں
چیزیں ایک انسان کونہ صرف اللہ رب العزت سے قریب ہونے کا موقع فراہم کرتی
ہیں بلکہ انسانی سماج میں اسے عزت وشرافت سے جینے کاراستہ بھی ہموار کرتی
ہیں۔ان دونوں کو اپنانے پر زوردیتے ہوئےشیخ جیلانی قدس سرہٗ فرماتے ہیں:
’’صبروشکردوصورتوںسے خالی نہیںیا تومصیبت وآزمائش کی حالت میں ہوگایا
پھرنعمت کی حالت میں۔اگر مصیبت و آزمائش کی حالت میںہے تو تجھ سے صبرکا
مطالبہ کیا جائے گا مگر یادرہے کہ یہ ادنیٰ درجہ ہے اور ہر حال
میںصبرکرنااس سے بہتراوربلنددرجہ ہے،پھر رضا اور موافقت ہے پھر فناکا درجہ
ہے اوریہ سب عارفین باللہ اورعلماکے لیے ہے اوراگر نعمت کی حالت ہے تو اس
پر شکر اداکرنا ضروری ہے اور شکرزبان،دل اورتمام اعضا و جوارح سے
اداہوتاہے۔
زبان سے شکراداکرنے کے معنی یہ ہیں کہ دل کی گہرائی سے اس بات کا اعتراف
کرے کہ ہر نعمت اللہ ہی کی طرف سے ہے ۔ اس میں اپنی ذات، مخلوق،کسب
،ہنراورطاقت کا کوئی دخل نہیں،اس لیے کہ توخوداور یہ ساری چیزیں نعمت کے
اسباب اور وسائل ہیں۔نعمت کو پیداکرنے والا ،اس کو تقسیم کرنے والا اور اس
کا مسبب صرف اللہ ہے۔جب نعمت کی تقسیم اور پیدائش اسی کے ہاتھ میں ہے تو اس
کے علاوہ کوئی دوسرا کس طرح شکراورحمدکے لائق ہوسکتاہے اوریہ ظاہر سی بات
ہے کہ ہدیہ لانے والے غلام کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی بلکہ ہمیشہ ہدیہ بھیجنے
والے مالک پر نظرہوتی ہے اور جسے یہ بصیرت حاصل نہیں ہوتی ان کے متعلق اللہ
کا فرمان ہے:یَعْلَمُونَ ظَاہِرًا مِنَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَہُمْ عَنِ
الْآخِرَۃِ ہُمْ غَافِلُونَ(روم:۷)
ترجمہ:وہ دنیاکی ظاہری زندگی توجانتے ہیںمگر آخرت کی زندگی سے کلی طورپر
بے خبر ہیں۔ ‘‘ (ایضاً،انسٹھواں مقالہ)
دولت کی خرابی
بظاہر دولت بڑی اچھی اوربھلی معلوم ہوتی ہے مگر یہ اسی وقت بہترہے جب فرائض
اور واجبات کی ادائیگی میں کوئی رکاوٹ نہ ہو، اگریہ دولت عبادت سے روکے اور
اللہ تعالیٰ کی محبت دل میںنہ آنے دے توپھریہ کسی مصیبت سے کم نہیں بلکہ
اس بات کاخوف ہے کہ اس کی وجہ سے کہیں کوئی وبال نہ آجائے۔اس تعلق سے
تنبیہ کرتے ہوئےشیخ جیلانی قدس سرہٗ فرماتے ہیں:’’اگر اللہ تجھے مال ودولت
عطافرمائے اور اس کی وجہ سے تواللہ تعالیٰ کی عبادت سے منھ پھیرلے تو
دنیاوآخرت میں اللہ اس کو تیرے لیے حجاب بنادے گااورممکن ہے کہ اللہ تجھ
سے دولت بھی چھین لے اور تیری حالت بدل ڈالے ... اوراگر تو نے مال کو عبادت
الٰہی کے فرائض کی بجاآوری میں رکاوٹ نہ بننے دیاتو وہ مال ہمیشہ کے لیے
تجھے بخش دیاجائے گا ،اس میں سے ذرہ برابربھی کمی نہ ہوگی اوروہ مال تیرا
خادم اورتو اپنے مولیٰ تبارک وتعالیٰ کا خادم ہوگا۔چنانچہ دنیامیں
تونازونعم کی زندگی گزارے گا اور آخرت میں بھی ہمیشہ کے لیے جنت اوراعزازی
طورپر صدیقین،شہدا اور صالحین کی رفاقت حاصل رہے گی۔ ‘‘ (ایضاً،بارہواں
مقالہ)
نجات اورکامیابی کی راہ
ایک انسان کی زندگی میں ہر عیش وآرام میسر تو ہے لیکن اگراسے کامیابی حاصل
نہیں تو اس کی زندگی بیکار ہے ،اسی طرح ایک بندہ،مومن تو ہے لیکن آخرت میں
نجات کی امیدنہیں توجینابیکار ہے،اس لیے ہمیشہ آخرت کی نجات کے لیے تیاری
کرنا ضروری ہے۔ شیخ جیلانی قدس سرہٗ دنیا وآخرت میںنجات کا یہ نسخہ بیان
فرماتے ہیں:’’اللہ و رسول کی اطاعت کرو،ان کے ارشادات سے باہر قدم نہ رکھو
،اللہ کو ایک جانو،اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائو، اس پر ایمان رکھو
،اس پر تہمتیں نہ لگائو۔ ...اسی سے مانگواور رنجیدہ ہونے کے بجائے
انتظارکرو، رحمت الٰہی کے امیدوار بنو،ناامیدمت رہو،ایک ساتھ عبادت
کرو،باہمی محبت وخلوص سے پیش آئواورایک دوسرے کے لیے دل میں غصہ نہ پیدا
ہونے دو۔اپنے دامن کو گناہوںسے داغدارنہ ہونے دو اور اپنے رب کی اطاعت سے
خودکو آراستہ کرو۔ ... بارگاہ الٰہی میں توبہ کرنے اوراپنے گناہوں کی
معافی چاہنے میں رات ہو یا دن ہر گز تاخیرنہ کرواور نہ ہی اس سلسلے میں
ملول ہو۔
شاید رحمت الٰہی کا سایہ تمھیں اپنی پناہ میں لے لے ، جہنم کے بھڑکتے
شعلوںسے نجات پاکر جنت کی باغوں میںپہنچ جائو اورتمھیں اللہ کا وصال حاصل
ہوجائے۔‘‘ (ایضاً،دوسرا مقالہ)
یہ وہ قیمتی، نورانی اور عرفانی تعلیمات وفرمودات ہیں جن پر عمل کرکے ہر
عہداورہرزمانے میں دین ودنیاکی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے ۔(ایڈیٹر ماہنامہ
خضرراہ،الہ آباد)
|