آج کل مختلف مقامات پر خاندان اور برادری
میں میت کمیٹیاں بنانے کا رواج چل پڑا ہے، اس کمیٹی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ
کمیٹی کے کسی ممبر کے گھر میں اگر خدانخواستہ موت کا سانحہ پیش آجائے تو اس
کی تجہیزوتکفین کا خرچہ برداشت کیا جائے، نیز میت کے گھر والوں اور تعزیت
کے لیے آئے مہمانوں کے لیے کھانے کا بندوبست کرنا بھی اسی کمیٹی کی ذمہ
داری شمار ہوتی ہے، اس کمیٹی کا ممبر صرف ایک خاندان یا برادری یا محلے کے
لوگوں کو بنایا جاتا ہے، ممبر بننے کے لیے شرائط ہوتی ہیں، مثلاً یہ کہ ہر
ماہ یا ہر سال ایک مخصوص مقدار میں رقم جمع کرانا لازم ہے، اگر یہ رقم جمع
نہ کرائی جائے تو ممبر شپ ختم کردی جاتی ہے، جس کے بعد وہ شخص کمیٹی کی
سہولیات سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتا، عام طور پر یہ کمیٹیاں دو طرح کے
اخراجات برداشت کرتی ہیں:
۱:……کفن و دفن کے اخراجات، یعنی کفن، قبرستان تک لے جانے کے لیے گاڑی اور
قبر وغیرہ کا خرچہ۔
۲:……میت کے اہل خانہ اور مہمانوں کے کھانے کا خرچہ۔
شرعی نکتہ نگاہ سے ان دونوں طرح کے اخراجات میں حسب ذیل تفصیل ہے:
میت کی تجہیز و تکفین کا خرچہ
جب کسی شخص کا انتقال ہوجائے تو اس کی تجہیز و تکفین اور تدفین کے اخراجات
کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ اگر میت کا ذاتی مال موجود ہوتو اس کے کفن
دفن کا خرچہ اسی میں سے کیا جائے گا۔(۱)
اگر اس کے ترکہ میں مال موجود نہیں تو اس کے یہ اخراجات اس شخص کے ذمہ ہوں
گے جس پر اس کی زندگی میں مرحوم کا خرچہ واجب تھا، لہٰذا اگر میت کا باپ
اور بیٹا دونوں زندہ ہوں تو کفن و دفن کے اخراجات بیٹے کے ذمہ ہوں گے، کیوں
کہ جب کسی شخص کے پاس کوئی مال نہ ہواور اس کا باپ اور بیٹا دونوں موجود
ہوں تواس کے اخراجاتِ زندگی بیٹے پر واجب ہوتے ہیں ،باپ پر نہیں،(۲)بیوی کا
کفن دفن شوہر کے ذمہ لازم ہوتا ہے، اگرچہ اس کے پاس مال موجود ہو، (۳) اگر
میت کے پس ماندگان میں ایسا کوئی شخص نہ ہو جس پر اس کا خرچہ واجب ہوتا ہے
یا ایسا کوئی فرد موجود ہو، لیکن وہ خود اتنا غریب ہو کہ یہ خرچہ برداشت
نہیں کرسکے تو تکفین و تدفین کی ذمہ داری حکومتِ وقت کی ہے، لیکن اگر
حکومتِ وقت یہ خرچہ نہیں اُٹھاتی یا ان کے نظم میں ایسی کوئی صورت نہ ہو تو
جن مسلمانوں کو اس کی موت کا علم ہے، ان پر اس کی تکفین و تدفین کا خرچہ
واجب ہے، اگر جاننے والے بھی سب غریب ہیں تو پھر وہ لوگوں سے چندہ کرکے یہ
اخراجات برداشت کریں اور جو رقم باقی بچے وہ دینے والے کو واپس کریں،
اگردینے والے کا علم نہ ہو تو اس رقم کو سنبھال کر رکھیں، اور اگر دوبارہ
اس طرح کی صورتِ حال پیش آئے تو اس کی تکفین و تدفین میں اُسے خرچ کریں۔
(۴)
میت کے اہل خانہ کے لیے کھانے کا انتظام
میت کے رشتہ داروں اور ہمسایوں کے لیے مستحب ہے کہ وہ میت کے اہل خانہ کے
لیے ایک دن اور رات کے کھانے کا انتظام کریں، کیوں کہ میت کے اہل خانہ غم
سے نڈھال ہونے اور تجہیز و تکفین میں مصروف ہونے کی وجہ سے کھانا پکانے کا
انتظام نہیں کرپاتے،(۵) غزوۂ موتہ میں جب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
کے چچا زاد بھائی حضرت جعفربن ابی طالب q شہید ہوئے اور ان کی وفات کی خبر
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ
کرام رضوان اﷲ تعالیٰ اجمعین سے فرمایا کہ جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانے
کا بندوبست کرو ،کیوں کہ ان پرایسا شدید صدمہ آن پڑا ہے جس نے انہیں(دیگر
اُمور سے )مشغول کردیا ہے۔ (۶)
میت کے اہل خانہ کے علاوہ جو افراد دور دراز علاقوں سے میت کے اہل خانہ سے
تعزیت اور تکفین و تدفین میں شرکت کے لیے آئے ہوں اگر وہ بھی کھانے میں
شریک ہوجائیں تو ان کا شریک ہونا بھی درست ہے، تاہم تعزیت کے لیے قرب و
جوار سے آئے لوگوں کے لیے میت کے ہاں باقاعدہ کھانے کا انتظام کرناخلافِ
سنت عمل ہے۔(۷)
مروجہ انجمنوں اور کمیٹیوں کے بظاہر نیک اور ہمدردانہ مقاصد سے ہٹ کر کئی
شرعی قباحتیں ہیں:
۱:…… کمیٹی کا ممبر بننے کے لیے ضروری ہے کہ ہر فرد، چاہے امیر ہو یا غریب،
ہر ماہ ایک مخصوص رقم کمیٹی میں جمع کرے،اگر وہ یہ رقم جمع نہیں کراتا تو
اُسے کمیٹی سے خارج کردیا جاتا ہے، پھر کمیٹی اس کو وہ سہولیات فراہم نہیں
کرتی جو ماہانہ چندہ دینے والے ممبران کو مہیا کرتی ہے، اس سے معلوم ہوتا
ہے کہ اس کمیٹی کی بنیاد ’’امدادِ باہمی‘‘ پر نہیں، بلکہ اس کا مقصد ہرممبر
کو اس کی جمع کردہ رقم کے بدلے سہولیات فراہم کرنا ہے، یہ سہولیات اس کی
جمع کردہ رقم کی نسبت سے کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوسکتی ہیں، یہ معاملہ
واضح طور پر قمار (جوا)کے مشابہ ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔ (۸)
۲:……کمیٹی کے ممبران میں سے بعض اوقات غریب و نادارلوگ بھی ہوتے ہیں،جو
اتنی وسعت واستطاعت نہیں رکھتے کہ ماہانہ سو روپے بھی ادا کرسکیں، لیکن
خاندانی یا معاشرتی رواداری کی خاطر یا لوگوں کی باتوں سے بچنے کے لیے وہ
مجبوراً یہ رقم جمع کراتے ہیں، یوں وہ رقم تو جمع کرادیتے ہیں، لیکن اس میں
خوش دلی کا عنصر مفقود ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ مال استعمال کرنے والے کے
لیے حلال طیب نہیں ہوتا، کیوں کہ حدیث شریف میں ہے کہ کسی مسلمان کا مال
دوسرے مسلمان کے لیے صرف اس کی دلی خوشی اور رضامندی کی صورت میں حلال
ہے۔(۹)
۳:…… بسااوقات اس طریقہ کار میں ضرورت مند اور تنگ دست سے ہمدردی اور احسان
کی بجائے اس کی دل شکنی کی جاتی ہے اور اس کے ساتھ بدسلوکی کا رویہ برتا
جاتا ہے، کیوں کہ خاندان کے جو غریب افراد کمیٹی کی ماہانہ یا سالانہ فیس
نہیں بھر پاتے انہیں کمیٹی سے خارج کردیا جاتا ہے، اس طرح ان کی حاجت اور
ضرورت کے باوجود اُنہیں اس نظم کا حصہ نہیں بنایا جاتا اور پھر موت کے
غمگین موقع پر اُسے طرح طرح کی باتوں اور رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
۴:…… اس طریقہ کار میں کھانا کھلانا ایک عمومی دعوت کی شکل اختیار کرجاتا
ہے، حالانکہ مستحب یہ ہے کہ یہ انتظام صرف میت کے گھر والوں کے لیے ہو۔(۱۰)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر کسی کے ہاں میت ہوجائے تومستحب یہ ہے کہ میت کے
عزیز و اقارب و پڑوسی مل کر میت کے اہل خانہ کے لیے کھانے کا انتظام کریں،
میت کی تجہیزو تکفین کے خرچہ کے لیے دیکھا جائے کہ اگر میت نے کچھ مال
چھوڑا ہے توتجہیز و تکفین کا خرچہ اس کے مال میں سے کیا جائے اور اگر میت
نے کسی قسم کا مال نہیں چھوڑا توجس شخص پر اس کا خرچہ واجب ہے وہ یہ
اخراجات برداشت کرے، اگر وہ نہیں کرپاتا تو خاندان کے مخیر حضرات کو چاہیے
کہ وہ یہ اخراجات اپنے ذمے لے لیں، مروجہ کمیٹیوں کے قیام میں شرعاً کئی
قباحتیں ہیں ، اس سے اجتناب کیا جائے۔
البتہ اگرمندرجہ بالا قباحتوں سے اجتناب کرتے ہوئے رفاہی انجمن یا کمیٹی
قائم کی جائے جس میں مخیر حضرات ازخود چندہ دیں، کسی فردکوچندہ دینے پر
مجبور نہ کیا جائے تو اس کی گنجائش ہے، یہ انجمن یا کمیٹی خاندان کے لوگوں
کی ضروریات کی کفالت کرے، بے روزگار افراد کے لیے روزگار ، غریب و نادار
بچیوں کی شادی اور دیگر ضروریات میں ضرورت مندوں کی مدد کرے، ان امور کی
انجام دہی کے ساتھ ساتھ اگریہ کمیٹی یا انجمن خاندان کے کسی فرد کی موت کے
بعد اس کی تجہیز و تکفین پر آنے والے اخراجات بھی اپنے ذمہ لے تو یہ درست
ہے۔
حوالہ جات
۱:…… ( یبدأ من ترکۃ المیت بتجہیزہٖ) یعم التکفین (من غیر تقتیر ولا تبذیر
) ککفن السنۃ أو قدر ما کان یلبسہٗ فی حیاتہٖ۔‘‘ ( الدر المختار مع رد
المحتار، کتاب الفرائض،ج: ۷،ص:۷۵۹ ، ط:سعید)
۲:…… ( وکفن من لا مال لہٗ علٰی من تجب علیہ نفقتہٗ ) فإن تعددوا فعلی قدر
میراثہم ۔ و فی الرد: قولہ ( فعلی قدر میراثہم ) کما کانت النفقۃ واجبۃ
علیہم فتح أی فإنہا علی قدر المیراث فلو لہٗ أخ لأم وأخ شقیق فعلی الأول
السدس والباقی علی الشقیق ۔ أقول ومقتضی اعتبار الکفن بالنفقۃ أنہ لو کان
لہ ابن وبنت کان علیہما سویۃ کالنفقۃ إذ لا یعتبر المیراث فی النفقۃ
الواجبۃ علی الفرع لأصلہٖ ولذا لو کان لہٗ ابن مسلم وابن کافر فہی علیہما
ومقتضاہ أیضا أنہٗ لو کان للمیت أب وابن کفنہٗ الابن دون الأب کما فی
النفقۃ علی التفاصیل الآتیۃ فی بابہا إن شاء اللّٰہ تعالی ۔‘‘ ( رد
المحتار، کتاب الصلاۃ، باب الجنائز، ج: ۲،ص: ۲۰۵،۲۰۶، ط:سعید)
۳:…… ( واختلف فی الزوج والفتوی علی وجوب کفنہا علیہ ) عند الثانی ( وإن
ترکت مالا ) خانیۃ ورجحہٗ فی البحر بأنہٗ الظاہر لأنہٗ ککسوتہا ۔ و فی
الرد: مطلب فی کفن الزوجۃ علی الزوج ۔ قولہٗ ( واختلف فی الزوج أی وجوب کفن
زوجتہٖ علیہ ۔ قولہٗ ( عند الثانی ) أی أبی یوسف وأما عند محمد فلا یلزمہٗ
لانقطاع الزوجیۃ بالموت وفی البحر عن المجتبٰی أنہٗ لا روایۃ عن أبی حنیفۃ
لکن ذکر فی شرح المنیۃ عن شرح السراجیۃ لمصنفہا أن قول أبی حنیفۃ کقول أبی
یوسف ۔ قولہٗ ( وإن ترکت مالا الخ ) اعلم أنہٗ اختلفت العبارات فی تحریر
قول أبی یوسف ، ففی الخانیۃ و الخلاصۃ و الظہیریۃ أنہ یلزمہٗ کفنہا وإن
ترکت مالا وعلیہ الفتوی وفی المحیط و التجنیس و الواقعات و شرح المجمع
لمصنفہٖ إذا لم یکن لہا مال فکفنہا علی الزوج وعلیہ الفتوی وفی شرح المجمع
لمصنفہٖ إذا ماتت ولا مال لہا فعلی الزوج المسراہ ومثلہٗ فی الأحکام عن
المبتغی بزیادۃ وعلیہ الفتوی ومقتضاہ أنہٗ لو معسرا لا یلزمہٗ اتفاقا وفی
الأحکام أیضًا عن العیون کفنہا فی مالہا إن کان وإلا فعلٰی الزوج ولو معسرا
ففی بیت المال الخ والذی اختارہٗ فی البحر لزومہٗ علیہ موسرا أو لا ، لہا
مال أو لا ، لأنہٗ ککسوتہا وہی واجبۃ علیہا مطلقا ، قال: وصححہٗ فی نفقات
الولوالجیۃ الخ ، قلت: وعبارتہا إذا ماتت المرأۃ ولا مال لہا ، قال أبو
یوسف: یجبر الزوج علی کفنہا والأصل فیہ أن من یجبر علی نفقتہٖ فی حیاتہٖ
یجبر علیہا بعد موتہ وقال محمد: لا یجبر الزوج والصحیح الأول الخ ، فلیتأمل
۔
تنبیہ: قال فی الحلیۃ ینبغی أن یکون محل الخلاف ما إذا لم یقم بہا مانع
یمنع الوجوب علیہ حالۃ الموت من نشوزہا أو صغرہا ونحو ذلک الخ وہو وجیہ
لأنہٗ إذا اعتبر لزوم الکفن بلزوم النفقۃ سقط بما یسقطہا ثم اعلم أن الواجب
علیہ تکفینہا وتجہیزہا الشرعیان من کفن السنۃ أو الکفایۃ وحنوط وأجرۃ غسل
وحمل ودفن دون ما ابتدع فی زماننا من مہللین وقراء ومغنین وطعام ثلاثۃ أیام
ونحو ذلک ومن فعل ذلک بدون رضا بقیۃ الورثۃ البالغین یضمنہٗ فی مالہٖ ۔‘‘
(رد المحتار، کتاب الصلاۃ، باب الجنائز،ج: ۲،ص:۲۰۵،۲۰۶ ، ط:سعید)
۴:…… ( وإن لم یکن ثمۃ من تجب علیہ نفقتہٗ ففی بیت المال فإن لم یکن ) بیت
المال معمورا أو منتظما (فعلی المسلمین تکفینہٗ ) فإن لم یقدروا سألوا
الناس لہٗ ثوبا فإن فضل شیء رد للمصدق إن علم وإلا کفن بہٖ مثلہٗ وإلا تصدق
بہ ، مجتبی۔ وظاہرہٗ أنہ لا یجب علیہم إلا سؤال کفن الضرورۃ لا الکفایۃ ولو
کان فی مکان لیس فیہ إلا واحد وذلک الواحد لیس لہٗ إلا ثوب لا یلزمہ
تکفینہٗ بہٖ۔ و فی الرد: قولہٗ ( فإن لم یکن بیت المال معمورا ) أی بأن لم
یکن فیہ شیء أو منتظما أی مستقیمًا بأن کان عامرا ولا یصرف مصارفہٗ ط،
قولہٗ ( فعلی المسلمین ) أی العالمین بہٖ وہو فرض کفایۃ یأثم بترکہٖ جمیع
من علم بہٖ، ط ، قولہٗ ( فإن لم یقدروا ) أی من علم منہم بأن کانوا فقراء
قولہٗ ( وإلا کفن بہٖ مثلہٗ ) ہذا لم یذکرہ فی المجتبی ، بل زادہ علیہ فی
البحر عن التنجیس و الواقعات ، قلت: وفی مختارات النوازل لصاحب الہدایۃ
فقیر مات فجمع من الناس الدراہم وکفنون وفضل شیء إن عرف صاحبہٗ یرد علیہ
وإلا یصرف إلٰی کفن فقیر آخر أو یتصدق بہٖ ۔‘‘ ( رد المحتار، کتاب الصلاۃ،
باب الجنائز، ج: ۲،ص:۲۰۵،۲۰۶ ، ط:سعید )
۵:…… ولا بأس وباتخاذ طعام لہم و فی الرد: قولہٗ ( وباتخاذ طعام لہم ) قال
فی الفتح ویستحب لجیران أہل المیت والأقرباء الأباعد تہیئۃ طعام لہم یشبعہم
یومہم ولیلتہم ۔‘‘ ( رد المحتار، کتاب الصلاۃ، باب الجنائز،ج:۲ ،ص:۲۴۰ ،
ط:سعید)
۶:…… حدثنا أحمد بن منیع و علی بن حجر قالا: حدثنا سفیان بن عیینۃ عن جعفر
بن خالد عن أبیہ عن عبد اللّٰہ بن جعفرؓ قال : لما جاء نعی جعفرؓ قال النبی
صلی اللّٰہ علیہ و سلم: اصنعوا لأہل جعفرؓ طعاما فإنہٗ قد جاء ہم ما یشغلہم
۔ قال أبو عیسی: ہذا حدیث حسن صحیح وقد کان بعض أہل العلم یستحب أن یوجہ
إلی أہل المیت شیء لشغلہم بالمصیبۃ وہو قول الشافعیؒ ۔ قال أبو عیسی: و
جعفر بن خالد ہو ابن سارۃ وہو ثقۃ روی عنہ ابن جریج۔‘‘ (أبواب الجنائز،باب
ما جاء فی الطعام یصنع لأہل المیت،ج:۱ ،ص:۱۹۵ ، قدیمی)
۷:…… قال فی الفتح: ویستحب لجیران أہل المیت والأقرباء الأباعد تہیئۃ طعام
لہم یشبعہم یومہم ولیلتہم لقولہٖ اصنعوا لآل جعفرؓ طعاما فقد جاء ہم ما
یشغلہم ، حسنہٗ الترمذی وصحح الحاکم ولأنہٗ بِرٌّ ومعروف ویلح علیہم فی
الأکل لأن الحزن یمنعہم من ذلک فیضعفون الخ ۔ مطلب فی کراہۃ الضیافۃ من أہل
المیت وقال أیضا ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أہل المیت لأنہٗ شرع فی
السرور لا فی الشرور وہی بدعۃ مستقبحۃ ، وروٰی الإمام أحمد وابن ماجۃ
بإسناد صحیح عن جریر بن عبد اللّٰہ قال: کنا نعد الاجتماع إلٰی أہل المیت
وصنعہم الطعام من النیاحۃ الخ۔‘‘ ( رد المحتار، کتاب الصلاۃ، باب
الجنائز،ج: ۲،ص:۲۴۰ ، ط:سعید)
۸:……لأن القمار من القمر الذی یزداد تارۃً وینقص أخرٰی وسمی القمار قماراً
لأن کلَّ واحد من المقامرین ممن یجوز أن یذہب مالہٗ إلی صاحبہٖ ویجوز أن
یستفید مال صاحبہٖ وہو حرام بالنص۔‘‘ ( کتاب الحظر و الإباحۃ، فصل فی
البیع،ج:۶ ،ص:۴۰۴ ، ط:سعید)
۹:…… عن أبی حرۃ الرقاشی عن عمہٖ قال: کنت آخذا بزمام ناقۃ رسول اللّٰہ صلی
اللّٰہ علیہ و سلم فی أوسط أیام التشریق أذود عنہ الناس ، فقال: یا أیہا
الناس ! ألا لا تظلموا ، ألا لا تظلموا، ألا لا تظلموا، إنہٗ لا یحل مال
امرء إلا بطیب نفس منہ ۔‘‘ ( مسند أحمد، مسند الکوفیین، حدیث عم أبی حرۃ
الرقاشی، رقم الحدیث: ۲۰۷۱۴،ج:۵، ص:۷۲، ط:مؤسس قرطبۃ القاہرۃ)
۱۰:……وروی الإمام أحمد وابن ماجۃ بإسناد صحیح عن جریر بن عبد اللّٰہ ، قال:
کنا نعد الاجتماع إلٰی أہل المیت وصنعہم الطعام من النیاحۃ الخ ۔‘‘ ( رد
المحتار، کتاب الصلاۃ، باب الجنائز،ج:۲ ،ص:۲۴۰ ، ط:سعید) |