ہمارا احتسابی اور عدالتی نظام

ملک میں جاری کرپشن کا جادو سرچرھ کر بول رہاہے بلکہ سرپٹ دوڑ رہاہے۔ ایف آئی اے، انٹی کرپشن دونوں اداروں سے کوئی شہری مطمئن نہیں ہے۔ لے دے کر ایک نیب کا ادارہ باقی تھا جو ٹوٹی پھوٹی کارروائیاں کرپشن کے سدباب اور کرپٹ لوگوں کی گرفت کیلئے کررہاتھا کہ بارے میں ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کے اس بیان نے جس میں اس نے کہا کہ نیب کرپشن کرنیوالوں کا سہولت کار بناہواہے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔ کہ کیا واقعی ملک میں اب کرپشن کی روک تھام ممکن ہے یا نہیں یا یہ ناسو رایسے ہی جڑ پکڑتا رہیگا اور ہماری جڑوں کو کھوکھلا کرتا رہیگا۔ سپریم کورٹ کے جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ نیب رضاکارانہ طورپر رقوم کی واپسی کے قانون کا غلط استعمال کررہاہے ان کے مطابق یہ قانون نیب نے نہیں بنایا لیکن وہ اسکااستعمال غلط ضرور کررہاہے۔ آج تک کسی بڑے آدمی کو کیوں نہیں پکڑا گیا۔ جبکہ جسٹس عظمت سعید کے مطابق نائب قاصد کو 250روپے پر جیل بھیج دیاجاتاہے لیکن اڑھائی ارب کی کرپشن والے کو چھوڑ دیاجاتاہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس قانون کے سلسلے میں وفاق کا موقف بھی مانگا ہے اس میں کوئی شک ہیں کہ نیب نے پلی بارگین کے ذریعے اربوں روپوں کی رقم واپس لیکر قومی خزانے میں جمع کروائی ہے لیکن کرپشن میں ملوث افسران کا دوبارہ اپنی نوکری پر سز اکے بعد بحال ہونا ایک سوالیہ نشان ہے جسطرح دنیا کے دیگر ملکوں میں کرپٹ افسران، سیاستدان، جرنیل، صنعتکار کو عبرت کا نشان بنایاجاتا رہاہے ویسے ہی قانون میں ترمیم کی ضرورت ہمارے ملک میں بھی تھی۔ جب ہم بروز ہفتہ یہ کالم لکھ رہے تھے تو وفاقی حکومت کی جانب سے پلی بارگین کے قانون میں ترامیم کی خبر سنی جس کے مطابق اب اربوں روپوں کی کرپشن کرنے والے افسران کسی اہم عہدے پر فائز نہیں ہوسکیں گے اور تمام عمر کیلئے الیکشن لڑنے سے نااہل ہوجائیں گے جبکہ اب بھی پلی بارگین ہوگی لیکن اسکی منظوری عدالت دے گی۔ ہمارے اداروں کو چھوٹے بڑے کرپٹ آدمی ،ادارے کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کرنی چاہئے تاکہ اس بڑھتے ہوئے کرپشن کے مرض کے سامنے رکاوٹ کھڑی ہوسکے بصورت دیگر اب ہمارا جو حال کرپشن کے باعث اقوام عالم میں ہوچکاہے اسکے باعث تو اب ہمیں کوئی زکوۃ و دیگر امداد تک دینے کو تیار نہیں ہے ہمارے اداروں، حکمرانوں کی ملی بھگت سے جو لوٹ مار ملک میں گذشتہ کئی دہائیوں سے شروع ہے اسنے ہمیں عالمی طورپر تنہا کردیاہے ۔ کوئی ہم پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ہمارے بڑے بڑے ادارے سیاسی عمل دخل ، کرپشن کے باعث زبوں حالی کا شکا رہے۔ جن میں پی آئی اے، ریلوے، پاکستان سٹیل مل، واپڈا، پی ٹی سی ایل، سوئی گیس، نادرا، پاسپورٹ، وزارت امور و حج، ہائی ویز، کسٹم، انکم ٹیکس، پی ایس او، بیت المال قابل ذکر ہیں۔ لیکن ایف آئی اے مرکزی سطح پر اور انٹی کرپشن کا صوبائی سطح پر لمبی تان کر سو رہاہے۔ صرف دکھلوائے کیلئے چند گنی چنی، اکا دکا معمولی اہلکاروں کی کرپشن کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے باقی اداروں کو کھلی چھٹی ہے۔ خاص کر وفاقی سطح پر واپڈا، گیس، کسٹم، نادرا، پاسپورٹ، پی ٹی سی ایل، انکم ٹیکس او رصوبائی سطح پر بلدیہ، ایکسائز، پولیس، صحت، تعلیم وغیرہ میں کیا کچھ نہیں ہورہالیکن کسی بڑے افسر کی گرفتاری اور کرپشن کی رقوم واپسی کی خبر شاذو ناظر ہی سننے کو ملتی ہے۔ خاص کر واپڈا او رگیس کے محکمہ جات نے ملکی سطح پر کرپشن کے تمام ریکارڈ توڑدئیے ہیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ بھاری رشوت کے بغیر نیا کنکشن لینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ صارفین پر جرمانوں کے ذریعے کروڑوں کا بوجھ ڈالاگیا ہے ۔ واپڈا، گیس کی کرپشن کیلئے کالم کی سطور ناکافی ہیں لیکن ایف آئی اے کا محکمہ مجرمانہ غفلت کا شکا رہے۔ اگر دوچار ایکسین ، ایس ڈی او، سپروائزر، میٹر ریڈر ، ایس ای وغیرہ کے خلاف کارروائی ہوجائے تو سب کے کان کھڑے ہوجائیں گے۔ لیکن مجال ہے میٹر ریڈر تک کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی۔ عوام دونوں محکموں کے ہاتھوں اب نڈھال ہوچکی ہے۔ نادارا، پاسپورٹ کی کرپشن جب سر چڑھ کر بولنے لگی تو تنگ آمد بجنگ آمد اب کارروائی شروع کی گئی ہے ۔ کارروائی میں وزیر داخلہ کی دلچسپی شامل ہے لیکن دونوں محکمہ جات میں پاسپورٹ، شناختی کارڈ کے حصول و دیگر ضروریات میں مشکلات بہت زیادہ ہوگئی ہیں۔ کسٹم، انکم ٹیکس کے محکمے بھی کسی سے کم نہیں ہے۔ ملک بھر میں خاص کر بلوچستان ، کے پی کے میں غیر قانونی اور چوری شدہ گاڑیوں کا دھندہ عروج پر ہے پولیس کسٹم کی ملی بھگت سے ایسی گاڑیاں دندناتی پھر رہی ہیں ۔ سمگلنگ نے ملکی معیشت کو گھنٹے ٹیکنے پر مجبور کردیاہے۔ انکم ٹیکس کا محکمہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ بڑے سے بڑے مگر مچھ ، چور، سیاستدانوں، جاگیرداروں پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا جو ٹیکس ادا کرتے ہیں ان پر مزید قدغن اور ٹیکس لگانے کا سلسلہ عروج پر ہے۔ جو ٹیکس دے وہ گرفتار اور جو نہ دے وہ آزا دہے۔ سینکڑوں کی تعدا دمیں ممبران اسمبلی گوشوارے تک داخل نہیں کرواتے۔ ریٹرن فائل نہیں ہوتیں لیکن صر ف عارضی رکنیت معطلی تک کارروائی محدود ہے۔ صوبائی سطح پر محکمہ مال، ایکسائز، بلدیہ، پولیس، صحت، تعلیم، اریگیشن و دیگر کی کرپشن ہر عام و خاص کی زبان پر ہے لیکن محکمہ انسداد رشوت ستانی ، کرپشن کے خلاف واک کرکے سمجھتاہے کہ ہم نے کرپشن ختم کردی ہے۔ کوئی اس محکمے کے کرپٹ افسران و عملے سے پوچھنے والا نہیں ہے کہ بھائی آپ کروڑوں کے مالک کیسے بن گئے آپ اپنی ڈیوٹی ایمانداری سے سرانجام کیوں نہیں دیتے۔ محکمہ جات کے خلاف کارروائی کرکے عوام کو ان کرپٹ بھیڑیا نما انسانوں سے نجات کیوں نہیں دلواتے لیکن مجال ہے کہ کسی کے کان پر جوں تک رینگ جائے۔ وہی جھوٹے نعرے اور وعدوں سے عوام کو بہلایا پھسلایا جارہاہے۔ اربوں کے ترقیاتی سکیموں کا بجٹ کاغذی کارروائیوں اور ناقص منصوبوں کی نذر ہوجاتاہے لیکن کوئی احتسابی ادارہ ایسا نہیں ہے جہا ں پر جلد اور فوری انصاف مل سکے۔ جہاں تک بات ہے ہماری عدالتوں کی تو وہاں پر معمولی نوعیت کے کیسز جن کا فیصلہ چند دنوں میں ہوسکتاہے سالوں ملی بھگت کے باعث لٹکا رہتاہے۔ مظلوم دھکے کھاتے رہتے ہیں اور ظالم یا تو باعزت بری ہوجاتے ہیں یا دندناتے پھرتے ہیں۔ مقدمات کی بہتات اور غیر ضروری طوالت کے باعث ہماری عدالتوں میں لاکھوں کی تعداد میں Cases پڑے ہوئے ہیں ضرورت اس با ت کی ہے کہ کمشنر، ڈپٹی کمشنر، اے سی کی سطح پر بھی ایسی کمیٹیاں بنائی جائیں جو لوگوں کے درمیان معمولی نوعیت کے خاندانی، وراثتی، عدالتی، لین دین ، جائیداد، رینٹ کے معاملات کو مصالحت کے ذریعے حل کریں اور انتظامی امور کے افسران پر یہ بوجھ بدستور کم کیاجائے تاکہ وہ امن و امان،دہشت گردی وغیرہ کے خلاف اپنی توجہ مبذول کراسکیں۔ ایسی مصالحتی کمیٹیوں کا قیام کے پی کے میں DRCکے نام سے عرصہ دو سال سے وجود میں آچکا ہے لیکن انہیں انتظامی سطح پر بھی تمام ملک میں متعارف کروانے سے ہماری عدلیہ، پولیس، انتظامیہ پر بوجھ کم ہوگا اور عوام کو جلد اور سستا ریلیف ملے گا۔ ہمارے ملک میں عدالتیں اور احتسابی ادارے تو دھڑا دھڑ بن رہے ہیں لیکن ان کی کارکردگی پر کسی کی توجہ نہیں ہے۔ان تمام تر اداروں کو سیاست اور سیاسی بھرتیوں سے مکمل آزاد کرکے ہی کرپشن کا سدباب ممکن ہے۔
Sohail Aazmi
About the Author: Sohail Aazmi Read More Articles by Sohail Aazmi: 183 Articles with 157677 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.