کہتے ہیں کہ صبر کا میٹھا ہوتا ہے اور سب
سے طاقت ور وہ ہے جو اپنے غصے کو قابو کرلے۔ضرب المثل کسی نہ کسی واقعے سے
وابستہ یا سینکڑوں سالوں کے تجربات کے نچوڑ کے طور پر دوہرائی جاتی ہے ۔
گذشتہ دنوں امام کعبہ نے بھی امت مسلمہ سے اپیل کی کہ" تشدد کا راستہ چھوڑ
کراعتدال کا رویہ اپنائیں، پاکستانی قوم نے انتہا پسندی اور دہشت کے خلاف
عظیم جنگ کی ہے ، امت مسلمہ کو پریشان ہونے کے بجائے قرآن و سنت سے رجوع
کرنا چاہیے۔پاکستانی قوم اور افواج دہشت گردی کے خلاف جنگ پر مبارکباد کی
مستحق ہیں ۔"امام کعبہ الشیخ عبدالرحمان السدیس کا فرمان درست اور سر
آنکھوں پر ہے ۔ لیکن مجھے جیسے کمزور لکھاری کو عصمت صدیقی ، والدہ ڈاکٹر
عافیہ صدیقی کو ایک کھلا خط بذریعہ ای میل ملا۔اپنی بیٹی اور مسلم امہ کی
بیٹی اور بہن عافیہ صدیقی کیلئے ان کی فریاد نے شرم سے ایک بار پھر سر جھکا
دیئے کہ ہم با حیثیت مسلمان اپنی ذمے داریوں کو کتنا نبھا رہے ہیں ،امام
کعبہ جب بالا بیان فرما رہے تھے تو یقیناََ اُن کے ذہن میں ہوگا کہ کسی
اسلام کے نام لیوا کو اعتدال کی راہ اختیار کرنے کے بجائے تشدد کا راستہ
اپنانے کی وجہ کس نے فراہم کی ۔ آج سر زمین حجاز کے تحفظ کیلئے اسلامی
افواج کا ایک اتحاد ، حوثی باغیوں اور ان کو آشیر باد دینے والوں سے دفاع
کی جنگ کررہے ہیں۔یہاں پھر کس سے صبر ہوگا کہ خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ کی
جانب ناپاک ارادے رکھتا ہو اور اشتعال انگیز کاروائیاں کرتا ہو ، تو کیا
کوئی مسلمان اپنے غصے کو صبر کے مرہم پر رکھ دے گا ۔ یقیناََ ایسا نہیں ہے
، اسی طرح اگر کوئی نبی آخر الزماں ،محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف
زہر افشانی و دشنامی نعوذ باﷲ کرے گا تو کیا کالی کملی والے ﷺ کے پروانے کٹ
مرنے کے بجائے صبر کا پتھر اپنے سینے سے باندھ لیں گے ۔ اگر کوئی یہود و
نصاری یا ہنود قرآن کریم و انبیا رسل علیہ السلام کے خلاف لب کشائی کرے گا
تو کیا کوئی مسلمان خاموش ہوکر صبر کا بھاری پتھر اپنے سینے پر رکھ لے گا ۔
یقینی طور پر ایسا بھی نہیں ہوگا ۔ تشدد کا راشتہ اپنانے والوں کو ان کے
اسی جذبے کے تحت وہ قوتیں استعمال کرتی ہیں ، جنھیں معلوم ہے کہ رب کائنات
کے محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف جسارت کرنے والوں کے خلاف، شعائر اسلام
کی توہین کرنے والوں جسارت کرنے والوں کے خلاف ، اصحاب رسول رضوان اﷲ
اجمعین کی نعوذ باﷲ توہین کرنے والوں کے خلاف ، اعتدال کے راستے سے کس طرح
ہٹایا جا سکتا ہے ، کیونکہ یہی ایک طریقہ ہے کہ مسلمانوں کے مذہبی ودینی
جذبات کو کسی بھی مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے۔ اگر صلیبی ، صہیونی اور
انتہا پسند ہنود، بدھ پرست اور نسل پرست اشتعال انگیزیاں ختم کردیں تو کوئی
بھی قوم یا شخص تشدد کا راستہ اختیارا نہیں کرے گا، بلکہ اب بھی امت مسلمہ
امن کی داعی ہے ، اور جو انتہا پسندی کررہے ہیں وہ اسلام کا نام استعمال
کرکے دین اسلام کی تعلیمات کو بدنام کررہے ہیں۔
بلاشبہ پاکستانی قوم ، خاص کر پختون قوم نے دہشت گردی کے خلاف جتنی
قربانیاں دیں ہیں ، جتنی تکالیف برداشت کیں ، جتنے نقصانات اٹھائے ہیں ،
اتنے مصائب تو قیام پاکستان کیلئے بھی کسی نے نہیں اٹھائے ہونگے۔لیکن یہ
سمجھ نہیں آتا کہ اس حق و باطل کی جنگ کے ایندھن میں قوم کی بیٹی عافیہ
صدیقی جیسی بہنوں کے ساتھ جو زیادتی ہو رہی ہیں اس پر امت مسلمہ کیوں خاموش
ہے ۔ امام کعبہ کیا نہیں جانتے ہونگے کہ کیا کسی ایک امریکی فوجی کو زخمی
کرنے والی سزا، (جو کہ ثابت بھی نہیں ہوئی) ،امریکی عدالت نے 86سال کی سزا
دے ڈالی ۔عافیہ کے ساتھ عدالتی ناانصافی کے بعد اس کی سزا کو ختم کرنے کے
بجائے اتنی بڑی نا انصافی آخر کیوں؟۔اگراس پر عائد الزامات سچ نہیں ہیں تو
پھر وضاحت کرنا چاہئے کہ ایک تسلیم شدہ اغواء اور تشدد کی متاثرہ کو 86 سال
کی سزاکیسے جائز ہے، جس نے کسی کو زخمی نہیں کیا اور الٹااسے قتل کرنے کی
کوشش کی گئی۔ یقینا شفقت اور مہربانی کے لئے یہاں گنجائش نہیں ہے۔صدر
اوبامہ اپنی مدت صدارت کے اختتام تک کچھ مزید خواتین کو بھی رہا کرنے کی
منظور ی دے چکے ہیں ، ان میں پاکستانی قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ بھی شامل ہے
لیکن عافیہ چونکہ پاکستانی شہری ہے اس لئے قوانین کا تقاضہ ہے کہ پاکستان
کے صدر یا وزیر اعظم اس معاملے پر امریکی صدر کو تحریر ی طور پر خط میں
مطالبہ کریں کہ عافیہ کو پاکستان واپس بھیجا جائے ۔ لیکن نہ جانے کیا
وجوہات ہیں کہ پاکستان کے ارباب اختیار عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے امریکہ
کو خط لکھنے میں تاخیر کررہے ہیں ، اس کی وجہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی
سے مشروط قرار دی جا رہی ہے ، کیونکہ اس نے سعودی عرب کے شہری اسامہ بن
لادن کی موجودگی کی مخبری کی تھی ، پاکستانی اداروں نے ڈاکٹر شکیل آفریدی
پر جو بھی مقدمات بنائے ، اس کا ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے کیا واسطہ؟۔ امام
کعبہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ سعودی شہری نے روس کے خلاف امریکہ کی ایما
پر افغانستان میں جہاد کیا تھا، پھر اس نے جو بھی راہ اختیار کی ، تو اس سے
بھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا کیا تعلق تھا ۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر آج تک دہشت
گردی یا القاعدہ سے تعلق ہونے کا الزام ثابت نہیں کیا جاسکا ، یہ پاکستان
کی عدالتیں نہیں ہیں کہ جہاں شواہد گم اور گواہ مار دیئے جاتے ہیں ، امریکہ
کا قانون ، جسے اپنے انصاف پر بڑا ناز ہے ، اس ملک کی عدالت نے ڈاکٹر عافیہ
صدیقی کے ساتھ کیا کیا ، ظلم نہیں کئے گئے ، لیکن اسلامی ممالک اپنے اپنے
مملکتوں میں اسی امریکی حکومت کی جانب سے مختلف سیاسی چالوں کا شکار ہوکر
دست و گریبان ہیں۔ امام کعبہ ، آپ اس وقت ایک اہم مذہبی شخصیت ہیں ، جن کا
کہا ، پاکستانی حکومت بھی سنتی ہے اور آل سعود بھی ، امریکہ بھی اور دنیا
کا ہر ملک آپ کے منہ سے نکلے الفاظوں کی اہمیت کو سمجھتا ہے۔ کیا آپ بھی
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیلئے حکومت پاکستان سے نہیں کہہ سکتے۔
امریکی حکومت کے صدر بارک اوبامہ اپنی مدت صدارت کے آخر میں اپنے اختیارات
کے تحت 1000قیدیوں کو معافی دے چکے ہیں ، ان میں 350قیدی خواتین بھی شامل
ہیں جن کو مقدمات سے بری کرکے آزادی دے دی گئی ہے ۔اگر مسلم امہ کے امام
کعبہ ہونے کی حیثیت سے آپ پاکستانی حکومت کے ارباب و اختیار کو خواب غفلت
سے اٹھانے میں مدد کریں تو ایک ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی سے ان کے بچوں
کو اپنی ماں کی گود مل سکے گی ، مسلم امہ کے اتحاد کا اہم پیغام پوری دنیا
میں جائے گا۔آپ کی ہر ہدایت دل پر اثر کرے گی ، جب امت مسلمہ کو درپیش
مسائل میں اُن معاملات پر بھی لب کشائی کریں جو پوری دنیا میں سنجیدگی کے
ساتھ اٹھایا جا چکا ہے ۔بقول والدہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی "ڈیڑھ سال سے زائد
عرصہ پہلے جب میری عافیہ سے فون پر گفتگو ہوئی تھی تو اس نے مجھے بتایا تھا
کہ ’’ رسول اﷲ ﷺ میرے خواب میں آئے تھے اور کہا تھا کہ بیٹی تیری آزمائش کا
وقت گذر گیا ، اب امت کی آزمائش کا وقت ہے‘‘۔ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی صرف
کسی کا انفرادی مسئلہ نہیں ، یہ پوری پاکستانی قوم کا معاملہ اور مطالبہ ہے
کہ ڈاکٹر عافیہ کو باعزت طریقے سے وطن واپس لایا جائے ۔ ان 14سالوں میں
جنرل پرویز مشرف ، میر ظفر اﷲ جمالی ، شوکت عزیز ، نگران وزیر اعظم میاں
محمد سومرو ، یوسف رضا گیلانی ، راجہ پرویز اشرف کی حکومتیں گزر چکی ہیں ۔
افتخار احمد چوہدری ، تصدق حسین جیلانی ، وقار الملک ، انور ظہیر جمالی
جیسے جید چیف جسٹس اپنی مدت پوری کرگئے ۔ مسلم امہ کو شام ، عراق ، لیبیا ،
مصر، یمن ، افریقہ، صومالیہ، برما ، بھارت اور ترکی سمیت یورپی ممالک میں
مسائل درپیش ہیں ۔امام کعبہ محترم جناب امام کعبہ الشیخ عبدالرحمان السدیس
سے ہم سب مسلم پاکستانیوں کی درد مندانہ اپیل ہے کہ تمام اسلامی ممالک
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے اپنا مشترکہ کردار ادا کریں ، جناب امام
کعبہ الشیخ عبدالرحمان السدیس سے اپیل ہے کہ پاکستان کی حکومت سے کہا جائے
کہ وہ امریکہ کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے خط لکھنے میں سستی ختم
کرے۔امام کعبہ الشیخ عبدالرحمان السدیس سے اپیل ہے کہ وہ خادم الحرمین و
شریفین سے ہماری آواز پہنچائیں کہ وہ امریکہ پر دباؤ ڈالیں کہ مسلم قوم کی
بیٹی کو فی الفور رہا کرے۔پاکستانی حکومت سے بھی ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ
اپنے وعدے پر عمل کرے اور امریکہ کو خط لکھے۔والدہ ڈاکٹر عافیہ ، ہم جیسے
کمزور لکھاریوں کی آواز نقار خانے میں طوطی کی طرح ہے ، میں اپنے قلم کا حق
ادا نہیں کرسکتا ، لیکن اپنی بہن کی رہائی کیلئے اپنا فرض ضرور ادا کرتا
رہوں گا۔ |