مسلم ممالک میں اتفاق و اتحاد ،وقت کی ضرورت
(Rana Aijaz Hussain, Multan)
رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل
ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسیٰ ان دنوں پاکستان کے دورے پر ہیں ۔ انہوں
نے یہاں صدرمملکت ممنون حسین ، وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف،
ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدری کے علاوہ سعودی عرب، قطر، اومان،
متحدہ عرب امارات اور دیگر مسلم ممالک کے سفیروں ، سینیٹر علامہ ساجد میر،
سینیٹر مشاہد حسین سید، وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سیکرٹری جنرل قاری
حنیف جالندھری سمیت مختلف سیاسی و سماجی شخصیات اور جید علماء کرام سے
ملاقاتوں میں کہا ہے کہ دہشت گردی اور انتہاء پسندی کسی ایک ملک و قوم کا
نہیں بلکہ عالمگیر مسئلہ ہے ، دہشت گردی کا اسلام اور مسلمانوں سے کوئی
تعلق نہیں، کسی بھی صورت دہشت گردی کا اسلام سے تعلق نہ جوڑا جائے۔ رابطہ
عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل نے کہا معاشرے کو انتشار اور افراتفری سے
بچانے کے لئے علماء کا اہم ترین کردار ہے، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے
خلاف فکری تحریک کے لئے پاکستان کے علماء کرام تعاون کریں۔ انہوں نے پرامن
معاشرے کی تشکیل میں پاکستان کی دینی جماعتوں کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے
کہا ہے دینی طبقہ میں تعاون کی سازگار فضا کے لئے کوششوں کو قدر کی نگاہ سے
دیکھتے ہیں، پاکستان کے علماء حسین گلدستہ ہیں جو معاشرے میں خوشبو پھیلا
رہے ہیں۔ پاکستان کے علماء معاشرے کو درست سمت پر رکھنے کے لئے اہم کردار
ادا کرسکتے ہیں۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف اصلاح احوال کے لئے
علماء آگے بڑھیں، رابطہ عالم اسلامی ان کے ساتھ بھرپور تعاون کرے گی۔ ہم
مذہبی منافقت ،فرقہ واریت،شدت پسندی اور انتہاپسندی جیسے عوامل سے چھٹکارا
حاصل کرکے اعتدال اور امن پسندی کا درس دے کرکامیاب ہوسکتے ہیں۔ آج مسلم
ممالک کو امن و سلامتی کے معاملے پر اہم چیلنجز کا سامنا ہے جو اس بات کا
متقاضی ہے ہم اپنے معمولی اختلافات کو فراموش کردیں اور امہ کے وسیع تر
مفاد میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کو اہمیت دیں۔ انہوں نے کہا وہ مسلم
ممالک کو قریب لانے کے لئے کردار ادا کررہے ہیں اور چاہتے ہیں کشیدگی ختم
ہو اور ہم آہنگی بڑھے۔
بلاشبہ رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسی
نے درست فرمایا اسلام امن اور آشتی کا مذہب ہے۔ اسلام کے لغوی معنی ہی امن
اور سلامتی کے ہیں۔ اس دین مبین کی تعلیمات کا مرکز اور محور امن کا قیام
اور انسانیت کی فلاح و بہبود ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے اپنی نرم
اور اخلاق والی زبان سے نہ صرف مسلمانوں میں تبلیغ کی بلکہ کبھی کسی دشمن
کو بھی گزند نہیں پہنچائی۔ لیکن ماضی میں اسلام دشمن سازشی عناصر نے کچھ
نام نہاد مسلمانوں کو آلہ کار بنا کر امت مسلمہ کو کمزور اور اسلام کو
بدنام کرنے کی کوششیں کی ، دہشت گردی اور شدت پسندی کو اسلام اور مسلمانوں
سے جوڑا جاتا رہا، مسلمانوں اور اسلام کے خلاف دہشتگردی کی جاتی رہی اور
انہی کو ہی دہشتگرد قرار دیا جاتا رہا۔ حالانکہ مسلمانوں پر دہشتگردی کے
الزامات لگانے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام پرامن دین ہے۔ سعودی عرب
اور رابطہ عالم اسلامی نے مسلم ممالک کو اکٹھا کرنے کا جو منصوبہ بنایا ہے
وہ لائق تحسین اور ہر مسلمان کے لئے قابل احترام ہے ، کیونکہ سعودی عرب
عالم اسلام کا روحانی مرکز ہے اس کے تحفظ و سلامتی کیلئے سب مسلمان ایک ہیں،
20 کروڑ پاکستانیوں کا دل سعودی عرب کے ساتھ دھڑکتاہے۔رابطہ عالم اسلامی
امت مسلمہ کو متحدکرنے اور اسلام کی ترویج کے لیے بنیادی کرداراداکرسکتاہے۔
دنیا بھر کے چیلنجوں سے نبٹنے کے لئے اتحاد امت ہی مؤثر ہتھیار ہے،جس کے
ذریعے سے مسلم امہ کے سماجی ، معاشی اور اقتصادی حالات کو تبدیل کیاجاسکتا
ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ مسلم ممالک میں دوریاں ختم کرکے، اور ایران و سعودی
عرب میں ثالثی کرکے پورے عالم اسلام کو متحد کیا جا ئے ۔
آج آپس میں اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے مسلمان ممالک بہت سے مسائل سے دوچار
ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں سب سے زیادہ زور اتفاق و اتحاد پر دیا گیا ہے۔ آپس
میں محبت ،اخوت، بھائی چارہ، ایمان واتحاداور یقین مسلمانوں کا موٹو ہوتا
ہے۔آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے حجتہ الوداع میں حکم فرمایا تھا ’’ دیکھو !
باہمی اختلاف میں نہ پڑنا۔’’ قرآن کریم میں اﷲ رب العزت کا حکم ہے ’’
ولاتفرقوا’’ ’’اختلاف ہرگز ہرگز نہ کرو۔’’ تاریخ اٹھا کر دیکھیں اختلاف ہی
کی وجہ سے قوموں اور ملکوں کو بڑے بڑے نقصان اٹھانا پڑے ہیں۔ اختلاف ہی کی
وجہ سے مسلمان ممالک پستی اور ذلت کا شکار ہیں۔ غربت، مہنگائی، بدامنی،
لاقانونیت ، بے روز گاری، جہالت، انتقام، لوٹ مار، ڈاکے، اغوا، قتل و غارت
جیسے موذی امراض مسلمانوں میں باہمی اختلافات ہی کا نتیجہ ہیں۔ جبکہ اس میں
کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کو پست اور منقسم کرنے میں چند عالمی طاقتوں کے
سامراجی ذہنیت ، چالبازیاں، اور پوری دنیا پر حکمرانی کا خواب ہے، اس کے
لئے داعش اسلام کے چہرے کو مسخ کرکے پیش کر رہی ہے، مذہبی فرقوں کی بنیاد
پر ملکوں کی درجہ بندی کر کے فوجی اتحاد بنائے جا رہے ہیں۔ ایک طرف سازشی
ممالک ہیں جوعالم اسلام کو کسی صورت متحد نہیں دیکھنا چاہتے ،اور اپنے
ایجنڈے کے تحت عالم اسلام کو تقسیم در تقسیم کرتے چلے آرہے ہیں۔ دوسری طرف
عالم اسلام کے ممالک اور ان کے حکمرانوں میں اتحاد نہ ہونے کے برابر ہے۔
کسی بھی ملک کی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی حریف ہیں، کہیں حزب اقتدار اور
اختلاف میں ذاتی دشمنیاں اور عناد ہیں ، تو کہیں دینی اور مذہبی جماعتوں ،
اداروں اور رہنماؤں میں اختلافات ہیں۔ حالانکہ پوری دنیا میں مسلمان سب سے
زیادہ ہیں۔ دنیا کے 192 ممالک میں سے 58 ممالک مسلمان ہیں، اور دنیا کے
معدنی ذخائر میں 75 فیصد کے مالک ہیں۔ اگر ہمارے پاس کچھ نہیں ہے تو باہمی
اتحاد نہیں ہے۔ اور اتفاق ، اتحاد ہی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ہم بہت
طاقتور ہوسکتے ہیں، بشرطیہ باہمی اختلافات بھلا کر متحد ہوں اور عالم اسلام
کے خلاف سازشیں کرنے والوں کو بے نقاب کرنے اور ان سے نجات پانے کی کوشش
کریں ۔
|
|