غیر قانونی دنگل

 اخبار میں خبر تصویر سمیت شائع ہوئی ہے، تصویر کو دیکھ اور خبر کو پڑھ کر میں سوچوں کے دریا میں غوطہ زن ہو گیا، کئی نکات میرے ذہن میں گردش کرنے لگے، پہلے خبر پر ایک سرسری نگاہ ڈالتے ہیں، ’’صادق آباد میں کتوں کا غیر قانونی دنگل، لاکھوں کا جوا‘‘۔ تفصیل میں بتایا گیا ہے کہ لوگ تصاویر اور ویڈیوز بناتے رہے، کئی کتے شدید زخمی ہوگئے اور کتوں کے مالکان اور جواریوں میں بعض مراحل پر لڑائی ہوتے ہوتے رہ گئی۔ غیر قانونی کے الفاظ سے ذہن میں سب سے پہلا تاثر یہی ابھرتا ہے کہ کتوں کا دنگل ’’قانونی ‘‘ بھی ہوتا ہوگا، زیر نظر دنگل قانونی نہیں تھا، ممکن ہے اس کے لئے مقامی انتظامیہ سے اجازت نامہ لینا درکار ہوتا ہو۔ جب اجازت نامہ کی کہانی شروع ہوتی ہے تو بات بہت آگے تک بڑھ جاتی ہے، کیونکہ اس میں پھر کسی ایک محکمے کا عمل دخل نہیں رہتا، بلکہ بہت سے ادارے اپنا حصہ ملاتے ہیں، بعض اوقات یہ معاملہ شیطان کی آنت کی طرح طویل ہو جاتا ہے اور ختم ہونے کا نام نہیں لیتا اور اجازت نامہ حاصل کرنے والا فرد آئندہ کے لئے ایسے کسی بھی کام سے توبہ تائب ہو جاتا ہے۔ (یہ ضروری نہیں کہ اجازت نامہ کتوں کے دنگل کو قانونی بنانے کے لئے ہی لیا جاتا ہے، بلکہ آج کل تو کوئی بھی تقریب منعقد کرنا مقصود ہو جس میں خواہ صرف انسان ہی مدعو ہوتے ہوں، اور تقریب خواہ کس قدر تعمیری اور مثبت ہی کیوں نہ ہو، اجازت نامہ ضروری ہے )

اگر اجازت نامہ مل جائے تو یہ وضاحت موجود نہیں ہے کہ آیا کتوں کے دنگل کی اجازت ہے یا ساتھ ہی جواریوں کو بھی اپنے دھندے کی اجازت مرحمت فرما دی گئی ہے۔ یا پھر دنگل کے قانون کا لبادہ اوڑھ لینے کے بعد جواری بھی قانون کے سایہ میں آ جاتے ہیں،کیونکہ عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ شہروں میں جن سرکسوں، موت کے کنوؤں اور اسی قسم کی دیگر سرگرمیوں کے لئے انتظامیہ سے اجازت نامہ لیا جاتاہے، وہاں بھی جواری سرعام ہی اپنا کاروبار کرتے ہیں، اور علاقے کی پولیس وغیرہ کو اس کا مناسب (طے شدہ) حصہ دیا جاتا ہے، یوں ان کا کام ’قانونی‘ ہو جاتا ہے۔ خبر نگار نے اپنی خبر کو مزید پرُ اثر بنانے کے لئے دو مزید دنگلوں کا حوالہ بھی دیا ہے، کہ فلاں علاقہ میں اونٹوں کا ’غیرقانونی‘ دنگل بھی ہوا، وہاں بھی جواریوں نے سٹہ بازی کا بازار گرم رکھا اور مزید یہ کہ فلاں جگہ مرغوں کی غیر قانونی لڑائی کا انعقاد کروایا گیا، یہ سب کچھ پولیس کی ملی بھگت سے ممکن ہوا، یعنی یہ ’’دنگل‘‘ قانونی ہو سکتے تھے، مگر نہ ہوئے۔ دنگل ایک صحت مندانہ سرگرمی ہے، اگر یہ کتوں کا دنگل بھی ہو تو اس کے قواعد وضوابط تو ضرور بنائے گئے ہونگے، یہ الگ بات ہے کہ کتوں کی لڑائی کو دنگل کا نام دینا بھی عجیب ہی لگتا ہے، بہرحال اسے دنگل کہیں یا لڑائی ، جب کتے باہم گتھم گتھا ہونگے تو وہ اپنی فطرت کے مطابق ایک دوسرے کو کاٹیں گے، ایسا کرنے سے یقینا وہ زخمی بھی ہونگے۔ ہمت ہے ان لوگوں کی جو اِ ن مناظر کو دیکھتے، فلمبند کرتے اور ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

دنگل تو انسانوں کے بھی ہوتے ہیں، دنیا میں یہ کھیل بہت پسند کیا جاتا ہے، مگر جب کبھی یہ بھی ’’غیر قانونی‘‘ ہو جائے تو سارے ضابطے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے انسان کو یہ برتری حاصل ہے کہ ایک تو وہ اکثر جانوروں کے دنگل کروانے کی استطاعت رکھتا ہے، اس کی دوسری برتری یہ ہے کہ وہ اپنے دنگل میں وہ تمام داؤ پیچ استعمال کر سکتا ہے جو دوسرے جانور کرتے ہیں، وہ مخالف کو بچھاڑنے کے لئے لات بھی مار سکتا ہے، سینگ مارنے کی کوشش بھی کرتا ہے، مگر حسنِ اتفاق سے وہ اس نعمت سے محروم ہے، ورنہ وہ تمام مخالفین کو سینگوں پر ہی اٹھائے رکھتا۔ اگرچہ وہ سینگ نہیں رکھتا، مگر سینگوں والا محاورہ حضرت انسان کے ساتھ چمٹا ہوا ہے، دوسروں سے الجھنے والے کو یہی کہا جاتا ہے کہ وہ دوسروں سے سینگ پھنسا رہا ہے، خیر وہ انسان ہے کوئی بھینسا تو ہے نہیں۔ غیر قانونی دنگل کی اہم خبر یہ بھی ہے کہ کتے مالکان اور جواری مختلف مراحل میں لڑتے لڑتے رہ گئے، اگر ان کی باہم لڑائی ہو جاتی تو منظر کیسا ہوتا، اب کتوں کی لڑائی کی وجہ سے لڑنے والے انسانوں کی لڑائی کے منظر کو تصور کی آنکھ سے تو دیکھا جاسکتا ہے، سو قارئین اپنے اپنے نکتہ نگاہ سے منظر کشی کر سکتے ہیں۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 427422 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.