شادی ایک ایسا لڈو ہے کھانے والا بھی پچھتا
رہا ہے اور نہ کھانے والا بھی پچھتا رہا ہے،شادی کے بعد ایک صنف نازک مرد
کی زندگی میں آ جاتی ہے شروع شروع میں تو سب بہت اچھا لگتا ہے لیکن جیسے
جیسے وقت گذرتا ہے ،مسائل بڑھتے ہیں تو اب شوہر اُن مسئلوں کو حل کرنے کی
کوشش کرتا ہے اور بیوی اُن مسئلوں کو حل کرنے کا ذور دیتی ہے اس کے لئے
لڑائی جھگڑے بھی ہوتے ہیں اور بیچارا شوہر بولتی ہوئی بیوی کی طرف دیکھ کر
یہی سوچتا ہے ’’کے یہ تھا میرا خواب‘‘اب شوہر خاموش رہتا ہے بیوی بولتی
رہتی ہے آخر میں بیوی کی طرف سے خطاب مل جاتا ہے ’’گونگا بدمعاش‘‘یہ بیچارے
شوہر کی قسمت ہے کے بولے تو ’’بدمعاش‘‘نہ بولے تو ’’گونگا بد معاش‘‘بیوی
کہتی ہے آپ کی خاموشی کی وجہ سے جھگڑے بڑھ جاتے ہیں ،اس کا مطلب ہے کے شوہر
بھی چیخے اور بیوی بھی چیخے چار محلے روشن ہوں تو پھر لڑائی ختم ہو گی!
مجھ کو ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے بیان کئے دیتا ہوں کے ایک دن ’’شوہر بیمار
ہو گیا بیوی نے کہا چلیں داکٹر کے پاس ۔شوہر نے کہا جانوروں کے ڈاکٹروں کے
پاس لے کر جانا۔بیوی نے حیرت سے کہا وہ کیوں، شوہر نے کہا اور نہیں تو کیا
(مرغے کی طرح صبح اُٹھ جاتا ہوں ،گھوڑے کی طرح آفس جاتا ہوں،گدھوں کی طرح
آفس میں کام کرتا ہوں ،گھر آکر طوطے کی طرح تمہاری جی حضوری کرتا ہوں،بلی
کی طرح بچے پالتا ہوں،بکرے کی طرح شام کو سبزی کھاتا ہوں اور رات کو بھینس
کے ساتھ سو جاتا ہوں اب تم ہی بتاؤ مجھ میں کون سی انسانوں والی بات ہے جو
میں انسانوں کے ڈاکٹروں کو جاؤں)
شادی سے پہلے انسان ،شادی کے بعد حالات انسان کو جانور بنا دیتے ہیں۔
یہ میرے آرٹیکل کا نتیجہ ہے کے حالات جاتنے ہیں کیوں خراب ہوتے ہیں کیوں کے
ہم ایک دوسرے کا خیال نہیں رکھتے ،باہر والوں کو چھوڑیں ہر خاندان صرف اپنے
خاندان کے مسئلے حل کر لے تو پورا معاشرہ ٹھیک ہو جائے گا غربت و مفلسی کسی
بھی انسان کو جانور بننے پر مجبور نہیں کرے گی،ہم دوسروں کے گریبانوں میں
جھانکتے ہیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی ہمت نہیں ہے،دوسرے کے خاندان کی
فکر کرتے ہیں اپنے خاندان کے غریب اور ضرورت مند بھول جاتے ہیں بے شک ایسے
لوگ اﷲ کی بارگاہ میں جواب دہ ہیں کیوں کے رسول ؐ نے بھی جب دین کا آغاز
کیا تو حکم ہوا ’’پہلے اپنے خاندان والوں کو تبلیغ کریں پھر دوسروں کو
کریں‘‘یعنی پہلے اپنے پھر پرائے۔ |