تھانہ کلچر

میرے سامنے اپنے وقت کا مشہور ظالم سفاک تھانیدار بے بسی کی تصویر بنا بیٹھا تھا جب اِس کی رگوں میں جوان خو ن دوڑتا تھا تو یہ کہتا تھا اِس شہر کا واحد حکمران میں ہی ہوں لوگوں کی عزت بے عزتی میرے دم سے ہے جسے چاہوں عزت دوں جس کو چاہوں اُس کی زندگی اجیرن کردوں میرے جیسا کو ئی نہیں یہ خود کو کنگ میکر اور طاقت کا پہا ڑ سمجھتا تھا اور آج جب یہ کار سے نکل کر میری طرف آرہا تھا تو دوبندوں نے اِس کے فالج زدہ جسم جو سہا را دیا ہوا تھا اِس کی ٹانگیں اِس کا وزن اٹھا نے کی بجا ئے زمین پر گھسٹتی ہو ئی آرہی تھیں طاقت کے پہاڑ کی آج یہ اوقات تھی کہ اپنا جسم ہی نہیں سنبھالا جا رہا تھا دوسروں پر ظلم کرنے والا آج خود بے بسی کا مجسمہ بنا ہوا تھا اِس کے چہرے پر جہاں جوانی اور سرخی کے سورج روشن رہتے تھے آج ویرانی اور سیا ہ رات نے قبضہ جما رکھا تھا آنکھوں اور چہرے پر چھا ئی ویرانی اِس کے چہرے اور جسم کو کھنڈر بنا چکی تھی طاقت اور جوانی کب کی رخصت ہو چکی تھی اب تو کمزوری بیماری اور بڑھاپے کا قبضہ تھا آج تو اِس کے چہرے پر نرمی کے تاثرات تھے جوانی میں ہر وقت اِس کے چہرے پر غرور اور ظلم کے شعلے رقص کر تے تھے اِس ظالم کے ساتھ آئے شخص نے جب بتا یا کہ اپنے زمانے کا مشہور و معروف نا می گرامی تھا نیدار ہے تو میرے دماغ میں کئی سال پہلے کا وہ تھا نہ تھانیدار اور ظالمانہ تھا نہ کلچر آگیا ۔ جب اِس تھانیدار کے اقتدار کا سورج سوا نیزے پر تھا اقتدار اور جوانی نے اِس کو پاگل وحشی بنا کر رکھ دیا تھا اپنی خو فناک شہرت کو قائم اور بڑھانے کے لیے یہ بڑے سے بڑا ظلم کر نے سے بھی نہیں گھبراتا تھا مجھے آج بھی و ہ دن یا د تھا جب میں کسی دوست کی مدد کے لیے اِس کے تھا نے میں FIRکی نقل لینے گیا تھا میں اور میرا دوست کسی بڑے پو لیس افسر کا فون کرا کر گئے تھے جب ہم تھا نے پہنچے تو SHOصاحب تھانے میں نہیں تھے ہمیں کہا گیا کہ تھانیدار صاحب گشت پر گئے ہیں تھا نے میں مو جود عملہ بھو کے خونخوار بھیڑیوں کی طرح منہ کھولے بیٹھا تھا کہ کو نسی مرغی کس طرح ذبح کر نی ہے کسی مرغی سے پیسے کسی سے چائے مٹھا ئی کسی سے کولڈ ڈرنکس منگوائے جا رہے تھے کسی سے مو با ئل فون میں بیلنس کی ڈیمانڈ جا ری تھی ہر آنے والے سائل کو کس طرح لو ٹنا ہے کتنا لو ٹنا ہے یہ عمل انتہا ئی بے دردی سے جا ری تھا ۔ تھانے کا تما م عملہ بے دردی بے رحمی سے لو ٹ مار کر رہا تھا۔ ہم مجبورا ً تھا نیدار صاحب کا انتظار کر رہے تھے ہمیں انتظار کو تقریبا ً تین گھنٹے گزر گئے تو تھانے کے پچھلے حصے سے تھانیدار سر پر خضاب لگا ئے بڑی توند کے ساتھ نمو دار ہو ئے پیٹ اتنا پھو لا ہوا تھا کہ جیسے ابھی پھٹ جا ئے گا تھانیدار صاحب نے آتے ہی دونوجوان لڑکوں کو بری طرح مارنا پیٹنا شروع کر دیا وہ وحشیانہ انداز سے لاتوں گھونسوں سے نوجوان نازک سے لڑکوں کو مار رہا تھا کہ تمہا ری ایسی کی تیسی تم مجھے جانتے نہیں تم کو جرات کیسے ہو ئی میں تم کو زندہ نہیں چھوڑوں گا میں ذبح کر کے رکھ دوں گا وہ دونوں لڑکوں کو اس ظالمانہ طریقے سے مار رہا تھا جیسے اُن کی ہڈیاں توڑ کر رکھ دے گا اُن بیچاروں کو اتنا مارا کہ ان کے چہرے لہولہان ہو گئے بچوں کے چہروں پر خون دیکھ کر اُن کا بوڑھا باپ تیزی سے آگے بڑھا اور تھانیدار صاحب کے قدموں میں لیٹ گیا سرکار معاف کر دیں خدا کے لیے معاف کر دیں آئندہ یہ غلطی نہیں کر یں گے بچوں کی غلطی صرف اتنی تھی کہ پولیس کے روکنے پر انہوں نے مو ٹر سائیکل نہیں روکی تھی بچے دہا ئی دے رہے تھے کہ ہم نے ٹائم پر اکیڈمی جانا تھا تھانیدار صاحب اِس لیے مار رہے تھے کہ شہر میں اِن کی دہشت پھیل جا ئے اور دوبارہ کو ئی اِن کے یا اِن کے عملے کی حکم عدولی نہ کر سکے بعد میں پتہ چلا کہ اِس طرح مار نے کا مقصد یہ بھی تھا کہ تھانے میں آئے ہو ئے با قی لوگوں پر دہشت پڑ سکے تھانیدار صاحب کے قدموں سے لپٹا ہوا تھا بو ڑھے با پ نے اپنی گھڑی اورپیسے تھانیدار صاحب کو دئیے تو تھانیدار صاحب کا غصہ ٹھنڈا ہوا اب تھانیدار صاحب اپنی کر سی پر جلوہ گر ہو ئے اب ایک اور بوڑھا با پ جو اپنے بیٹے کا کھانا لے کر آیا تھا ڈرتے ڈرتے پیش ہوا کہ اُس کی ملا قات اُس کے بیٹے سے کرا دی جا ئے اور اُس کا کھانا بھی دیدیا جائے‘ایس ایچ اوصاحب نے دھا ڑتے ہوئے کہا ہمیں پیٹ نہیں لگے ہمیں کھا نا کو ن کھلا ئے گا ۔ بوڑھے با پ نے فریاد کی جنا ب آپ بھی کھا لیں تو تھانے دار صاحب نے حکم جا ری کیا جاؤ فلاں ہو ٹل سے ہما رے لیے مٹن کڑاہی بنوا کر لاؤ بو ڑھا با پ لرزتا کانپتا چلا گیا اِس دوران دوسری مرغی کو فروٹ لا نے بھیج دیا کسی کو سٹیشنری کسی سے کیا کسی سے کیا کا فی دیر بعد بوڑھا باپ مٹن کڑاھی کے ساتھ واپس آیا تو دوسرا حکم یہ جاری کیا بابا جی کو لڈ ڈرنکس اور روٹیوں کے بنا کیسے کھا ئیں گے اب بوڑھا باپ روٹیاں اور کو لڈ ڈرنکس لینے چلا گیا جب بوڑھا باپ واپس آیا تو یہ مٹن کڑاہی پر ٹوٹ پڑا کھا نے کھا نے اگلا آرڈر یہ جا ری کیا کہ فلاں مٹھا ئی کی شاپ سے یہ مٹھا ئی لے کر آؤں بوڑھے نے ہا تھ جو ڑتے ہو ئے کہا جناب آپ تو اب کھا رہے ہیں اب مجھے میرے بیٹے سے ملنے دیا جا ئے تا کہ میں اُس کو کھا نا دے سکوں لیکن اِس فرعون نے دھاڑتے ہو ئے کہا اے با بے جا مٹھا ئی لے کر آورنہ تیری ملا قات نہیں ہو گی شدت کرب اور غم کی وجہ سے بو ڑھے باپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی مو سلا دھا ر با رش جا ری تھی بیچارے با پ کا بس نہیں چل رہا تھا مجبور باپ بیٹے کی محبت میں اِس کی نو کروں کی طرح خدمت کر رہا تھا یہ فرعون بنا آرڈر پر آرڈر دے رہا تھا اور بے چارہ مظلوم باپ اِس کا ہر ظالمانہ حکم ماننے پر مجبور تھا اور یہ ظالم ہم سب کو اپنی رعایا اور کیڑے مکو ڑے سمجھ کر مسندِ اقتدار پر فرعون بنا بیٹھا تھا یہ ہم سب کو مجرم سمجھا بیٹھا تھا مذہب اخلا قیات شرافت وضع داری ایمانداری محبت پیار خلوص خدمت خلق اﷲ رسول کا خو ف اِس کے قریب سے نہ گزرے تھے یہ اپنی طاقت اور وحشت پر نا چ رہا تھا اور مظلوموں کو نچا رہا تھا آخر بوڑھا با پ اِس ظالم کی من پسند مٹھا ئی لے کر آیا تو اِس نے اُس پر تمسخرانہ نظر ڈالی اور کہا جا اپنے حرامی بیٹے کو کھانا کھلا دے اس کے ساتھ اور بھی گالیاں دیں گالیاں سن کر با پ تڑپ رہا تھا لیکن خو ف سے بو ل نہیں سکتا تھا بوڑھا باپ چلا گیا تو میں اور میرا دوست اس کے دربار میں پیش ہو گئے اِس نے قہر آلودہ نظروں سے ہما ری طرف دیکھا کہ ہم کو ن گستا خ ہیں جو اِس کی اجا زت کے بغیر اِس کے سامنے آکر بیٹھ گئے یہ آرام سے مٹھا ئی اور کو لڈ ڈرنکس سے لطف اندوز ہو تا رہا ۔ فارغ ہو نے کے بعد اِس نے عجیب حرکت کی ہما ری طرف متوجہ ہو ئے بغیر سامنے پڑے ویزیٹنگ کا رڈ پڑھنے شروع کر دئیے کا رڈ دیکھنے کے ساتھ اپنے عملے سے با تیں اور احکامات بھی صادر کر رہا تھا ظالم جان بو جھ کر ہمیں نظر انداز کر رہا تھا کچھ دیر تک تو ہم اِس کی تو ہین آمیز حرکتیں برداشت کر تے رہے لیکن جب ہما را پیما نہ صبر چھلک پڑا تو میں نے ہا تھ بڑھا کر اِس کے ہا تھ سے ویزیٹنگ کا رڈ چھین لیے اور کہا جناب ہم یہاں تمہا ری منحوس شکل دیکھنے نہیں آئے میری اِس حرکت سے غصے سے پا گل ہو گیا ساتھ ہی میں نے پو لیس کے اعلی آفیسر کا نمبر ملا کر اِس کو کہا اپنے با پ سے بات کرو فون سنتے ہی چوہا بن گیا اوجناب آپ نے بتایا کیوں نہیں جناب حکم اب اِس کے یقینی چہرے پر خو شامد آگئی تھی تھا نیدار صاحب اِس ظلم سے باز آجائیں روز محشر بھی برپا ہو نا ہے اب یہ جناب جناب تعمیل ہو گئی کر رہا تھا اور پھر ہم واپس آگئے اور آج کتنے سالوں بعد یہ بے بسی کی تصویر بنا میرے سامنے بیٹھا تھا خدا کی لا ٹھی حرکت میں آچکی تھی ۔
Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 735902 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.