چلیے عوام کے منتخب کردہ ایوان سے ایک اچھی
خبر تو آئی۔ مدت بعد ایسا لگا کہ جنھیں ہم اپنے مسائل کے حل کے لیے ووٹوں
کے ذریعے منتخب کرکے ایوانوں میں بھیجتے ہیں وہ گرانے بچانے کی سیاست، اپنے
استحقاق کی لڑائی اور اپنے وسائل بڑھانے کے ساتھ عوام کے لیے بھی کچھ
کرسکتے ہیں۔ اس مختصر سی تمہید کے بعد آتے ہیں اس اچھی خبر کی طرف، جس کے
اہم ترین نکات یہ ہیں: قومی اسمبلی نے غیرضروری مقدمہ بازی پر جرمانے کا
ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کر لیا ہے۔ وفاقی وزیرقانون زاہد حامد کے
مطابق بل کا اطلاق وفاقی دارالحکومت میں ہوگا۔ مقدمہ ہارنے والی پارٹی
مقدمہ جیتنے والی پارٹی کو مقدمے کی لاگت ادا کرے گی۔ مقدمے کو طویل کرنے
اور غیر ضروری غلطیوں پر بھی جرمانہ عائد کیا جا سکے گا۔ بل کا مقصد
مخالفین کو غیرضروری مقدمات کے ذریعے ہراساں کرنے کی کوشش کو ختم کرنے کے
ساتھ ساتھ مقدمات کی بے جا طوالت کا سدباب کرنا ہے۔ جمعرات کے روز قومی
اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزیر قانون زاہد حامد نے مجموعہ ضابطہ دیوانی
1908 اور مجموعہ ضابطہ فوجداری 1898 میں مزید ترمیم کرنے کے مقدمہ بازی بل
2016 پیش کیا۔ اس موقع پر زاہد حامد نے بل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس بل
کے ذریعے عدالتوں پر بے مقدمات کا بوجھ کم ہو گا۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے
قوانین کے مطابق مقدمہ جیتنے والے فریق کو مقدمے کے اخراجات کی ادائیگی کا
قانون موجود ہے۔ تاہم اب اس میں مزید شقیں ڈالی گئی ہیں، جن کے مطابق مقدمے
کو طویل کرنے اور غیرضروری غلطیوں پر بھی جرمانہ عائد کیا جا سکے گا۔
عدالت ظلم کا شکار ہونے والوں کی آخری امید ہوتی ہے۔ شکایت کسی فرد سے ہو
یا گروہ سے، شکوہ کسی ادارے سے ہو یا ریاست سے، مظلوم شخص دادرسی اور انصاف
کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکٹاتا ہے۔ یہ آخری امید اسے معاشرے، ریاست اور
قوم سے جوڑے رکھتی ہے، یہ آس اسے بے یقینی اور گم راہی کے اندھیروں کی طرف
نہیں جانے دیتی، انصاف ملنے کا یقین اسے باغیانہ رویوں اور مجرمانہ سوچ کا
شکار نہیں ہونے دیتا، لیکن اس کے برعکس ہو تو امید اور یقین کے ساتھ عدل کے
ایوانوں سے مایوس انسان بھی ٹوٹ جاتا ہے اور اس ٹوٹ پھوٹ کے ملبے سے صرف
منفی سوچ جنم لیتی ہے۔
ہمارے مسائل کا ایک اہم بل کہ بنیادی سبب انصاف کا نہ ملنا یا انصاف میں
تاخیر بھی ہے۔ یہ الم ناک واقعہ کچھ دنوں پہلے ہی کا ہے جب عدالت نے ایک
ملزم کی رہائی کا حکم دیا تو پتا چلا کے وہ زندگی کی قید سے ہی رہا ہوچکا
ہے۔ قانون اور انصاف سے مایوسی ہے کہ جب کوئی اہم شخصیت قتل ہوجائے، کسی
مذہبی یا لسانی گروہ کے افراد ظلم کا نشانہ بنیں، کہیں پانی یا بجلی کا
بحران پیدا ہوجائے تو لوگ سڑکوں پر آکر قومی املاک کو نقصان پہنچانا اور
گاڑیاں جلانا شروع کردیتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ قاتل کو سزا ملے گی، ظلم کا
ازالہ ہوگا نہ ان کی خاموش شکایت اور احتجاج پر کوئی کارروائی ہوگی، چناں
وہ اپنے دل کی بھڑاس نکال کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔
ہمارے یہاں مقدمات کی طوالت اور انصاف میں تاخیر لوگوں کی زندگیاں کھاجاتی
ہے۔ جائیداد کے مقدمات ہوں، قتل کے یا دیگر تنازعات، فریقین کی عمریں
عدالتوں کے چکر لگاتے بیت جاتی ہیں اور مقدمات ورثے کی صورت میں اگلی نسلوں
کو منتقل ہوجاتے ہیں۔ جیلوں میں لاکھوں قیدی اپنی پیشیوں کے منتظر ہوتے ہیں،
نہ تو ان کے چالان مکمل کیے جاتے ہیں، نہ ہی انھیں عدالتوں میں پیش کیا
جاتا ہے۔ دوسری طرف جرمانے کی رقم نہ ہونے پر کتنے ہی غریب قیدی جیلوں میں
پڑے سڑتے رہتے ہیں۔ جیل کی یہ زندگی، ظلم کی یہ طوالت، انصاف کی یہ نارسائی
جیل میں جانے والے عام شخص کو مجرم اور مجرم کو بڑے مجرم میں تبدیل کرنے کے
لیے کافی ہے۔
انصاف، قانون، عدالت، کٹہرا، مقدمہ․․․․یہ سب الفاظ یوں تو مجرم، ظالم اور
استحصال کرنے والے کے لیے خوف کی علامت ہونے چاہییں، لیکن بدقسمتی سے ہمارے
ملک میں یہ اصطلاحات عام آدمی کو ڈرا دیتی ہیں۔ یہاں زورآوروں اور دولت
والوں کی مدد کے لیے ہر وقت اور ہر طرح تیار پولیس کے تعاون سے کسی بھی شخص
کو مقدمے میں پھنسا کر برباد کیا جاسکتا ہے۔ کوئی جاگیردار جب چاہے کسی
کسان یا چھوٹے زمیں دار کو کسی حکم عدولی کی بنا پر یا اپنے کسی فائدے کے
لیے مقدمے کے جال میں پھنسا سکتا ہے، کوئی طاقت ور سیاست داں اپنے کم زور
سیاسی مخالف کو جیل کی ہوا کھلا کر اور عدالتوں کے چکر لگواکر مخالفت کی
سزا دے سکتا ہے، پولیس کی وردی میں ملبوس کوئی بادشاہ جب چاہے کسی غریب کی
زندگی کو سلاخوں اور کٹہرے تک محدود کردے۔ دوسری طرف کوئی عام آدمی اپنے
ہونے والے والے ظلم کی تلافی کے لیے نکلتا ہے تو اس کے لیے ایف آئی آر
کٹوانا ہی جوئے شیر لانے کے مترادف قرار پاتا ہے۔ خاص طور پر جب ظلم کرنے
والا فریق کئی صاحب حیثیت ہو تو ایف آئی آر کٹوانا بس ایک خواب ہوتا ہے اور
اس پر اصرار اسے ایک بھیانک خواب بھی بناسکتا ہے۔ اگر خوش قسمتی سے ایف آئی
آر درج ہوجائے تو اگلا مرحلہ وکیلوں کے دام میں پھنسنے کا ہوتا ہے۔ جو رہی
سہی کسر نکال دیتے ہیں۔ اس کے بعد عدالت کے چکر شروع ہوتے ہیں، پیشی پر
پیشی، تاریخ پر تاریخ، کبھی وکیل غائب، کبھی فریق مخالف۔ یوں برسوں گزرنے
کے بعد بھی تلخ تجربے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
اس صورت حال نے عام آدمی کو انصاف کے لیے کوشش کرنے سے مایوس کر رکھا ہے،
جس کے باعث ظلم کے ہاتھ مزید دراز ہوگئے ہیں، استحصال کو کھلی چھوٹ مل گئی
ہے۔ ایسے میں قومی اسمبلی میں پیش کیا جانے والا بل مؤثر قانون بن کر سامنے
آتا ہے اور لوگوں کی انصاف تک رسائی اور انصاف کی جلد فراہمی کو یقینی
بناتا ہے تو یہ حکومت کا ایک ایسا اقدام ہوگا جس کے اثرات زندگی کے ہر شعبے
پر مرتب ہوں گے۔ کاش ہم وہ دن دیکھ سکیں جب مقدمے کے اندراج اور فیصلے کی
گھڑی میں چند روز کا فاصلہ رہ جائے۔ |