آج دنیا میں عجیب نظارہ بن گیاہے ،ہر
کوئی ایک دوسرے پرانگلی اٹھا کر عیب جوئی کر تاہے ،کبھی عام آدمی پر
اورکبھی خاص آدمی ۔اگر کسی کو اعتراض اور تنقید کرنے کیلئے کوئی آدمی نہ
ملے تو مولوی ان کو گاجر سے بھی کم نظر آتاہے۔آج کل سکول و کالجوں میں ،دکانوں
بازاروں میں ،عوام وخواص میں معاشرے کا ہر فرد اہل علم واہل مذہب کو میلی
آنکھوں سے دیکھتاہے ،کوئی اس کو دہشت گرد ،عسکریت پسندتو کوئی ملک کاغدّار
،کوئی ملک کا دغہ باز ،توکوئی ملک کیلئے نقصان دہ ،کوئی ملک کیلئے ناسور ،توکوئی
ملک کیلئے بوجھ ،تو کوئی شرپسند سمجھتے ہیں ۔جس کی وجہ سے آج معاشرہ میں
اہل علم واہل مذہب لوگ سب سے بد تر،گٹھیا اور کم تر سمجھے جاتے ہیں ۔لیکن
حقیقتِ حال اس کے برعکس ہے۔اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو سب سے ذیادہ
ملک وملت کے وفادار اور مخلص یہی لوگ ہیں ۔جس کا اقرار مشرف جیسے جابر،ظالم
اور سفّاک جنرل نے بھی کیا تھا:’’کہ پاکستان کے تمام بڑے عہدوں کو انہی
صوفی ودھاڑی اوراہل مذہب کے حوالے کیاجائے ،یہی لوگ ملک ملّت کے محافظ اور
مخلص ہوتے ہیں ،اور ملک وملت کیلئے سب سے ذیادہ قربانیاں بھی انہی لوگوں نے
دی ہیں ۔
جب ہندوستان میں مسلمانوں پر سفّاکیت،ظلم وجبر،ذیادتی ،ناانصافی ،غدّاری
اور حق تلفی کابازار گرم رہتاتھا،تواس وقت شاعر مشرق علّامہ محمد اقبالؒ نے
الگ مملکت کا نعرۂ حق بلندکیا جو کہ تمام مسلمانوں کا ایک مشترکہ نعرہ تھا
لیکن اظہار نہیں کرسکتے۔شاعرِ مشرق علّامہ محمد اقبالؒ کے نعرے پر تمام
مسلمانوں نے لبّیک کہا،جس میں ہر قسم کی قربانی سے دریغ نہ کرنے پرپرعزم
ہوئے۔تو یہ بات مسّلم ہے کہ کوئی مملکت لازوال قربانیوں کے بغیر حاصل نہیں
کرسکتا۔تو اس مملکت کے حصول کیلئے سب سے ذیادہ انہیں اہل علم اور اہل مذہب
لوگوں نے قربانیاں دیں ۔جب آزادی کیلئے میدان میں اترنا پڑا،تو انہیں اہل
علم لوگوں نے صف اول کے سپاہی بن کر رکنِ رکین کاکردار اداکیا ،جس کے نتیجے
میں چاندی چوک سے لاہور تک سڑک کے دونوں اطراف ہزاروں علمادرختو ں پر پسے
زنداں بنائے گئے۔اگر محمد علی جناح ؒ پاکستان کی آزادی کا مقدّمہ بہادری ،بے
باکی نڈری کے ساتھ لڑتے تھے ۔تو دوسری طرف ان کے شانہ بشانہ اہل علم اور
اہل مذہب میں سے مولانو شبیر احمد عثمانی ؒ بھی تھے ۔جن کی قربانیاں بانیِ
پاکستان سے بھی ذیادہ تھیں۔جس کا اظہار اور اعتراف بانیِ پاکستان نے یوں
کیا : کہ پاکستان کاجھنڈا سب سے پہلے علّامہ شبیر احمدعثمانی ؒ کے دستِ
مبارک سے لہرایا،اور بنگال میں علّامہ ظفر احمد عثمانی ؒ کے دست مبارک پر
پرچم کشائی کی ۔جب پاکستان آزاد ہو اتو 1953 کی تحریک میں بھی انہی اہل
علم و اہل مذہب لوگوں نے قربانیاں دیں ۔جب کہ آج کل پاکستان میں رائج اور
مسلّط قانون ودستور 1973 کا آئین بھی انہی اہل علم اور اہل مذہب(مفتی
محمودؒ،غلام غوث ہزارویؒ،علّامہ یوسف بنوریؒ وغیرہ)کے مرہونِ منّت ہے
،1974 کی تحریک بھی انہی اہل علم واہلِ مذہب نے چلائی۔جنرل مشرف جیسے جابر
وظالم حکمرانوں کا سامناانہی اہل علم واہل مذہب نے کیا۔چین کو سی پیک کا
مشورہ انہی لوگوں نے دیاتھا ۔اگر آج کے پی کے کا ذیادہ تر حصہ سی پیک میں
شامل کیاگیا ہے تو یہ بھی انہی لوگوں کی مرہون منت ہے ۔اگر آج سی پیک
کامیابی سے اپناسفر طے کر رہاہے تو انہی لوگوں کی محنت کا ثمرہ ہے ۔
انہی لوگوں کی ملک وملت کیلئے پیش کی گئی قربانیاں اس ملک کے ساتھ وفاداری
اور اخلاص کو دیکھ کر تمام دشمنانِ ملک وملت نے یہ عزم کررکھا کہ اگرہم نے
کامیاب ہونا ہے تو انہی لوگوں کو بدنام کرنا ہوگا،یا ختم کرنا ہوگا۔جس کی
واضح دلیل یہی ہے کہ آج کل یہی لوگ تمام طاغوتی قوتوں کے ٹارگٹ پر ہیں
:ڈرون میں یہی لوگ شہید ہوں رہے ہیں ،دھماکوں او رحملوں میں یہی لوگ شہید
ہوں رہے ہیں ،بمباری میں انہیں لوگوں کو شہید کررہے ہیں ،آپریشن انہیں
لوگوں پر کی جارہی ہے،پاکستان انہیں لوگوں لوگوں کیلئے تنگ کیا جارہاہے آئی
ڈی پیزیہی لوگ ہوتے جارہے ہیں ۔
لہذا ہو ش کے ناخون لے ،جو حقیقت ہے اس کو حقیقت مانے اوربیان کرے۔اگر کسی
وجہ سے آپ حقیقت کا اظہار نہیں کر سکتے تو کم ازکم حق سے صرف نظر کر کے کذب
اور دجل سے کام نہ لے ،جو دنیا وی اوراخروی اعتبار سے ہم سب کیلئے خسارہ
کاباعث بن سکتاہے۔
|