جو لوگ اپنے وحشی جانوروں کو پَٹے نہیں ڈالیں گے،
یا پھر رسّی نہیں باندھیں گے ، وہ چار سور وپے جرمانہ بھرنے کے لئے تیار ہو
جائیں، یہ پابندی رہائشی آبادیوں پر لاگو ہوگی، اس سلسلے میں پنجاب حکومت
نے مقامی حکومت کے تمام منتخب سربراہان کو ایک مراسلہ جاری کر دیا ہے۔ ایسے
جانوروں کو کھلے ایریاز یا سڑکوں پر کھونٹی یا درختوں سے باندھنے پر انہیں
تحویل میں لیا جاسکتا ہے، مراسلے میں اس قانون پر سختی سے عملدآمد کو بھی
یقینی بنانے پر زور دیا گیا ہے۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ’’وحشی جانوروں‘‘
کے ذیل میں کون کونسے جانور آتے ہیں؟ ممکن ہے مراسلہ انگریزی میں ہو، جسے
میڈیا کی آسانی کے لئے اردو ترجمہ کر کے جاری کیا گیا ہو، اور ترجمہ کرنے
والے صاحب نے وحشی کا لفظ ہی بہتر جانا ہو۔ پہلی نظر میں تو اس ذیل میں صرف
کُتا ہی دکھائی دیتا ہے، کیونکہ عام گلی محلوں میں یہی مخلوق گھروں میں بھی
رکھی جاتی ہے، باہر بھی باندھ دی جاتی ہے، اور بسا اوقات یہ گھر میں رکھنے
یا باہر درخت یا کھونٹی سے باندھنے کی محتاج بھی نہیں ہوتی، یہ آزادی سے
گلیوں محلوں میں پھرتی ہے، درختوں کے نیچے آرام کرتی ہے، پارکوں میں سردیوں
میں دھوپ تاپتی اور گرمیوں میں گہرے سائے سے لطف اندوز ہوتی ہے۔ عام محاورے
میں یہ کُتے آوارہ کہلواتے ہیں، عمومی طور پر بے ضرر ہوتے ہیں، مگر کبھی
ضرر رساں بھی بن جاتے ہیں، ان کی دوسری خامی یہ بھی ہوتی ہے کہ اِ ن سے وفا
کی توقع نہیں ہوتی، جس کی بنا پر کبھی یہ حضرتِ انسان یا اس کے بچے کو کاٹ
بھی لیتے ہیں، ایسے میں حکومت پھر مراسلہ جاری کرتی ہے، جس میں آوارہ کتوں
کو تلف کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔
بات وحشی جانوروں کی ہور ہی تھی، چلی گئی آوارہ کتوں تک۔ اندازہ یہی لگایا
جاسکتا ہے کہ وحشی جانوروں سے مراد کُتے ہی ہیں، کیونکہ دیگر وحشی جانور
گھروں میں رکھنا یا پھر باہر درختوں اور کھونٹیوں سے باندھنا ممکن نہیں۔ جن
گھروں میں یہ وحشی جانور موجود ہیں، ان کے لئے اپنے وحشی جانوروں کے گلے
میں پٹہ ڈالنا کوئی مشکل یا بڑا کام نہیں، مگر گھروں میں کتے پالنے کا شوق
رکھنے والے کبھی ہمسایوں سے بھی ان کے جذبات معلوم کریں، کہ رسی یا زنجیر
سے بندھے ہوئے کتے دن کے مختلف اوقات میں کیسی کیسی آوازیں نکالتے ہیں، اور
کتنی کتنی دیر وہ اس ریاضت میں لگاتے ہیں؟ ان کا کوئی ہمسایہ بیمار ہے، یا
کوئی بچہ سو رہا ہے، یا کوئی طالب علم مطالعہ میں مصروف ہے، کُتے کی چخ چخ
سن کا ان کا کیا حال ہوتا ہے؟ پھر یہی لوگ جب اپنے اس وحشی جانور کو باہر
آؤٹنگ کروانے کے لئے نکلتے ہیں تو قریب سے گزرنے والوں کی کیا حالت ہوتی ہے؟
ویسے یہ وحشی کا لفظ کافی پرانا ہو چکا ہے، پہلے پہل اس نام کی فلمیں بنا
کرتی تھیں، جب ہیرو زیادہ جذباتی ہوتا تھا تو وہ قتل و غارت کے ذریعے کشتوں
کے پشتے لگا دیتا تھا۔ ہوتا اب بھی بہت سی فلموں میں ایسے ہی ہے، مگر اب یہ
ہوتا ہے کہ گنڈاسے کی بجائے کسی جدید بندوق کے ذریعے یہ خدمت سرانجام دی
جاتی ہے، دوسری تبدیلی یہ ہے کہ نئے دور کی فلم میں خواہ وہ کسی طریقے سے
بھی بے شمار بندے مار دے، اسے وحشی کا خطاب کم ہی دیا جاتا ہے۔ کتا شکل سے
کیسا بھی مسکین ہی کیوں نہ ہو، وہ کسی وقت بھی وحشی ہو سکتا ہے، کسی بھی
کتے سے یہ توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ کسی کو بھی کاٹنے کو آسکتا ہے، اس لئے
کسی آوارہ یا پٹے والے کتے کی ظاہری شرافت سے دھوکا کھانے کی ضرورت نہیں۔
اِن وحشی جانوروں پر قابو پانے کے لئے حکومت کو بھر پور مہم چلانے کی ضرورت
ہوگی۔ اس کے دو طریقے بہت آسان ہیں، جو ’وحشی جانور‘ گھروں میں ہیں، ان پر
ٹیکس لگایا جاسکتا ہے، جس گھر میں کوئی وحشی جانور ہو وہ اس کا ماہانہ ٹیکس
ادا کرے (واضح رہے جس جرمانے کا آغاز میں ذکر ہوا ہے، وہ اس کے علاوہ
ہوگا)۔ دوسرا یہ کہ جو وحشی جانور آوارہ ہی پھرتے رہتے ہیں، انہیں پکڑنے
والوں کو انعام واکرام سے نوازا جائے، اس عمل سے کم از کم بے روز گاری میں
کمی واقع ہو جائے گی۔ امید ہے کہ تعلیم یافتہ بے روز گار نوجوان جدید
طریقوں کو آزماتے ہوئے ان جانوروں کو پکڑ لیں گے، جانور بھی نہیں رہیں گے،
کچھ آمدنی بھی حاصل ہو جائے گی۔ |