دورِ حاضر میں جہاد سے متعلق غلط فہمیاں

 جہادایک عبادت کا نام ہے قتل و غارتگری کا نہیں ۔قتال فی سبیل اﷲ جہاد میں بلا شبہ شامل ہے مگر قتال فی سبیل اﷲ کا اعلان( یعنی اعلان جنگ)کرنے کا اختیار ہر مسلمان شہری کو نہیں ہے ۔1948ء یعنی سقوطِ مسجد اقصیٰ کے بعدجہاد ،قتال اور جنگ سے متعلق بعض غلط فہمیاں اس قدر پھیل چکی ہیں کہ اچھے خاصے لکھے پڑھے بھی ’’غیر شعوری‘‘طور پر ان کے شکار ہو جاتے ہیں جس کے اسباب کا تفصیلی ذکر ایک محدود مضمون میں ممکن نہیں ہے البتہ چند ایک کے ذکر کے بغیر تفہیم مسئلہ بھی ممکن نہیں ہے ۔اُمت مسلمہ میں صاحبانِ عزیمت کا معاملہ ہمیشہ روشن رہا ہے یہ طبقہ آخری درجے کے ایثار کا مظاہرا کرتے ہو ئے ’’اسلام کے نام پر‘‘کوئی بھی قربانی دینے کے لئے تیار رہتا ہے ۔جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ حضرات اپنے ہر عمل کو اﷲ تعالیٰ کی رضا کے ساتھ جوڑنے کا مکلف اپنے آپ کو تصور کرتے ہیں اور دین کا اصل تصور بھی یہی ہے کہ مسلمان ہر قول و فعل میں رضائے الہٰی کا طالب ہو ۔یہی حال ان کا جنگ میں بھی ہوتا ہے یہ جنگ بھی نمازوں ہی کی طرح اﷲ کی رضا کے لئے لڑتے ہیں ۔مگر جنگ اور نماز دونوں ایک ہی چیز نہیں ہے نا ہی یہ روزوں اور حج جیسی کوئی عبادت ہے اس لئے کہ نماز سے کسی کی جان نہیں جاتی ہے مگر جنگ سے ایک فرد نہیں ہزاروں اور لاکھوں انسان بہ یک وقت مر سکتے ہیں یہی حال روزوں ،حج اور دوسری عبادات کا بھی ہے ۔لہذا جہادوقتال ایک ایسی حساس اور نازک عبادت ہے جن کے شروع کرنے کا اختیار ہر فرد کو نہیں ہو سکتا ہے ۔ مسئلہ فلسطین اور روس کے خلاف افغان جہاد کے بعد پورے عالم اسلام میں گوریلا جہاد کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ کشمیر، افغانستان، چیچنیا، شام، عراق، صومالیہ، یمن،مصر ،فلپائین اور اب برما میں یہ سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہیں ۔بعض مقامات پر ان چھاپہ مار جنگوں کے متعلق علماء نے فتوے بھی جاری کئے ہیں اور بعض مقامات پر مقامی علماء کے برعکس بیرونی علماء نے ان کے متعلق فتوے جاری کئے ہیں اور بعض مقامات ایسے بھی ہیں جہاں کبھی علماء سے رجوع کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی ہے اور ان علاقوں میں تھوڑا بہت دینی لٹریچر پڑھنے والے حضرات نے قاضیوں اور مفتیوں کے لباس خود ہی زیب تن کر کے ’’جہادِ فی سبیل اﷲ ‘‘کے فتوے جاری کر دئے ۔

پھر معاملہ اس وقت اور گمبھیر ہو جاتا ہے جب ریاستوں کے برعکس یہ کام بعض تحریکیں،تنظیمیں یا افراد ہاتھ میں لیتے ہیں اس لئے کہ جنگ کا آغازکرنا جتنا مشکل ہوتا ہے اسے بھی سو گنا زیادہ دشوار اس کو روک کر بند کرنا ہوتا ہے ۔پھر اگر تمناؤں کے عین مطابق نتائج فلسطین یا کشمیر کی طرح ظاہر ہونا طول کھینچ لے تو مسئلہ نازک ہی نہیں بلکہ وحشت کا روپ دھار لیتا ہے ۔سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جہاد کے آغاز کے لئے مظلومیت ہی کافی ہوتی ہے؟ نہیں بالکل نہیں بلکہ قرآن مقدس نے مظلومین کو ہجرت کی اجازت تو دیدی ہے مگر جنگ چھیڑنے کے لئے ان کے ہمسایہ طاقتوں کو ابھارا ہے جس کی وجہ میرے ناقص فہم کے مطابق صرف یہ ہے کہ دوران جنگ اور ناکامی کی صورت میں ’’بعدِ جنگ‘‘ مظلومین کے لئے تمام تر راستے بند ہو ں گے اور ظالمین انھیں پوری قوت کے ساتھ کچل کر رکھ دیں گے ۔شاید اسی لئے قرآن نے ’’کفو ایدیکم اے مسلمانواپنے ہاتھ روکے رکھو‘‘کہہ کر اپنے آپ کو دعوت تک محدود رکھنے کا حکم دیا ہے ۔صحابہؓ کو نبی کریم ﷺ نے اس پر پورے تیرہ برس تک صبر کرایا اور پھر جب ہجرت کا مرحلہ آیا تو ’’مدینہ طیبہ کی جانب ہجرت‘‘کو میعار اطاعت قرار دیکر اس کی اہمیت اجاگر فرمائی گئی۔ اب حالات بہت حد تک تبدیل ہوچکے ہیں ۔ہجرت دن بہ دن مشکل بنتی جارہی ہے جس کی مثال برمی مسلمانوں کی ہے جنہیں کوئی بھی ملک اپنے ہاں پناہ دینے کے لئے تیار نہیں ہے یا ہندوستانی مسلمانوں کی پچیس کروڑ کی آبادی ہی کو لے لیجئے اگر بالفرض ہندوستان میں جہاد کا آغاز کیا جائے اور وہاں کے مسلمانوں کو ہجرت کرنی پڑے تو کونسا ملک اتنے لوگوں کو پناہ دینے کے لئے تیار ہو جائے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ مظلومین کے بجائے یہ کام ہمسایہ ریاستوں کو کرنے کا حکم دیا جا چکا ہے بلکہ اﷲ تعالیٰ نے انھیں مظلومین کی مدد نہ کرنے پر سخت تنبیہ فرمائی ہے ۔اب اگر مسلمانوں کی مظلومیت ہی جہاد کے اعلان کے لئے شرط ہوتی تو مصر اور ایران میں کوئی مسلمان صحابہؓ کے دور میں نہیں رہتا تھا بلکہ معلوم ہوا کہ جہاد فی سبیل اﷲ کے مقاصد جلیلہ میں ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اﷲ کے بندوں تک اﷲ کا پیغام پہنچاکر دین قائم کیا جائے ۔

جیسا کہ پہلے ہی عرض کیا جا چکا ہے کہ جہاد کا مقصد ایک ایسی پاکیزہ جنگ ہے جو صرف اﷲ کی رضا کے لئے لڑی جائے مگر اس کا آغاز ہر ایرا گیرا نہیں کر سکتا ہے بلکہ اس کا بوجھ خود نبی کریمﷺ نے اٹھا کر یہ ثابت کردیا کہ اعلان جنگ یا اذنِ جنگ حاکم دے گا کوئی عام یا خاص فرد نہیں ۔دورِ حاضر میں یہ کام کشمیر سے لیکر فلسطین تک ریاستوں کے برعکس افراد یا بعض مذہبی تنظیموں نے شروع کر دیا اور جو ریاستیں مدد بھی کرتی ہیں وہ کبھی بھی مدد کرنے کو قبول نہیں کرتی ہے ۔اس غیر سرکاری بلا اعلان جنگ چھیڑنے کے لئے بطورِ دلیل حضورنبی کریم ﷺ کے دو محترم صحابہؓ حضرت ابوجندلؓ اور حضرت ابو بصیرؓ کے مدینہ سے دور ساحل سمندر پر بیٹھ کر’’ گوریلا طرز کی جنگ مشرکین مکہ کے خلاف چھیڑنا ‘‘ پیش کی جاتی ہے ۔میرے نزدیک یہ دلیل بہت مضبوط ہے اگر چہ بعض علماء اس کو ایک استثنائی واقعہ قرار دیکر بطور حجت قبول کرنے کے قائل نہیں ہیں البتہ میرے خیال میں اس واقع سے یہ بھی ثابت نہیں ہوتا ہے کہ چند افراد ’’بلا مکمل تیاری ‘‘کے اتنے بڑے خطرناک کام کا از خودآغاز کر کے امت کو خطرے میں ڈالنے کا باعث بنیں ۔تیاری کئے بغیر جب آپ اس راہ پر چلنا شروع کریں گے تو مخالف ریاست کے معاندانہ ردعمل کے ہی شکار نہیں ہوں گے بلکہ لامتناہی مسائل آپ کو گھیر لیں گے جن کا تدارک مخالف ریاست پر بھی منحصر ہو سکتا ہے مگر مخالف ریاست ہندوستان یا برما کی طرح آپ کو ان تدابیر سے بھی روک کر ’’مسائل کے بھنور ‘‘ میں جھونک سکتا ہے۔

پہلے آئے تیاری کی بات سمجھ لیں ،لوہا لوہے کو کاٹتا ہے کے آفاقی اصول کی روشنی میں یہ بات ’’دانشورانہ اور عالمانہ ذہن ‘‘نہیں بلکہ عام انسان بھی اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ کسی ریاست کے خلاف جنگ ریاست ہی جیت سکتی ہے یعنی اس کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں ۔اس لئے کہ ریاست کے پاس تیاری کے لئے بھر پور وسائل ہوتے ہیں برعکس اس کے ’’خفیہ پرائیویٹ تیاری‘‘صرف راز رہنے تک ہی محدود رہتی ہے اور جب بھی اس کا قبل از وقت انکشاف ہو جائے گا تو پھر مخالف ریاست آپ کو تیاری کرنے دے گی نا ہی ادھوری تیاری والوں کو معاف کر دے گی بلکہ قبل ازوقت بساط بچھانی ہوگی اور پھر معاملہ اﷲ کے ہاتھ میں ہی ہوگا ۔تیاری سے مراد صرف اسلحہ اور تربیت ہی نہیں ہے بلکہ جنگ کے اسرار و رموز سے لیکر عقائد و اعمال کی درستی تک سب کچھ اس میں شامل ہے ۔بدقسمتی سے سویت یونین کے خلاف افغان مجاہدین کو فتح ملنے کے بعد ہر اس جماعت اور مسلم قوم نے ’’بلاتیاری‘‘ریاست کے خلاف جنگ چھیڑ دی جن کا خیال یہ تھا کہ گوریلا جنگ میں فتح ہر حال میں ’’مظلوم ‘‘ہی کو ملتی ہے اور’’ گوریلا جنگ مظلوم کا ہتھیار ہے‘‘ کی بات کو لیکر ہر جگہ حکمرانوں کے خلاف مورچے کھولے گئے جن میں اب بھی نام تبدیل کر کے کئی مورچے بدستور قائم ہیں ۔آج آپ کشمیر اور فلسطین کو مستثنیٰ کرتے ہو ئے عالم اسلام پر نگاہ ڈالیں اور آ پ مسلم ممالک میں ظالم اور بے رحم مسلم حکمرانوں کے خلاف برسرپیکار جہادی کمانڈروں کی تقریریں سن لیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ وہ اپنی فتح و نصرت کا یقین دلاتے ہو ئے چند قرآنی آیات ،احادیث اور بعض شعرا کا کلام پیش کر کے اپنی تحریک کے ساتھ ہر نوجوان کو جوڑنا چاہتے ہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قرآن میں جنگ سے متعلق ایک ہی آیت ’’کم من فئۃ قلیلۃ۔۔۔۔الخ‘‘ ہی ناز ل ہوئی ہے کہ اﷲ تعالیٰ اقلیت کو اکثریت پر ہر وقت غالب کردیتا ہے اور گویا کہ یہی اﷲ کی سنت ہے حالانکہ ایسا ہر وقت نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ جنگ بدر سے قبل صحابہ کی مقدس جماعت کو حضرت طالوت کی جماعت کی روشنی میں سمجھا دیا گیا کہ اﷲ تعالیٰ نے بہت سی کمزور اور عددی اعتبار سے مختصر جماعتوں کو طاقتوروں اور اکثریت پر غالب کردیا ہے اور کئی مرتبہ اس کے برعکس بھی ہوا ہے ۔

اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کوجنگ اور قتال سے متعلق کسی غلط فہمی میں نہیں رکھا ہے بلکہ قاعدہ کلیہ یہ بیان کیا جیسا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ اے نبی،مسلمانوں کو جہاد پر ابھارو۔اگر تمہارے بیس ثابت قدم ہوں گے تو دو سو پر غلبہ پالیں گے اور اگر سو ایسے ہوں گے تو ان کافروں کے ہزار پر بھاری رہیں گے ،اس لیے کہ یہ بصیرت نہیں رکھتے ۔اچھا،اب اﷲ نے تمہارا بوجھ ہلکا کر دیا ہے اور جان لیا ہے کہ تم میں کمزور ی آگئی ہے ۔لہذااگر تمہارے سو ثابت قدم ہوں گے تو دوسو پر غلبہ پائیں گے اور اگر ہزار ایسے ہوں گے تو اﷲ کے حکم سے دوہزار پر بھاری رہیں گے (اور حقیقت یہ ہے کہ )اﷲ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو (اس کی راہ میں )ثابت قدم رہیں (سورۃ الانفال آیات 65تا66)یہ قاعدہ صرف افرادی قوت کے حوالے سے ہی نہیں بیان کیا گیا ہے بلکہ اسلحہ ،ٹیکنالوجی اور ضروریات جنگ کے حوالے سے بھی یہی حکم ہے ۔نبی کریم ﷺ جو ہر میدان میں ہمارے لئے نمونہ کامل بلکہ اکمل ہیں نے بھی پہلی جنگ میں تین سوتیرہ لاکر ایک ہزار کے سامنے کھڑا کردئے گویا تقریباایک صحابی بمقابلہ 3:20کافر ۔اب یہ بھی دیکھنا ہے کہ یہ تھے کون لوگ ؟یہ قدسیوں کی وہ مقدس ہستیاں تھیں کہ نہ ان سے قبل کسی پیغمبر کے ساتھ ایسی جماعت نظر آتی ہے اور نا ہی ان کے بعد کوئی ایسی محترم جماعت قیامت تک پیدا ہو گی ۔یہ نبی کریم ﷺ کے شاگرد تھے جن میں ایک اپنے ایمان ،تعلق باﷲ ،صبر اور اعمالِ صالحات کے اعتبار سے بیس کفار پر حاوی تھا جبکہ ہم جیسوں کو دیکھتے ہو ئے اﷲ تعالیٰ نے ایک بمقابل دو کفار کی رعایت دیکر یہ صاف کردیا کہ اگر آپ نے اس حقیقت کو نظر انداز کر کے جنگ چھیڑ لی اور خدانخواستہ آپ کو مدد نہیں ملی تو آپ خود اس کے ذمہ دار ہوں گے نعوذ باﷲ اﷲ تعالیٰ نہیں ۔

آج پوراعالم اسلام اس ’’بے تیاری جہاد‘‘کی لپیٹ میں آکر بھسم ہو رہا ہے اور بے صبری کا عالم یہ ہے کہ جہاں کہیں کسی بھی جہادی سوچ رکھنے والی جماعت کو چند بندوقیں ہاتھ لگیں دوسرے دن ’’قیام خلافت یا شہادت‘‘تک جنگ جاری رکھنے کا اعلان کردیتی ہے۔ بعض تنگ نظریہاں تک کہتے ہیں کہ ہمارے پاس وسائل تو کبھی بھی اپنے دشمنوں کے برابر بلکہ نصف بھی تیار نہیں ہو ں گے لہذا ہمیں مزید انتظار کے بجائے ہر حال میں آج ہی جنگ چھیڑنی ہو گی گویا صبر نام کی چیز ہی مفقود ہے ۔ہر فرد فطری انتظار اور رفتار کو نظر انداز کر کے اپنی ہی زندگی میں وہ خلافت قائم ہوتی ہوئی دیکھنے کا متمنی ہے جو خلافت دورِ حیدری ؓ میں ختم ہونے کے بعد پوری تیرہ صدیاں گذرنے کے باوجود قائم نہیں ہو سکی ہے ۔پھر جہادی تنظیموں اور دینی رہنماؤں نے گذشتہ دو سو برس میں اس سب پر عمل بھی کیا مگر ایک بھی ریاست ان کے ہاتھ میں نہیں آئی کیا یہ قابل غور امر نہیں کہ کہیں ہم نے قرآن کی بتائی ہوئی’’ تیاری‘‘کو نظر انداز کر کے من پسند طریقوں پر جنگ لڑ کر اﷲ سے ’’فتح و نصرت کی امیدیں ‘‘جوڑ کر کم شعوری کا ثبوت تو نہیں دیا ۔آج کل نوجوان مجھ سے پوچھتے ہیں اور بار بار پوچھتے ہیں کہ ندوی صاحب آخر افغانستان سے لیکر فلسطین تک ہمیں فتح کہیں بھی کیوں نہیں ملتی ہے ؟اب میں اس دو لفظی سوال کا کیاجواب دیدوں کہ اسلامی تحریکات کی کوکھ سے جنم لینے والے جہادی رہنماؤں نے اﷲ تعالی کے بتائے ہو ئے اصولوں کو بڑی حد تک نظر انداز کر دیا ہے اور نتیجہ اب ہمارے سامنے ہے ۔

قوموں کااﷲ کی اجتماعی نصرت کے لئے مخلص ہونا ہی کافی نہیں ہوتاہے بلکہ اس کے لئے ان تمام شرائط کو پورا کرنا ہوگا جو اس نے اپنے بندوں کے لئے لازم قرار دیئے ہیں اس لئے کہ اﷲ تعالیٰ سنت کے خلاف نہیں کرتا ہے ۔وہ بن باپ بچہ پیدا کرنے پر قدرت تو رکھتا ہے مگر تاریخ انسانی میں ایک حضرت عیسیٰؑ کے دوسری مثال نہیں ملتی ہے ۔وہ پتھر سے جانور پیدا کرنے پر بھرپور قدرت تو رکھتا ہے مگر حضرت لوطؑ کے علاوہ یہ معجزہ کہیں تاریخ میں نظر نہیں آتا ہے ۔وہ چاہیے تو امریکہ ،برطانیہ ،اسرائیل اور ہندوستان کو ایک لمحے میں فنا کردے گا مگر اس نے عاد ،ثمود اور قومِ نوح ؑ کے علاوہ دوسروں کو بھرپور مہلت دیدی اس لئے کہ وہ اﷲ ہے بندہ نہیں ۔اس نے ہمیں چودہ سو سال کا بھرپور موقع فراہم کیا مگر ہم نے نواسہ رسولؐ کو احترام کے برعکس ذبح کردیا،ان کے خانوادے کو لق و دق صحرا میں گھما کر اپنے تاریخ پر کالک مل دی ،ہم نے اہل بیت کو کچلا ،بنو عباس کو چن چن کر موت کے گھاٹ اتار دیا ،جب بنوعباس کو اقتدار ملا تو آسمان بنو امیہ کے ظلم کا جواب ظلم سے دینے پر رو پڑا ،ہم نے عبداﷲ بن زبیر ؓ کو خانہ کعبہ کے سامنے بوڑھاپے میں لٹکا دیا ،خانہ کعبہ کی حرمت پامال کی ،امام المفسرین حضرت جریرؒ کو ذبح کردیا ،امام ابو حنیفہؒ کو جیل میں شہید کر ڈالا ،امام مالک ؒکو بازاروں میں گھما کر آپ اپنے آپ کو رسوا کردیا ،احمد بن حنبلؒ کی پیٹھ ادھیڑ دی ،امام شافعیؒ کو خوفزدہ کردیا ،ہزاروں اور لاکھوں کو مسلکی منافرت میں قتل کر ڈالا ،سائنسدانوں کے لئے بخیل جبکہ شاعروں اور عورتوں کے لئے حاتم ثابت ہوئے ،پھر ہوش ٹھکانے لانے کے لئے اﷲ تعالیٰ نے ہم پر بربروں کومسلط کردیا مگر ہم نے عجمی عربی تفریق پیدا کردی ،ہم سے اندلس،فلسطین اور کشمیر چھن گیا اور جو بظاہر ہمارے ہیں وہاں کے زنانہ خانہ سے وزارت داخلہ اور خارجہ تک غیر ہی پہرہ دار ہیں اور کہنے کو ہم پچاس سے بھی زیادہ ممالک ہیں مگر ہم روئے زمین کی سب سے کمزور اور ناکارہ برمی حکومت کو بھی روہینگیا کے مسلمانوں پر مظالم ڈھانے سے باز نہیں لا سکے ۔ہاں بجلی ،ٹیلی فون،انٹرنیٹ ،کمپوٹر، چیچک اور کینسر کش ادویات ایجاد کرنے کے برعکس ہم نے تاج محل بنایا ،ہم نے کلاک ٹاور بنایا ،ہم نے سیال سونے کے پیسے سے کھلی اور کشادہ سڑکیں تعمیر کیں ۔ہم نے مؤثر میڈیا ،ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم بنانے کے برعکس پیٹرونس ٹاؤربنایا اور نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے صدور مملکت سے لیکر تین مہینے کے معصوم بچے تک بلا تخصیص رنگ و نسل بے رحمی کے ساتھ سرنگوں ، پہاڑوں اور بستیوں میں مارے گئے ۔

جب ہماری حالت اتنی پتلی ہے تو کیا یہی ’’بے پتہ عالم اسلام‘‘افغانستان،فلسطین اور کشمیر کو آزاد کرا پائے گا ؟نہیں اور یقیناََ نہیں تو دینی رہنماؤں اور جہادی لیڈروں کے صبر کا بندھن ٹوٹ گیا اور انھوں نے اعداد و شمار کو بالائے تاک رکھتے ہو ئے ہر حکومت کے خلاف جنگ چھیڑ دی ۔یہ صورتحال تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مترادف تھی ۔مگر اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ یکہ طرفہ قربانیوں کا سلسلہ کب تک جاری رہے گا ؟کیا امت کے لیڈروں اور دانشوروں کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔کہنے کو افغانستان سے روس اور عراق سے امریکہ رسوا ہو کر نکلا مگر ہم نے ان ممالک میں کیا کھویا کیا پایا ؟کبھی اس جانب بھی توجہ دی!۔ ہمارے ممالک میں یہ گھس پیٹھ اسی لئے جاری ہے کہ ہم نے نبی کریمﷺ پر نازل شدہ وحی کے آفاقی اصولوں کو نظر انداز کر کے جنگ کوتمناؤں،ترانوں اورشاعری سے جیتنے کے غیر فطری طریقوں کو اختیار کیا ہے ۔عقیدہ ہمارا یہ ہے اور ہونا بھی چاہیے کہ فتح و نصرت اﷲ کے ہاتھ میں ہے ،ہمارے پاس جب امریکہ اور روس جیسا اسلحہ بھی موجود ہوگا توبھی ہمارا عقیدہ یہ ہونا چاہیے کہ فتح و نصرت افراداور ہتھیار میں نہیں بلکہ اﷲ کے ہاتھ میں ہے مگر جنگ کے لئے مطلوب ضروریات کو نظرانداز کر کے ہم صرف یہ کہیں ’’مومن ہو تو بے تیغ لڑتا ہے سپاہی ،کافر ہو تو شمشیر پر کرتا ہے بھروسہ‘‘غلط استدلال ہوگانہیں تو پھر سیرت نبیؐکے اس سبق آموز واقع کا میں کیا جواب دوں کہ جب امام المجاہدینﷺ اس دنیا سے کوچ کرنے لگے تو بجھے ہوئے ٹھنڈے چولے پر پکانے کے لئے گھر میں کوئی شئی نہیں تھی مگر ایک دو تین نہیں بلکہ اسی ’’خلد بریں‘‘میں سترہ ہتھیار آویزاں تھے کیا یہ امت مسلمہ کے لئے نصیحت اور رہنمائی نہیں تھی ۔
altaf
About the Author: altaf Read More Articles by altaf: 116 Articles with 93710 views writer
journalist
political analyst
.. View More