شٹر ڈاؤن ہڑتال ،ڈرگ ایکٹ 2017

تحریر: ڈاکٹر شجا ع اختر اعوان

ڈرگ ایکٹ 1976 ایک وفاقی قانون ہے جس کا دائرہ کار سارا پاکستان ہے اور اس ایکٹ میں وفاقی پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر ترامیم نہیں کی جاسکتیں ۔ پاکستان میں ادویہ سازی زیادہ تر برٹش فارما کوپیا اور امریکن فارما کوپیا کے مسلمہ قواعد و ضوابط کے تحت کی جاتی ہے۔ متذکرہ دونوں فارماکوپیا اور دنیا کے دیگر فارما کوپیا میں ادویہ سازی اوران کے معیار کو جانچنے کیلیے قواعدوضوابط موجود ہیں اور ان کو معیار بنا کر ہی تمام مراحل طے کیئے جاتے ہیں اور دوا کے معیاری اور غیر معیاری یا جعلی ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے پاکستان میں اس وقت ادویہ سازی کے تقریبا 600 سے زائد ادارے کام کر رہے ہیں جن میں 250 کے قریب یونٹ پنجاب میں موجود ہیں صرف پنجاب میں کیمسٹوں کی تعداد 48000 سے زائد ہے عورتیں بھی یونانی ، ہومیو پیتھک ، میڈیکل سٹوروں سے وابستہ خاندانوں کی تعداد تقریبا 1لاکھ 50 ہزار کے لگ بھگ ہے ۔ دیگر صوبوں اور وفاق کے برعکس پنجاب حکومت نے ڈرگ ایکٹ 1976 میں تبدیلیاں کرکے ڈرگ ایکٹ 2017 منظور کیا اور اسے صوبہ بھرمیں نافذکرنے کے احکامات صادر فرمائے ۔ ڈرگ ایکٹ2017 کے تحت جعلی ادویات کے خاتمے کی آڑ میں سزاؤں اور جرمانوں میں تشویش ناک حد تک اضافہ کیا گیا۔ کم سے کم سزا 2 سال اور زیادہ سے زیادہ 10 سال جبکہ جرمانہ کم از کم 2 لاکھ اور زیادہ سے زیادہ 7کروڑ روپے کر دیاگیا۔ اور لائسنس یافتہ میڈیکل سٹوروں اور جعلی ادویات بنانے والوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا گیا۔ جبکہ چیکنگ ٹیموں سے عدم تعاون ، غیر معیار ی دوا کی برآمدگی ، کوالیفائیڈ پرسن کی غیر موجودگی ، مطلوبہ ٹمپریچر نہ ہونے پر کیمسٹ کے خلاف ناقابل ضمانت FIRاور لائسنس کی معطلی کی سزائیں بھی رکھی گئیں ۔ اور بغیر صفائی کا موقع دیے ان تمام احکامات پر عمل درآمد یقینی بنانے کے فیصلے بھی صادر فرمادیئے گئے۔ شیڈول جی کا اطلاق کر کے میڈیکل سٹور کو صرف چند دواؤں کی فروخت تک محدود کر دیا گیا۔ میڈیکل سٹور پر ہول سیل کا خاتمہ ، ڈسپنسر و سیلف کوالیفائیڈ لائسنس کا خاتمہ ، نئے لائسنس کے اجراء پر پابندی ، نام نہاد ٹاسک فور س کا قیام جیسے اقدامات شامل کیئے گئے۔ ملک بھر کی فارما انڈسٹری اور میڈیکل سٹورز کی تمام تنظیموں نے اس ڈرگ ایکٹ کی ظالمانہ ترامیم کو کالا قانون قراردیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا اور غیر معینہ مدت کے شٹر ڈاؤن ہڑتال شروع کر دی ۔ جس کو فارما سے منسلک تمام تنظیموں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ پنجاب کیمسٹ کونسل اور پنجاب کیمسٹ ایسوسی ایشن و دیگر تنظیموں کو موقف ہے کہ پنجاب کابینہ کی طرف سے منظورشدہ ترمیمی بل پر سٹک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اور ان سے مشور ہ تک کرنا گوارا نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کے حکمران دیگر کئی کاروباروں کی طرح فارما انڈسٹری کو بھی اپنے کاروبار کا حصہ بنانا چاہتے ہیں اور ترکی کی ایک کمپنی کو فارما انڈسٹری ٹھیکے پر دے کر صوبہ بھر میں اس کی شاخیں قائم کرنے کے درپے ہیں۔ نیشنل فارما انڈسٹری کو ایک سوچے سمجھے منصوبے اور گھناؤنی سازش کے تحت تباہ کیا جارہا ہے۔ اور جعلی اور غیر معیاری ادویات کے نام پر ان کا میڈیا ٹرائل کیا جارہا ہے۔ ڈرگ ایکٹ 1976 کے نفاذ کے بعد سے اب تک ملک بھر سے ادویات کے نمونے لیبارٹیریوں کو بجھوائے جاتے رہے۔ جس میں کوئی دوا جعلی ثابت نہیں ہوئی حکومت اعدادوشمار کو مدنظر رکھے اور بتائے کہ اب تک لیبارٹریوں نے کتنی جعلی ادویات کی رپورٹ دی ہے ۔ پاکستان کیمسٹ کونسل کے زیر اہتمام نہ صرف پنجاب بلکہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی شٹر ڈاؤن ہڑتالوں، شہر شہر احتجاجی ریلیوں کا سلسلہ جاری ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا۔ جب تک پنجاب حکومت ان غیر قانونی اقدامات کو واپس نہیں لے لیتی ۔ مریضوں کو درپیش مشکلات اور انسانی جانوں کے ضیاع کی تمام تر ذمہ داری حکومت پنجاب پر عائد ہوتی ہے جس کے ظالمانہ اقدامات کے نتیجے میں کیمسٹ برادری شٹر ڈاؤن جیسے انتہائی اقدامات پر مجبور ہے۔ کیونکہ ان حالات میں ہمارا کاروبار جاری رکھنا ممکن نہیں 18 ویں ترمیم صوبوں کو قانون سازی کا حق دیتی ہے۔ مگر ڈرگ ایکٹ تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دیتیں جعلی ادویات کی موجودگی کسی بھی صورت قبول نہیں ان عناصر کی سرکوبی نہایت ضروری ہے جو اس گھناؤنے فعل میں ملوث ہیں۔ اس سلسلہ میں کیمسٹ برادری ہمیشہ تعاون کرتی آئی ہے۔ اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ لیکن مجوزہ ترامیم کا سارا نزلہ لائسنسی اداروں پر گرایا جائے ایساکسی ملک یا ادارے میں نہیں ہوتا کہ انصاف کے تقاضے پورے کیئے بغیر اور صفائی کا موقع دیئے بغیر سزاؤں اور جرمانوں پر عمل درآمد شروع کر دیا جائے۔ ڈرگ ایکٹ 2017 پر عمل درآمد ہونے کی صورت میں جہاں جائز کام کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو گی وہاں بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بل کی متنازعہ ترامیم کو معطل کیا جائے اور بہترتو یہی ہے کہ ڈر گ ایکٹ 1976 جو کہ ایک جامع قانون ہے پر ہی عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے ۔کیونکہ یہ ایک مکمل وفاقی قانون ہے۔ جو کہ نہ صرف پاکستان بلکہ وفاق کے ماتحت علاقوں میں رائج ہے۔ اور کوئی بھی نئی ترامیم کرنے سے پہلے تمام سٹک ہولڈرز کو اعتمادمیں لیا جائے۔ اس سے نہ صرف کیمسٹ برادری میں پائی جانے والی بے چینی کا خاتمہ ہوگا بلکہ حکومت اورمریضوں کی مشکلات بھی کم ہوں گی۔
Malik Tahir
About the Author: Malik Tahir Read More Articles by Malik Tahir: 27 Articles with 21143 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.