انسانی خیالات اورشیطانی وسوسے

آج کل لوگوں کے حالات اس قسم کے ہیں کہ ہمیشہ تفکرات وخیالات میں گم ہوتے ہیں ۔ یہ خیالات عبادات میں بھی مخل ہوتے ہیں ۔اور یہ تفکرات زیادہ تر دنیاوی ہوتے ہیں ، جن کے باعث ہم ہمیشہ الجھے ہوتے ہیں ، کسی سے سنجیدگی سے بات بھی نہیں کرپاتے ،مزاج چڑچڑا ہوجاتاہے جبکہ ہمیں دنیا کی فکر کم اور آخرت کی فکر زیادہ کرنی چاہئے تھی ۔ یہ فکر کتاب اللہ کو سمجھ کر پڑھنے، ذکرواذکارکرنے، پابندی سے پنچ وقتہ نماز پڑھنے، قبروں کی زیارت کرنے، کثرت سے صدقہ وخیرات کرنے، دینی محلفوں،دیندارلوگوں اور دینی کتابوں سے رغبت رکھنے اور آخرت کو بکثرت یاد کرنے سے پیدا ہوگی ۔جب ہمارے پاس دنیاوی خیالات کم ہوں گے تو عبادت میں بھی کم ہی اس قسم کے خیالات آئیں گے ۔ اگر نماز میں خیال آبھی جائے تو اس سے نماز خراب یا باطل نہیں ہوتی ، نماز اپنی جگہ درست ہے ۔ ممنوع یہ ہے کہ کسی خیال کے آنے پر اسی پر مکمل توجہ کردی جائے مثلا روپئے کا خیال نماز میں آیا تو ہمیں چاہئے کہ اس پہ مزید دھیان نہ دیں مگر نماز ہی میں کچھ لوگ اس روپئے کا مکمل حساب کرنے لگ جاتے ہیں ، فلاں سے پیسہ لینا ہے ، فلاں کو پیسہ دینا ہے ، اس بار کی تنخواہ فلاں فلاں کام میں لگانا ہے ۔یہ ممنوع ہے ۔

خیالات انسان کا حصہ ہیں ، انسان ہونے کے ناطے خیالات آئیں گے ، اور یہ خیالات برے بھی ہوسکتے ہیں ان سے بچنامشکل ہے ، اس لئے اللہ تعالی اس مشکل کو ہم سے معاف کردیاہےکیونکہ یہ انسانی طاقت سے باہر کی چیز ہے البتہ اپنے خیالات کو اچھے بناسکتے ہیں ۔برے خیالات اصل میں ہمارے برے کردار کا نتیجہ ہیں ،اگر ہم نیک کام کریں گے تو خیالات بھی نیک ہوں گے ۔ تو اچھے خیالات پیدا کرنے کے لئے برائی کو ترک کرنا پڑے گا اور اچھائی کو اپنانا ہوگا۔

اللہ تعالیٰ ہمارے اوپر کتنابڑا احسان مند ہے کہ برے خیالات پر مواخذہ نہیں کرتا جب تک کہ برائی کا ارتکاب نہ کرلیں لیکن اگر خیالات اچھے ہوں ،انہیں عملی جامہ نہ بھی پہناسکیں تو بھی اللہ کی طرف سے اس پہ نیکیاں لکھی جاتی ہیں ۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
إنَّ اللهَ تجاوزَ لي عن أُمَّتِي ما وسوستْ بهِ صدورها ، ما لم تعملْ أو تكلَّمْ .(صحيح البخاري:2528)
ترجمہ: بے شک اللہ تعالی میری امت سے اس وقت تک درگذر کردیا ہے جو اس کے دل میں (برا) خیال پیدا ہوتا ہے جب تک کہ اس پہ عمل نہ کرے یا بول نہ دے۔

اورایک دوسری حدیث ہے حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
يقول اللهُ : إذا أراد عبدي أن يعمل سيئةً فلا تكتُبوها عليه حتى يعملَها ، فإن عملَها فاكتبوها بمثلِها ، وإن تركها من أجلي فاكتبوها له حسنةً ، وإذا أراد أن يعملَ حسنةً فلم يعملْها فاكتبوها له حسنةً ، فإن عملَها فاكتبوها له بعشرِ أمثالِها إلى سبعمائةِ ضِعفٍ(صحیح بخاری : 7501)
ترجمہ : اللہ تعالی (فرشتوں سے ) فرماتا ہے کہ : جب میرا کوئی بندہ برائی کرنے کا ارادہ کرے تو اسے اس کے خلاف اس وقت تک نہ لکھو جب تک کہ وہ اس سے سرزد نہ ہوجائے ۔ اگر وہ اس برائی کا ارتکاب کرلے تو اسے ایک ہی( گناہ ) لکھو ۔ اور اگر اس نے اسے میری خاطر چھوڑ دیا تو اس اس کے لیے ایک نیکی لکھ دو ، اور جب وہ نیکی کرنے کا ارادہ کرے لیکن اسے نہ کر سکے تو اس کے حصے میں ایک نیکی لکھ دو، پھر اگر وہ وہ نیکی کرلے تو اس کے لیے دس سے سات سو گنا تک لکھو ۔

ایک اور حدیث میں مذکور ہے ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
عن أبي أمامة : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : إن صاحب الشمال ليرفع القلم ست ساعات عن العبد المسلم المخطئ ، فإن ندم واستغفر الله منها ألقاها ، وإلا كتبت واحدة .(رواه الطبراني في المعجم الكبير 8 / 158 ) .
ترجمہ :: بائیں طرف والا غلطی کرنے والے مسلمان سے چھ گھنٹے تک قلم اٹھائے رکھتا ہے تو اگر وہ اپنے کئے پر نادم ہو اور اللہ تعالی سے استغفار کرے اسے ختم کر دیتا ہے اگر نہ کرے تو ایک گناہ لکھتا ہے ۔

٭ اس حدیث کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح الجامع ( 2/212) میں صحیح کہا ہے ۔

یہ تو خیالات کا معاملہ ہے جو کبھی برائی کے اثر سے دل میں اچھے خیالات پیدا ہوتے ہیں تو کبھی اچھائی کی وجہ سے اچھے خیالات ،اور کبھی یونہی دل میں طرح طرح کے خیالاتا پیدا ہوتے ہیں تو اللہ تعالی نے ہم سے برے خیالات کو معاف کردیا ہے ۔ اگر نماز پڑھتے ہوئے اچھے یا برے کوئی خیال پیدا ہوجائے تو ذہن اس طرف مرکوز نہ کریں بلکہ نماز کی طرف ذہن ہو اس سے نماز پر کوئی اثر نہیں پڑے گاجیساکہ نماز کے دوران نبی ﷺ کے دل میں خیال پیدا ہوگیا تھا۔

عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا :
صَلَّيْتُ وراءَ النبيِّ صلى الله عليه وسلم بالمدينةِ العصرَ ، فسلَّمَ ثم قام مُسْرِعًا ، فتخطَّى رقابَ الناسِ ، إلى بعضِ حُجَرِ نسائِه ، ففَزِعَ الناسُ مِن سرعتِه ! فخرَجَ عليهم ، فرأى أنهم عَجِبوا مِن سُرْعَتِه ، فقال : ذَكَرْتُ شيئًا مِن تِبْرٍ عندَنا ، فكَرِهْتُ أن يَحْبِسَني ، فأمرتُ بقِسْمَتِه .(صحيح البخاري:851)
ترجمہ: میں نے مدینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں ایک مرتبہ عصر کی نماز پڑھی۔ سلام پھیرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم جلدی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور صفوں کو چیرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی بیوی کے حجرہ میں گئے۔ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تیزی کی وجہ سے گھبرا گئے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور جلدی کی وجہ سے لوگوں کے تعجب کو محسوس فرمایا تو فرمایا کہ ہمارے پاس ایک سونے کا ڈلا ( تقسیم کرنے سے ) بچ گیا تھا مجھے اس میں دل لگا رہنا برا معلوم ہوا، میں نے اس کے بانٹ دینے کا حکم دے دیا۔

اب رہا مسئلہ شیطانی وسوسہ کا ہے جو لوگوں کے لئے بیحد پریشان کن ہے خاص طور سے نمازی حضرات کے لئے ۔ وضو سے ہی یہ وسوسے پیدا ہونے لگتے ہیں ۔ کبھی یہ خیال آتا ہے کہ ناک میں پانی ڈالا کہ نہیں ، کبھی عدم کلی کا خیال پیدا ہوتا ہے تو کبھی عدم مسح کا۔ اس سے زیادہ مسئلہ نماز کے دوران پیش آتا ہے خاص طور سے سجدہ کے متعلق ایک مرتبہ کیا کہ دو مرتبہ ، سورہ فاتحہ پڑھی کہ نہیں ، تین رکعات ہوئی کہ چاررکعات ۔ اس قسم کے وسوسے کی وجہ سے انسان نماز میں ہی الجھ جاتا ہے ، کچھ لوگ اس الجھن اور نماز میں اکثر گندے خیالات آنے کی وجہ سے نماز بھی چھوڑ دیتے ہیں ۔

اسلام نے ہمیں ہرمشکل کا حل بتلایا ہے ۔ اس لئے الجھن کے سبب نماز چھوڑدینا کسی طور پر جائز نہیں ہے ۔ اس سلسلے میں اسلامی تعلیمات کی رو سے چند امور پیش کرتا ہوں جو ہمارے لئے ممدومعاون ہوں گے ۔

(1) اگر وضو میں کسی عضو کے دھونے یا نہ دھونے کا خیال آئے تو اس عضو کو دیکھ لیں اگر وہ گیلا ہے تو نہ دھونے کا خیال دل سے نکال دیں ۔ اور کلی ، ناک میں پانی ڈالنے کے متعلق نہ دھونے کا خیال ہوتو یہ بھی دل سے نکال دیں ۔اگر ناک اور کلی سے متعلق اکثر ایسا خیال آئے تو ایک نصیحت یہ کروں گا کہ جب کلی کریں تو منہ کو تھوڑا حرکت دے کر اور ہلکی آواز کے ساتھ کلی کریں ، اسی طرح ناک میں پانی ڈالتےاور صاف کرتے وقت ہلکی آواز کے ساتھ ناک کریں تاکہ بعد میں بھی آپ کو کلی کرنے اور ناک صاف کرنے کا احساس رہے ، اس طرح یہ وسوسہ ختم ہوجائے گا ۔ ان شاء اللہ
(2) نماز میں وسوسہ پیدا ہوکہ سورہ فاتحہ میں نے پڑھی کہ نہیں تو ایک مرتبہ مزید فاتحہ پڑھ لیں کیونکہ ایسا بھی ممکن ہے کہ آپ نے فاتحہ نہ پڑھی ہولیکن اگر ہمیشہ نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھنے کا خیال پیدا ہو تو یہ یقینا شیطان کی طرف سے ہے جو آپ کو نماز سے غافل کردینا چاہتا ہے ۔یہی چیز اور کوئی ذکر یا دعا پڑھنے یا نہ پڑھنے کے متعلق منطبق کرسکتے ہیں۔
(3) اگر آپ کے دل میں ایک سجدہ کم کرنے ، یا ایک رکعت کم یا زیادہ کرنے کا خیال آرہاہے تو یہ شک کا معاملہ ہے ۔ یہاں یقین پر اعتماد کرتے ہوئے صرف ایک ہی سجدہ شمار کریں اور ایک سجدہ مزید کریں۔آخر میں سلام پھیرنے سے پہلے سجدہ سہو بھی کرلیں۔ اگر آپ کے ساتھ ایسا معاملہ اکثر ہوتا ہے تو ہلکی تیزآواز کے ساتھ تکبیرکہا کریں حتی کہ سجدہ میں جاتے ہوئے بھی تاکہ آپ کو معلوم ہوکہ میں ابھی ایک سجدہ کرلیا ہوں اب دوسرا کرنا ہے ۔
(4) کسی کو اکثر پہلے قعدہ کے متعلق شک ہوجاتا ہے کہ قعدہ کیا کہ نہیں ؟۔ اگر شک ہوجائے تو آخر میں سجدہ سہو کرلے کیونکہ قعدہ اولی واجب ہے اگر چھوٹ جائے تو سلام پھیرنے سے پہلے سجدہ سہو کرنے سے وجوب کی تلافی ہوجائے گی ۔
(5) نماز میں ان ہی مذکورہ چیزوں کا وسوسہ زیادہ تر پیدا ہوتا ہے ۔ اگر یہ وسوسے ہمیشہ آیا کریں ، یعنی ہرنماز میں ہمیشہ اس قسم کا شبہ پیدا ہو تو یقینا یہ شیطان کی طرف سے ہے جو انسان کو نماز سے غافل کردینا چاہتا ہے بلکہ اس طرح نماز سے ہی دور کرنا چاہتا ہے ۔ اس سلسلے میں چند باتیں ملحوظ رہیں۔

اولا: یہ دھیان رہے کہ شیطانی وسوسے سے نماز باطل نہیں ہوتی ، نماز اپنی جگہ درست ہے اس لئے اس وسوسے سے پریشان ہوکر نماز چھوڑ دینا بہرصورت غلط ہے کیونکہ نماز دین کا ستون ہے اور اسے قائم کئے بغیر ہم مسلمان نہیں ہوسکتے ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ صحابہ تشریف لائے اور آپ سے پوچھا:
إنَّا نَجِدُ في أنفُسِنا ما يتعاظَمُ أحدُنا أن يتَكَلَّمَ بِهِ . قالَ: وقَد وجدتُموهُ ؟ قالوا: نعَم، قالَ: ذاكَ صَريحُ الإيمانِ ( صحيح مسلم:132)
ترجمہ: ہم اپنے دلوں میں ایسی باتیں محسوس کرتے ہیں جنھیں ہم بیان کرنا بہت بڑا (گناہ یا غلط کام) سمجھتے ہیں۔آپ نے فرمایا: کیا تم نے ایسا محسوس کرلیا ہے ؟ انہوں نے کہا: جی ہاں!آپ نے فرمایا: یہ صریح ایمان ہے ۔

اس حدیث سے ایک بات یہ معلوم ہوئی کہ وسوسہ کی وجہ سے نماز درست ہے ، دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ دل میں وسوسہ پیدا ہونے کی وجہ سے بے چین ہونا اور اس وسوسہ سے نفرت کرنا ایمان کا حصہ ہے ۔
ثانیا: شیطانی وسوسے کا علاج یہ ہے کہ اللہ کی پناہ طلب کریں اور بائیں جانب تین مرتبہ ہلکاسا تھوکیں ۔
أنَّ عثمانَ بن أبي العاصِ أتى النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فقال : يا رسولَ اللهِ . إنَّ الشيطانَ قد حال بيني وبين صلاتي وقراءَتي . يُلَبِّسُها عليَّ . فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ " ذاك شيطانٌ يُقالُ له خَنزَبٌ . فإذا أحسستَه فتعوَّذْ بالله منه . واتفُل على يسارِك ثلاثًا " فقال : ففعلتُ ذلك فأذْهَبَه اللهُ عني .(صحيح مسلم:2203)
ترجمہ: عثمان بن ابوالعاض رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ میرے اور میری نماز کے درمیان شیطان حائل ہو جاتا اور میری قرت کو مجھ پر خلط ملط کر دیتا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :یہ شیطان ہے اسے خنزب کہتے ہیں جب آپ محسوس کریں تو اس سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کریں اور بائیں طرف تین دفعہ تھوکیں تو صحابی کہتے ہیں کہ میں نے یہ عمل کیا تو اللہ تعالی نے یہ وسوسے ختم کر دئے۔

ایک دوسری حدیث میں آمنت باللہ ورسلہ (میں نے اللہ پراور اس کے رسولوں پر ایمان لایا ) کہنے کی دلیل ملتی ہے ۔

عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إنَّ أحدَكم يأتيه الشيطانُ فيقول : من خلقَك ؟ فيقول اللهُ ، فيقول : فمن خلق اللهُ ؟ فإذا وجد أحدُكم ذلك فلْيقْرأْ آمنتُ باللهِ و رُسُلِه ، فإنَّ ذلك يَذهَبُ عنه( السلسلة الصحيحة:116)
ترجمہ: تم میں کسی کے پاس شیطان آتا اور اسے کہتا ہے کہ تجھے کس نے پیدا کیا تو وہ جواب دیتا ہے اللہ تعالی نے تو شیطان کہتا ہے کہ اللہ تعالی کو کس نے پیدا کیا ہے تو جب تم میں سے کوئی اس طرح کی بات پائے تو یہ پڑھے ( آمنت باللہ ورسلہ ) میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا۔ پس اس سے وسوسہ ختم کر دے گا۔

ثالثا: اکثر لوگ نماز پڑھتے ہیں مگر انہیں نماز کی لذت نہیں محسوس ہوتی ، اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم نماز میں اللہ کا تصور کرنے کی بجائے ادھر ادھر دھیان رکھتے ہیں جبکہ ہمیں حکم ہوا ہے کہ اس طرح نماز پڑھیں گویا اللہ کو دیکھ رہے ہیں ، اگر اللہ کو نہیں دیکھ سکتے تو یہ تصور کریں وہ ہمیں دیکھ رہا ہے جیساکہ حدیث جبریل میں مذکور ہے :
الإحسانُ : أنْ تعبدَ اللهَ كأنكَ تراهُ ، فإنْ لم تكنْ تراهُ فإنَّهُ يراكَ (صحيح البخاري:4777)
ترجمہ: احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی اس طرح عبادت کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو ،اگر تم اسے نہیں دیکھ سکتے تو یہ تصور کرو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے ۔

احسان کی یہ صفت پیدا کرنے کے لئے اولا ضروری یہ ہے کہ نماز میں پڑھے جانے والے ذکرودعا کا معنی ومفہوم معلوم ہو تاکہ اذکار کو معنوی تصور کے ساتھ اللہ کو ناظر جانتے ہوئے عبادت کریں ۔ ثانیا یہ بھی ضروری ہے کہ عبادت میں اخلاص پیدا کیا جائے اور اخلاص ختم کرنے والے امور سے بچا جائے یعنی عبادت خالص اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے ہو اس میں دنیاوی کوئی غرض ومنفعت شامل نہ ہو۔ثالثا : عبادت میں خشوع وخضوع پیدا کریں تو ان شاء اللہ ہمیں عبادت کی لذت محسوس ہوگی ، شیطانی وسوسے اور اس کی تدابیر سے بھی بچ سکیں گے ، اور ہماری عبادت اللہ کے یہاں مقبول ہوگی ۔
Maqubool Ahmad
About the Author: Maqubool Ahmad Read More Articles by Maqubool Ahmad: 315 Articles with 308824 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.