یا یھاالذین آمنوا لا یسخر قوم من قوم عسی ان یکونوا خیرا
منھم و لا نساء من نساء عسی ان یکن خیرا منھن ولا تلمزوا انفسکم ولا
تنابزوا بالا لقاب ۔ اے ایمان والو نہ مرد مردوں سے ہنسیں عجب نہیں کہ وہ
ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اورنہ عورتیں عورتوں سے دور نہیں کہ وہ ان
ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں اور آپس میں طنعہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے برے
نام نہ رکھو۔
( شان نزول : اس آیت کا نزول کئ واقعوں میں ہوا ‘ پہلا واقعہ یہ ہے کہ ثابت
ابن قیس بن شماس کو ثقل سماعت تھا جب وہ سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ و
آلہ وسلم کی مجلس شریف میں حاضر ہوتے تو صحابہ انہیں آگے بثھاتے اور ان کے
لئے جگہ خالی کر دیتے تاکہ وہ حضور کے قریپ حاضر رہ کر کلام مبارک سن سکیں
ایک روز انہیں حاضری میں دیر ہو گئ اور مجلس شریف خوب بھر گئ اس وقت ثابت
آئے اور قاعدہ یہ تھاکہ جو شغص ایسے وقت آتا اور مجلس میں جگہ نہ پاتا تو
جہاں ہوتا کھڑا رہتا ثابت آئے تو وہ سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ
وسلم کے قریب بیٹھنے کے لئے لوگوں کو ہٹاتے ہوئے یہ کہتے چلےکہ جگہ دو جگہ
یہاں تک کہ وہ حضور کے قریب پہنچ گئے اور ان کے اور حضورکے درمیان میں صرف
ایک شخص رہ گیا انہوں نے اس سے بھی کہا کہ جگہ دو اس نے کہا کہ تمہیں جگہ
مل گئ بیٹھ جاؤ ثابت غصہ میں آکر اسکے پیچھے بیٹھ گئے اور جب دن خوب روشن
ہوا تو ثابت نے اس کا جسم دبا کر کہا کہ کون ‘ اس نے کہا کہ میں فلاں شخص
ہوں ثابت نے اس کی ماں کا نام لے کر کہا فلانی کا لڑکا اس پر اس شخص نےشرم
سے سر جکھا لیا اور اس زمانہ میں ایسا کلمہ عار دلانے کے لئے کہا جاتا تھا
اس پر یہ آیت نازل ہوئ ۔ دوسرا واقعہ ضحاک نے بیان کیا کہ یہ آیت بنی تمیم
کے حق میں نازل ہوئ جو حضرت عمار و خباب و بلال و صہیب و سلمان و سالم
وغیرہ غریب صحابہ کی غربت دیکھ کر ان کے ساتھ تمسخر کرتے تھے ان کے حق میں
یہ آیت نازل ھوئ اور فرمایا گیا کہ مرد مردوں سے نہ ہنسیں یعنی مالدار
غریبوں کی ہنسی نہ بنائیں ‘ نہ عالی نسب غیر ذی نسب کی اور نہ تندرست اپاہج
کی نہ بینا اس کی جس کی آنکھ میں عیب ہو ۔
یہ آیت ام المومنین حضرت صفیہ بنت حی رضی اللہ تعالے عنہا کے حق میں نازل
ہوئ ‘ انہیں معلوم ہوا تھا کہ ام المومنین حضرت حفصہ نے انہیں یہودی کی
لڑکی کہا اس پر انہیں رنج ہوا اور روئیں اور سید عالم صلی اللہ تعالے علیہ
و آلہ وسلم سے شکایت کی تو حضور نے فرمایا کہ تم نبی زادی اور نبی کی بیوی
ہو تم پر وہ کیا فخر کرتی ہیں ‘ اور حضرت حفصہ سے فرمایا ‘ اے حفصہ خدا سے
ڈرو ‘ الترمذی و قال حسن صحیح غریب ۔
ایک دوسرے پر عیب نہ لگاؤ اگر ایک مومن نے دوسرے مومن پر عیب لگایا تو گویا
اپنے ہی آپ پر عیب لگایا۔ جوں انہیں ناگوار معلوم ہوں ۔
مسائل : حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا کہ اگر کسی آدمی نے
کسی برائ سے توبہ کر لی ہو اس کو بعد توبہ اس برائ سے عار دلانا بھی اس نہی
میں داخل اور ممنوع ہے ۔ بعض علماء نے فرمایا کہ کسی مسلمان کو کتا یا گدھا
یا سور کہنا بھی اس میں داخل ہے بعض علماء نے فرمایا کہ اس سے وہ القاب
مراد ہیں جن سے مسلمان کی برائ نکلتی ہو اور اس کو ناگوار ہو لیکن تعریف کے
القاب جو سچے ہوں منوع نہیں جیسے کہ حضرت ابوبکر کا لقب عتیق اور حضرت عمر
کا فاروق اور حضرت عثمان کا ذوالنورین اور حضرت علی کا ابوتراب اور حضرت
خالد کا سیف اللہ رضی اللہ تعالے عنہم اور جو القاب بمنزلہ علم ہو گئے اور
صاحب القاب کو ناگوار نہیں ‘ وہ القاب بھی ممنوع نہیں جیسے کہ اعمش اعرج ۔
) الحجرات ١١۔ |