پچھلے چندبرسوں میں بالخصوص الیکٹرانک میڈیانے جس سرعت کے
ساتھ اپناوجودمنوایاہے اس نے ساری دنیامیں ہونے والی کسی بھی خبرکوپل
بھرمیں جہاں ناظرین کوباخبررکھا ہوا ہے وہاں بدقسمتی سے ہمارے میڈیا،سول
سوسائٹی حتی کہ اہل سیاست کے برخوردارغلط قسم کے حلقے ریاست اورریاستی
اداروں کومختلف حوالوں سے تنقیدبلکہ تنقیص کاہدف بنانااپنا فرض سمجھتے ہوئے
میڈیاکی بے مہار آزادی کاناجائزفائدہ بھی اٹھارہے ہیں۔مزیدبدقسمتی یہ کہ اس
شوقِ فضول اورمشق لاحاصل کووہ دانشوری اورجدت پسندی کی علامت قراردے رہے
ہیں اوراپنے غیرملکی بشمول بھارتی آقاؤں کوخوش کررہے ہیں۔ خودحکومت میں
شامل بعض بزرجمہرفرماتے ہیں کہ طاغوتی طاقتیں عدلیہ اور بعض بااثراداروں
پردباؤڈال کراپنے مذموم مقاصدکی تکمیل میں لگی ہوئی ہیں۔اس قبیل کے بعض
عناصر پاک فوج اورسول انتظامیہ میں ہم آہنگی کے خوش آئند امکانات معدوم
کرنے میں مشغول ہیں۔محب وطن اورمعتدل ومیانہ روی مبصرین نے اس صورتحال
کاجائزہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے معاشرتی ،سیاسی
اورریاستی ڈھانچے میں بہت سی کوتاہیاں ہیں لیکن اس حوالے سے بات کرتے ہوئے
یہ امربھی پیش نظررہناچاہئے کہ خدانخواستہ ہماری قومی سلامتی اوراس کے
محافظ اداروں کوکوئی گزندپہنچی تو اجتماعی طورپر ملک وقوم کوناقابل تلافی
نقصان پہنچ سکتاہے۔
اس ضمن میں بھارت میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کاہلکاساموازنہ پیش نظررہے
توشایدکفرانِ نعمت کے مرتکب ہمارے افراداورگروہوں میں کچھ مثبت تبدیلی
رونماہوسکے ۔ یہ کوئی رازکی بات نہیں کہ بھارت کے جمہوریت اور سیکولرازم کے
تمام دعوؤں کے باوجودبیس کروڑ کے لگ بھگ مسلمان آج بھی دوسرے ہی نہیں بلکہ
تیسرے درجے کے شہری ہیں ۔ایک انسان دوست بنگالی ہندودانشورشرت بسواش نے کچھ
عرصے سے پہلے بی بی سی کی ہندی سروس میں بھارتی مسلمانوں کی حالت
زارکاذکرکرتے ہوئے کہاکہ بلاشبہ بھارت میں ڈاکٹرذاکرحسین،فخرالدین علی احمد،
ابو الکلام کوصدارت کے منصب پرفائز کیا گیااورممبئی کی فلم اندسٹری میں بھی
چندمسلمان اداکاراہم مقام کے حامل رہے ہیں مگر اس سے آگے بھارتی مسلمانوں
کے ضمن میں کوئی اچھی خبرڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔
منموہن سنگھ نے ۹مارچ ۲۰۰۵ء کوجسٹس سچرکی سربراہی میں مسلمانوں کااحوال
جاننے کیلئے جوکمیٹی بنائی تھی وہ ۳۰نومبر۲۰۰۶ء کواپنی رپورٹ پیش بھی کرچکی
مگربھارتی مسلمانوں کی حالت پہلے سے بھی بدترہوگئی ہے ۔بہرکیف سچررپورٹ کے
مطابق بھارت کے دیہی علاقوں میں رہنے والے۹۹.۹۴ ٪ مسلمان خط غربت سے نیچے
اورشہری علاقوں میں۶۱.۱ فیصد خط افلاس سے نیچے زندگی گزاررہے ہیں۔دیہی
علاقوں کے ۶۴٪اور شہری علاقوں کے ۶۰٪نے کبھی اسکول کامنہ نہیں دیکھا۔دیہی
مسلم آبادی کے ۸اورشہری علاقوں میں۱.۳ ٪ مسلم گریجوایٹ ہیں اور۱.۲ ٪ پوسٹ
گریجوایٹ ہیں۔مغربی بنگال کی کل آبادی کا۵۲٪مسلمان ہیں مگرسرکاری نوکریوں
میں یہ شرح صرف۴.۲ ٪ہے۔ آسام میں ۴۰٪مسلمان مگر نوکریاں۱۱.۲ ٪،کیرالہ میں
۲۰٪آبادی مگر۱.۴ ٪کے پاس نوکریاں ہیں البتہ کرناٹک میں۲۱.۲ ٪ مسلم آبادی کے
پاس نسبتاًبہتریعنی۸.۵ ٪ نوکریاں ہیں۔ بھارتی فوج اورمتعلقہ خفیہ اداروں نے
سچرکمیٹی کوسروے کی اجازت نہیں دی مگرذرائع کے مطابق بھارت کی ۴۱لاکھ سے
زائدفوج میں مسلم تعدادصرف ۹۲ہزارہے اوران میں سے بھی ۵٪کاتعلق مقبوضہ جموں
وکشمیرکی پیراملٹری فورسزسے ہے،یوں بھارتی آرمی میں مسلمانوں کی تعداد تین
فیصدسے بھی کم ہے اوراس میں بہت بھاری اکثریت نچلے درجے کے اہلکاروں کی ہے
۔ اس سے بخوبی اندازہ کیاجا سکتا ہے کہ بھارت کی سب سے بڑی اقلیت یادوسری
بڑی اکثریت کن نامساعدحالات میں زندگی گزاررہی ہے۔
بھارت میں مسلمانوں کی زبوں حالی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اوران کی حالت
زاردیکھ کردوقومی نظریے پریقین اوربھی پختہ ہوجاتاہے۔بھارت کی دگر گوں
صورتحال کی سنگینی اس سے کہیں زیادہ ہے جتنی کہ ہم خیال کرتے ہیں۔گزشتہ
دنوں بھارتی وزیرمملکت برائے اقلیتی امورمختارعباس نقوی نے ریاست ہریانہ کے
شہرمیوات کے گرلزہاسٹل کے افتتاح اورایک ہائرسکینڈری اسکول کاسنگ
بنیادرکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بتایاکہ بھارت میں اب ۵۷ ٪ مسلمان
خط غربت سے نیچے کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبورہیں اور بھارت میں ذات
پات،مذہب اورعلاقے کی بنیادپرتفریق آج بھی بہت گہری ہے۔ان کاکہناتھاکہ
بھارت میں اقلیتوں کیلئے غربت اوربیروزگاری سب سے بڑاچیلنج ہیں۔
بھارت میں ملکی سطح پرمسلمانوں میں شرح خواندگی۴۶.۸ ٪ہے ،مزیدبراں سے ۱۴سال
کی عمرکے ہر۴میں سے ایک بچہ یاتواسکول جاتاہی نہیں یا ابتدائی کلاسزسے ہی
اٹھالیا جاتا ہے ۔قائم مقام وائس چانسلرپروفیسرجمیل انورچودھری نے کہاہے کہ
ہندوستان میں مسلمانوں کی ابتری وزبوں حالی اچھوت وشودر اقوام سے بھی
بدترہے۔وہ الرزازی ہال نیو کیمپس میں {دلت تحریک ....ماضی حال اورمستقبل }کے
موضوع پرمنعقدہ ایک روزہ سیمینارسے خطاب کررہے تھے جس سے ایڈیٹردلت وائس
بنگلوروی ٹی راج شیکھر،پرنسپل سینٹ انیس کالج کیرالہ،پروفیسرراجوتھامس،
پروفیسر خواجہ محمد زکریا،ڈاریکٹرسرگنگا رام ہرٹیج
فاؤنڈیشن،پروفیسرمحمدیوسف عرفان اورڈائریکٹرساؤتھ ایشین سٹیڈیز سنٹر ،داکٹرمحمدسلیم
مظہرنے خطاب کیا۔ایڈیٹردلت وائس راج شیکھرنے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے
کہاکہ بھارت میں مسلمانوں کودہشتگرد،جانوراورغدارقراردیتے ہوئے انہیں
پاکستان یا قبرستان جانے کیلئے کہاجاتا ہے، دوسری طرف ہندومسلم اتحاد کیلئے
امن کی آشاجیسی ڈرامہ بازیاں کررہے ہیں جوپاکستان کے نظریاتی وجودکومنہدم
کرنے کے مترادف ہیں۔ بھارت میں اقلیتوں کی حالت زارکسی سے ڈھکی چھپی
نہیں۔یہ سچائی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ سیکولر کے پردے میں کٹر ہندوؤں
نے دیگرمذاہب ماننے والوں کوعملی طورپر یرغمال بنانے کی حکمت عملی جاری
رکھی ہوئی ہے۔تقسیم ہندکوانتہاء پسند ہندوؤں نے تاحال دل سے قبول نہیں
کیاچنانچہ پاکستان اور مسلمان دشمنی کے مظاہرے آئے روزکسی نہ کسی شکل میں
رونماہوتے رہتے ہیں۔
سیاست اورمیڈیامیں پاکستان دشمنی ہی ہے جس کے سبب اب تک قیام امن کی ہرکوشش
ناکام ہوتی چلی آئی۔آج صورتحال یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے ایٹمی قوت بن
جانے کے باوجودتنازعات پرامن اندازمیں حل کرنے میں کامیاب نہ ہوناجنوبی
ایشیاکے علاوہ دنیابھرکے امن پسندلوگوں کیلئے تشویشناک بن چکاہے۔بھارت کی
تاریخ کاہرطالب علم جانتاہے کہ کانگرس کے مسلم رہنماؤں نے ہمیشہ مسلمانوں
کویہ یقین دلایاکہ انگریزوں کے جانے کے بعدہندو اکثریت ان پرطاقت کے بل
بوتے پرمسلط نہیں ہوگی۔ابوالکلام آزاد جیسے مسلم رہنماء اپنے طورپر
بھرپوراندازمیں یہ مہم چلاتے رہے کہ مذہب کی بنیادپرمستقبل کے بھارت میں
ہرگزتفریق نہ برتی جائے گی مگر بدقسمتی سے ایساکبھی نہ ہوسکا۔ آج بھی بھارت
میں کئی دہائیاں گزرجانے کے باوجودکٹرہندومسلمانوں کی الگ شناخت دل سے
تسلیم کرنے کوتیارنہیں ۔ بابری مسجدکاواقعہ انتہاء پسندی کی بدترین مثال کی
صورت میں آج بھی انصاف کی منتظرہے۔گجرات میں مسلم کش فسادات بھارت میں اہل
توحید کی زبوں حالی کاایک اورثبوت بن کر ابھرے۔
سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کواس سرزمین پرامن وامان سے رہنے کاحق کون دے
گاجہاں خودہندوانتہاء پسندوں کی حکومت ہو۔بھارت میں بیس کروڑ کے لگ بھگ
مسلمان موجود ہیں مگران کی یہ تعدادبھی انہیں تحفظ اورترقی کے مساوی مواقع
فراہم کرنے میں ناکام ثابت نہیں ہورہی، واحد وجہ یہی ہے کہ ہندو مسلمانوں
سے کئی گنااکثریت میں ہیں۔ بھارت میں وقتاً فوقتاً مسلمانوں کی زبوں حالی
کے بارے میں خبروں کی اشاعت سے یہی نتیجہ نکالاجاسکتاہے کہ دانستہ طور
پرایک خدا،ایک رسول ۖ اورایک قرآن کوماننے والوں کو پسماندہ رکھنے کی حکمت
عملی جاری ہے۔حدتویہ ہے کہ بھارت میں ایسے دینی مدارس بھی ہیں جہاں
مسلمانوں کے علاوہ دیگرمذاہب کے ماننے والے بھی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ یہ
بتانے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے کہ ایسی دینی درسگاہوں میں اسلام کی حقانیت
کی تعلیم کس حدتک دی جاسکتی ہے۔ بظاہر یہ ناپسندیدہ نہیں کہ
مسلمان،ہندواورعیسائی بچے بیک وقت تعلیم حاصل کریں مگردینی مدرسہ میں
مذکورہ ماحول کے اثرات سے انکارنہیں کیاجاسکتا۔
آگرہ میں ایک دفعہ یہ واقعہ پیش آیاکہ انتہاء پسندہندوؤں نے کم وبیش
دوومسلمانوں کوجاگیرسے بیدخل کرنے کاخوف دلاکراسلام چھوڑنے پر مجبور کیامگر
ان کواس وقت ناکامی کا منہ دیکھناپڑاجب مسلمانوں نے اپنے گھروں میں
جاکرنمازکی ادائیگی اورقرآن کی تلاوت کرکے دین سے اپنی وابستگی کا برملا
ثبوت دے ڈالا۔بھارتی میڈیامیں یہ خبرآچکی کہ غریب مسلمانوں کوراشن کارڈ
دینے کالالچ دیکرانہیں ہندوبنانے کی مہم جاری ہے۔آرایس ایس اوراس کی دوذیلی
تنظیمیں بجرنگ دل اوردھرم جگ رن بیچ اس ضمن میں بے دریغ پیسہ خرچ کررہی
ہیں۔مذکورہ تنظیموں نے دعویٰ کیاہے کہ ۷۵مسلمان خاندان ہندو دھرم میں آئے
ہیں۔بھارت میں رہنے والی اقلیتوں کوہندوبنانے کے پروگرام کو پرکھوں کی
واپسی کانام دیاگیا ہے۔۲۰۰۳ ءسے لیکراب تک دولاکھ ۷۸ہزار مسلمانوں عیسائیوں
کوہندودھرم اختیارکرنے پرمجبورکیاگیا۔
مذکورہ واقعہ کے خلاف پارلیمنٹ میں زبردست ہنگامہ آرائی بھی ہوئی ،ایوان
میں حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کامؤقف تھا کہ طاقت کے ذریعے مذہب تبدیل کرنے
کی مہم بھارت کے سیکولرتشخص کیلئے تباہ کن ثابت ہوگی۔بھارتی آئین میں
زبردستی مذہب تبدیل کرناقانونی طورپرجرم ہے مگراس کے برعکس صورتحال یہ ہے
کہ انتہاء پسندہندورہنماء راجیشور کا کہناہے کہ ساٹھ گرجا گھروں پران
کاقبضہ ہے اوران میں اب کوئی عبادت نہیں ہورہی۔انتہاء پسند ہندو رہنمانے
فخریہ اندازمیں کہاکہ ایک دن گرجاگھروں کی دیواریں گرادیں جائیں
گیاورہمارادیش صرف ہندودیش ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ نریندرمودی کے برسر
اقتدارہوتے ہوئے یہ خوش فہمی کس طرح پالی جائے کہ پڑوسی ملک میں مسلمانوں
سمیت دیگر اقلیتوں کیلئے زمین تنگ نہیں کی جائے گی۔ کیا ہمارے وظیفہ خورقسم
کے دانشوراس اٹل حقیقت سے انکارکرسکیں گے؟ |