بیت المال میں جانے والے سائلین کو بہت سے مسائل کا
سامناہے ۔بیت المال کا ہیڈ آفس جی ایٹ میں ایسی جگہ قائم ہے جہاں پہنچنے
کیلئے لوگوں کو ٹیکسی کرنا پڑتی ہے اور یو ں لوگ سینکڑوں روپے خرچ کر کے اس
امید پہنچتے ہیں کہ وہاں سے ان کی کچھ داد رسی ہوجائیگی لیکن وہاں پہنچ کر
لوگوں کو مختلف قسم کی پریشانیوں کا سامناکرنا پڑتاہے ۔سب سے پہلے تو مین
گیٹ پر تعینات ملازمین کا رویہ ہی غریب عوام کیساتھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ
جو بیان سے باہر ہے ۔جن غریبوں کی داد رسی کیلئے بیت المال بنایا گیا ہے
انہیں عملہ دھکے دینے سے بھی گریزنہیں کرتا جبکہ وہاں آنے والے ممبران قومی
و صوبائی اسمبلی و دیگر اعلی افسران کا شاندار طریقے سے استقبال کیاجاتا ہے
۔مین گیٹ پر موجود عملہ یہ تاثر دیتاہے کہ غریبوں کو دی جانے والی امداد ان
کی جیب سے ادا کی جارہی ہو۔جیسے تیسے مستحقین مین گیٹ کے کٹھن مرحلے سے گزر
کر اندر پہنچتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ابھی ایم ڈی صاحب تشریف نہیں رکھتے
۔صاحب کے آنے جانے کا کوئی وقت نہیں ہے ۔موصوف اپنی مرضی سے دفتر آتے جاتے
ہیں۔دور دراز سے آنے والے غریب غربا ایم ڈی صاحب کے انتظار میں باہربیٹھنے
پر مجبور ہوتے ہیں ۔ایم ڈی صاحب کی آمد کے بارے میں اگر عملے سے دریافت کیا
جائے تو کوئی کہتا ہے ابھی آنے والے ہیں ۔کوئی کہتا ہے معلوم نہیں انہوں نے
آنا ہے کہ نہیں کوئی کہتا ہے کہ صاحب مرضی کیمالک ہیں ہمیں کچھ معلوم
نہیں۔مستحقین اس آس میں گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں کہ چلو اتنی دور سے آئے ہیں
تو ایم ڈی صاحب سے مل کر ہی جائیں گے کیا خبر کہ کچھ امداد مل ہی جائے ۔اکثر
ایسا بھی ہوتا ہے کہ کئی گھنٹوں کا انتظار کرانے کے بعد عملہ کی طرف سے
منادی کرادی جاتی ہے کہ ایم ڈی صاحب آج نہیں آئیں گے سب لوگ اپنے اپنے
گھروں کو چلے جائیں ۔شومئی قسمت اگر ایم ڈی صاحب آ بھی جائیں تو وہ اپنے
دفتر کیکمرے میں بیٹھ کر پہلے میٹنگ میٹنگ کھیلنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ان
کی بلا سے سائیلین گھنٹوں سے ان کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔میٹنگ سے نمٹنے کے
بعد اپنی کرسی پر فرماں روا کی طرح بیٹھ جاتے ہیں اور سائیلین کو کمرے میں
بلایا جاتا ہے ۔سائلین کی ایک طویل قطار ان کے کمرے میں کھڑی ہوجاتی ہے ۔لوگ
اپنی عرضیاں لیکر ایم ڈی صاحب کے سامنے حاضر ہوتے ہیں لیکن ان کی بات سنی
نہیں جاتی بس ان کی درخواستوں پر ایم ڈی صاحب دستختط کرتے جاتے ہیں اور
انہیں دوبارہ باہر بیٹھنے کا حکم دیا جاتاہے ۔ساری درخواستیں سٹاف اپنے
ساتھ لیکر چلا جاتا ہے ۔ایم ڈی صاحب کس کی درخواست پر کیا لکھ رہے ہیں یہ
کسی کو معلوم نہیں ہوتا ۔باہر جاکر جب لوگ اپنی درخواست کے بارے میں معلوم
کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ 90 فیصد سے زائد لوگوں کی درخواست مسترد کی
جاچکی ہے ۔مسترد کرنے کی وجہ بھی نہیں بتائی جاتی ۔باقی رہ جانے والے
10فیصد لوگ جن کی درخواستیں منظور کی گئی ہوتی ہیں وہ سفارشی ہوتے ہیں ۔کسی
کے پیچھے ایم این اے ،تو کسی کے پیچھے سینٹر کی سفارش ہوتی ہے یا دفتر کا
عملہ بتا دیتا ہے کہ جناب یہ میرا بندہ ہے اس کی درخواست منظور کر لی جائے
۔یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ایم ڈی صاحب آئندہ الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں
لہذا وہ اپنے متوقع حلقہ سے آنے والے سائل کی درخواست کبھی مسترد نہیں کرتے
اکثر تو یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ سفارشی اور غیر مستحق لوگوں کے چیک
اسی وقت بنا کر پیش کر دیئے جاتے ہیں اور انہیں کھانا بھی پیش کیا جاتا ہے
جبکہ مستحق افراد کو مایوس لوٹ کر جاناپڑتا ہے ۔اگر کسی غیر سفارشی بندے کی
درخواست مسترد نہ بھی کی جائے تو اسے مختلف جگہوں کے چکر لگوا لگواکر اس حد
تک پریشان کر دیا جاتا ہے کہ وہ خود ہی دفتر آنا چھوڑ دیتا ہے ۔کبھی اسے
کہا جاتا ہے کہ فلاں دفتر سے جاکر انکوائری لیٹر حاصل کریں ،جب بندہ لیٹر
حاصل کر لے تو کہا جاتا ہے فیض آباد آفس سے انکوائری کرائیں ۔سائل کسی نا
کسی طور وہاں پہنچتاہے تو اس سے مختلف قسم کے سوالات پوچھے جاتے ہیں اور اس
کے بعد کہا جاتا ہے کہ اب آپ جائیں کچھ دن بعد آپکو ٹیلی فون کال آئیگی اور
صاحب آپ سے معلومات لینگے ۔لیکن وہ کال کبھی نہیں آتی ۔15 ،16دن انتظار کے
بعد سائل دوبارہ ہیڈ آفس جاتا ہے اور اپنی درخواست کے حوالے معلوم کرتا ہے
تو کہاجاتاہے کہ آپ کی درخواست تو یہاں آئی ہی نہیں ہے ممکن ہے کہ آپ نے
بارہ کہو والے آفس میں درخواست جمع کرائی ہو۔غرض یہ کہ سائل کو امددنہیں مل
پاتی اور وہ مایوس ہوکر بیت المال کے دفتر جانا ہی چھوڑ دیتا ہے ۔یہاں یہ
بات بھی نوٹ طلب ہے کہ ایم ڈی صاحب نے نیچے سے لیکر اوپر تک کے تمام کام
اپنے اختیار میں رکھے ہوئے ہیں۔جس وجہ سے ایم ڈی صاحب کی دفتر سے غیر حاضری
کی صورت میں ہیڈ آفس آنے والے غریب لوگوں کوسخت خواری کا سامنا کرنا پڑتا
ہے ۔ایم ڈی صاحب کو چاہئے کہ وہ کوئی ایسا افسر مقرر کریں جو ان کی غیر
موجودگی میں سائیلین کی فریادیں سن سکے اوردرخواستوں پر احکامات جاری کر
سکے ۔اس حوالے سے جناب وزیر اعظم صاحب ،جناب وزیر داخلہ صاحب اور دیگر حکام
بالا سے التماس کی جاتی ہے کہ وہ بیت المال کی حالت زار کو درست کرائیں اور
بیت المال میں پایا جانے والا سفارشی کلچر ختم کرانے کیلئے موثر کارروائی
کریں تاکہ بیت المال آنے والے غریبوں کی داد رسی ممکن ہو سے ۔ |