مال و دولت کی کثرت ا ور فراوانی اُمت محمدیہؐ کے لئے
سب سے بڑا خطرہ اور سب سے بڑا فتنہ ہے ۔ آج دُنیا میں جس قدر بھی قتل و
غارت ، بے حیائی و فحاشی اور معصوم عزتوں کی نیلامی ہورہی ہے ان سب کی پشت
پناہی مال و دولت کی کثرت اور پیسے کی فراوانی ہی کر رہی ہے ۔ آج کے دور
میں کون سا ایسا مشکل سے مشکل کام ہے جو مال و دولت اور روپیہ پیسہ وغیرہ
کے بل بوتے پر نہ کرایاجاسکتا ہو؟ اسی خطرے کے پیش نظر آج سے ساڑھے چودہ سو
سال پہلے زبانِ رسالت مآب ؐ نے اس بات کی پیشن گوئی فرمادی تھی کہ میری
اُمت کا فتنہ مال ہے ۔ چنانچہ حضرت کعب بن عیاضؓ فرماتے ہیں کہ : ’’ میں نے
حضورِ اقدسؐ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ : ’’ہر اُمت کے لئے ایک
فتنہ ہوتا ہے اور میری اُمت کا فتنہ مال ہے۔‘‘ (ترمذی)
چنانچہ ہمارے روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ مال و دولت کی کثرت اور روپیہ پیسہ
کی فراوانی سے جتنی آوارگی ، عیاشی ، سود خوری ، زنا کاری ، سینما بینی ،
جوا بازی ، ظلم و ستم ، لوگوں کی حقارت، اﷲ کے دین سے غفلت ، عبادات میں
تساہل اور دین کے کاموں سے دوری جتنی کثرت سے پائی جاتی ہے ٗ ناداری کی
حالت میں ان کا تہائی ، چوتھائی بلکہ اِن کا عشر عشیر بھی نہیں پایا جاتا ۔
چنانچہ بخاری شریف کی ایک حدیث میں آتا ہے رسولِ اکرم ؐ نے ارشاد فرمایا کہ
: ’’اﷲ کی قسم ! مجھے تمہارے اُوپر فقر و فاقہ کا خوف نہیں بلکہ اس بات کا
خوف ہے کہ تم پر دُنیا کی وسعت ہوجائے جیساکہ تم سے پہلی اُمتوں پر ہوچکی
ہے ، پھر تمہارا اِس میں دل لگنے لگے جیساکہ اُن کا لگنے لگا تھا ، پس یہ
چیز تمہیں بھی ہلاک کردے جیساکہ پہلی اُمتوں کو ہلاک کرچکی ہے ۔‘‘ (مشکوٰۃ
عن البخاری)
لیکن اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مال فی حد ذاتہٖ ( یعنی اپنی ذات کے
اعتبار سے) کوئی ناپاک یا عیب کی چیز ہے ، بلکہ اس وجہ سے کہ ہم لوگوں کے
قلوب کے فساد کی وجہ سے بہت جلد ہمارے دلوں میں مال کی کثرت کی وجہ سے تعفن
اور بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں ۔ چنانچہ اگر کوئی شخص اس کی مضرتوں سے بچتے
ہوئے اور اس کی زیادتی سے احتراز کرتے ہوئے چند مخصوص شرائط کے ساتھ اسے
استعمال کرنا چاہے تو اس سے نہ صرف یہ کہ مال کا استعمال ضرر رساں نہیں
ہوتا بلکہ اس سے بہت زیادہ فوائد اور منافع حاصل کیے جاسکتے ہیں ، لیکن چوں
کہ عام طور پر مال کے استعمال کی شرائط کی رعایت رکھی جاتی ہے نہ ہی اس کے
ذریعہ اصلاح کی فکر کی جاتی ہے اس لئے اس کے زہریلے اثرات بہت جلد ہمارے
بدن میں سرایت کرجاتے ہیں۔حضور نبی کریم ؐ جب بار بار مال کے فتنوں اور اُس
کی مضرتوں پر تنبیہ فرمارہے ہیں تو یقینا ہر ایک شخص کو بہت زیادہ اس کی
مضرتوں سے ڈرتے رہنا چاہیے ، اور اس کے استعمال کے لئے شرعی قوانین کے
دائرۂ کار کے اندر رہتے ہوئے اس کا مناسب استعمال کرنا چاہیے ۔
مفتی الٰہی بخش کاندھلویؒ نے اپنے شیخ و مربی حضرت شاہ عبد العزیز محدث
دہلویؒ کی بیاض سے اپنی بیاض میں نقل کیا ہے کہ : ’’دُنیا ( یعنی مال و
دولت ) آدمی کے لئے حق تعالیٰ شانہ کی مرضیات پر عمل کرنے کے لئے بہترین
مدد ہے ۔ حضورِ اقدسؐ نے جب لوگوں کو حق تعالیٰ شانہ کی طرف بلایا تو ان
چیزوں کے چھوڑ دینے کا حکم نہیں فرمایا ، بلکہ اسباب معیشت اور اہل و عیال
کی خدمت کی ترغیب دی ۔ لہٰذا مال کا اور اپنے اہل و عیال میں رہنے کا انکار
ناواقف شخص ہی کرسکتا ہے ۔
حضرت عثمان غنی ؓ کے وصال کے وقت اُن کے خزانچی کے پاس ایک لاکھ پچاس
اشرفیاں اور دس لاکھ درہم تھے اور جائیدادِ خیبر وادیٔ قریٰ وغیرہ کی تھی ،
جس کی قیمت دو لاکھ دینار تھے ۔ اور حضرت عبد اﷲ بن زبیر ؓ کے مال کی قیمت
پچاس ہزار دینار تھی اور ایک ہزار گھوڑے اور ایک ہزار غلام چھوڑے تھے ۔ اور
حضرت عمرو بن عاص ؓ نے تین لاکھ دینار چھوڑے تھے ۔ اور حضرت عبد الرحمن بن
عوف ؓ کے مال کا تو شمار ہی مشکل ہے ۔ اس کے باوجود حق تعالیٰ شانہ نے اُن
کی تعریف قرآنِ پاک میں فرمائی : ’’ ترجمہ:یہ لوگ صبح و شام ( یعنی ہمیشہ )
اپنے رب کی عبادت محض اُس کی رضاء جوئی کے واسطے کرتے ہیں ۔‘‘ (سورۂ کہف ،
رکوع ۴ ) ایک دوسری جگہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ ترجمہ: یہ لوگ ایسے ہیں
کہ ان کی تجارت وغیرہ ان کو اﷲ کی یاد سے غافل نہیں کرتی ۔‘‘ (سورۂ نور،
رکوع ۵)‘‘(فضائل صدقات: ۲۳۷/۱)
امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ : ’’مال بمنزلہ ایک سانپ کے ہے ، جس میں زہر بھی
ہے اور تریاق بھی ، اور اس کے فوائد بمنزلہ تریاق کے ہیں اور اس کے نقصانات
بمنزلہ زہر کے ہیں ۔ سو جو شخص اس کے فوائد و نقصانات سے واقف ہوجائے وہ اس
پر قدرت حاصل کرسکتا ہے کہ اس کے فوائد حاصل کرے اور اس کے نقصانات سے
محفوظ رہے ۔ اس میں فوائد تو دو قسم کے ہیں (۱) دُنیوی (۲) دینی ۔ دُنیوی
فوائد تو ہر ایک شخص جانتا ہے اس لئے اُن کے ذکر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں
، البتہ دینی فوائد یہ ہیں :
۱-پہلا فائدہ یہ ہے کہ مال بالواسطہ یا بلا واسطہ عبادت کا سبب ہے ۔
بالواسطہ تو اس طرح کہ اپنے کھانے پینے اور ضروریات میں خرچ کرے کہ یہ
ضرورتیں اگر پوری نہ ہوں تو آدمی کا دل اُدھر مشغول رہتا ہے جس کی وجہ سے
دینی مشاغل میں اشتغال کا وقت نہیں ملتا ۔ اور جب مال بالواسطہ عبادت کا
ذریعہ ہے تو یہ خود بھی عبادت ہوا ، لیکن صرف اتنی ہی مقدار جس سے دینی
مشاغل میں اِعانت ملے اس سے زیادہ مقدار اس میں داخل نہیں ۔ اور بلا واسطہ
یہ اس طرح عبادت کا سبب ہے کہ بعض عبادات جہاد اور حج وغیرہ روپیہ پیسہ سے
ہی ہوسکتے ہیں اور ویسے کرنا مشکل ہیں ۔
۲-دوسرا فائدہ یہ ہے کہ مال دوسرے لوگوں پر چار طرح سے خرچ کیا جاتا ہے :
(۱) صدقہ جو غرباء اور مساکین پر کیا جائے ۔ (۲) مروّت ٗ جو اغنیاء پر دعوت
، ہدیہ وغیرہ وغیرہ میں خرچ کیا جائے ۔ یہ قسم اگرچہ صدقہ کے زمرے میں نہیں
آتی تاہم یہ قسم بھی اپنے اندر دینی فوائد سموئے ہوئے ہے کہ اس سے باہمی
تعلقات قوی ہوتے ہیں ، سخاوت کی بہترین عادت پیدا ہوتی ہے ۔ (۳) اپنی آبرو
کا تحفظ ہوتا ہے ۔ یعنی مال کا ایسی جگہ خرچ کرنا کہ جہاں اگر خرچ نہ کیا
جائے تو کمینے لوگوں کی طرف سے بدگوئی ، فحش وغیرہ مضرتوں کا اندیشہ رہتا
ہے ۔ یہ بھی صدقہ کے حکم میں آجاتا ہے ۔ چنانچہ حضور نبی کریمؐ کا ارشاد ہے
کہ آدمی اپنی آبرو کی حفاظت کے لئے جو خرچ کرتا ہے وہ بھی صدقہ کرتا ہے ۔
(۴) مزدوروں کی مزدوری کی اُجرت دینا کہ آدمی بہت سے کام اپنے ہاتھ سے نہیں
کرسکتا یا کرتو سکتا ہے لیکن اپنا یہ قیمتی وقت علم و عمل یار ذکر و فکر
وغیرہ جیسے اُمور کے لئے بچا لیتا ہے تو یہ بھی ایک قسم کا مال کا دینی
فائدہ ہے ۔
۳-تیسرا فائدہ یہ ہے کہ مال سے عمومی خیر و بھلائی کے اخراجات نمٹائے جاتے
ہیں جن میں کسی دوسرے معین شخص پر تو خرچ نہیں کیا جاتا ، البتہ عمومی
فوائد اس سے ضرور حاصل ہوجاتے ہیں جیسے مساجد و مدارس کا بنانا ، مسافر
خانوں اور شفا خانوں کا بناناوغیرہ وغیرہ وہ تمام رفاہی کا کہ جن سے تمام
لوگ ہمہ وقت مستفید ہوسکتے ہوں کہ یہ تمام کام صدقۂ جاریہ کے حکم میں آتے
ہیں اور ان کا اجر و ثواب مرنے کے بعد بھی انسان کو ملتا رہتا ہے اور ان سے
فوائد حاصل کرنے والے اﷲ کے نیک اور متقی لوگوں کی دعائیں بھی انسان کو
پہنچتی رہتی ہیں۔ شیخ سعدی ؒ نے خوب فرمایا ہے :
نہ مرد آں کہ ماند پس ازسے جائے
پل و خوانی و خان و مہمان سرائے۔
یعنی جوشخص جو اپنے پیچھے رفاہِ عامہ کے کام پل ، سڑکیں ، گلیاں ، ہر وقت
غریبوں کے لئے جاری رہنے دسترخوان ، مساجد و مدارس، مہمان خانے اور شفاخانے
، ہسپتالیں وغیرہ بناجائے تو در حقیقت وہ شخص ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ رہتا
اور مرتا نہیں ہے کہ اُس کو اُس کے اِن جاری صدقات کا اجر و ثواب قبر میں
بھی ملتا رہتا ہے ۔ گویا وہ شخص زندہ ہے اور زندہ رہ کر یہ تمام نیک اعمال
بذات خود کر رہا ہے۔ |