(والدہ گرامی حضرت عباسؓ)
حضرت ام البنینؓ حضرت علیؓ کی زوجہ،حضرت عباس علمدارؓجیسے عظیم فرزند کی
والدہ گرامی ہیں،حضرت ابوطالب اور حضرت فاطمہ بنت اسد کی بہو بن کر اس عظیم
گھرانے میں آئیں جہاں شہزادی کونین خاتون جنت حضرت فاطمہ زہراؓکی ثانوی
حیثیت پائی،اسکے علاوہ ایک یہ بی فخر حاصل ہے کہ نوجوانوں کے سردار جوانان
ِجنت امام حسنؓاور امام حسینؓوحضرت زینبؓوحضرت ام کلثومؓ کے دہن ِمبارک سے
آپ ماں کہہ کر پکاری گئیں۔
آپ کانام فاطمہ وحیدیہ کلابیہ تھااور کنیت ام البنین(بیٹوں کی ماں)تھی۔آپ
وحید بن کعب اور کلاب بن ربیعہ کے خاندان سے تھیں جو عرب کے مشہور بہادروں
میں تھے۔آپؓ کے والد گرامی کانام حزام تھا اور آپ کی والدہ گرامی کانام
ثمامہ ہے۔آپ کے والد نے ایک روز خواب دیکھا کہ آپ ایک سرسبز زمین پر بیٹھے
ہیں کہ ایک جانب سے ایک قطرہ ہاتھ پر گرا اور درُّ(موتی یا ھیرا)بن گیااور
وہ اسکی صفا اور چمک پر متعجب ہوئے کہ ایسے میں ایک سوار آیااور سلام دعاکے
بعد اس نے اس درُّ کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ آپ اسے فروخت کریں گے؟تو حزام
نے کہا کہ میں اسکی قیمت نہیں جانتالیکن کیا آپ اسے خریدیں گے؟سوار نے کہا
کہ میں بھی اسکے حقیقی مول کی معرفت نہیں رکھتا لیکن میں آپ سے یہ خواہش
کرتا ہوں کہ آپ یہ درُّ اس کو ہدیہ کردیں جواس کا اہل اور اس کا حقدار ہے
کہ یہ اس کو تحفہ میں دیا جائے اور میں آپ کو یہ ضمانت دیتا ہوں کہ اسکے
پاس آپ کیلئے جو ہے وہ درہم ودینار سے کہیں اعلیٰ ہے۔حزام پوچھتے ہیں کہ وہ
کیا شئے ہے جو درہم و دینار سے اعلیٰ ہے؟سوار کہتا ہے کہ میں آپ کو ضمانت
دیتا ہوں کہ اسکے اہل کے پاس جو ہے آپ کیلئے ایک مرتبہ اور درجہ خاص اسکی
طرف سے ابدالآباد کیلئے شرف اور بزرگی کبھی ختم نہ ہونے والی۔حزام کہتے ہیں
کہ آپ اسکی ضمانت لیتے ہیں تو سوار کہتا ہے ہاں!حزام کہتے ہیں اور آپ اس
کیلئے واسطہ اور کفیل بھی بنتے ہیں؟سوار،بالکل ،تمام عزم کے ساتھ میں اس کا
کفیل اور واسطہ ہونے کو تیار ہوں اگر آپ یہ معاملہ مجھے تفویض کرتے ہیں۔تو
حزام نے یہ معاملہ ان کے سپرد کر دیا ۔جب خواب سے بیدار ہوئے تو اپنے ہم
نشینوں کو یہ خواب سنایا تو ایک صاحب ِنظر نے یہ تعبیر دی کہ اگر تمہارا
خواب سچا ہے تو تمہارے یہاں ایک بیٹی پیدا ہوگی اوراسی کے سبب سے تم وہ شرف
پاؤ گے جو ابدی ہے۔پھر جب سفر سے واپسی پر آپ کے یہاں ولادت کے آثار پیدا
ہوئے تو آپ نے کہا کہ میں نے اپنے خواب کو سچ پایا۔حضرت ام البنین کی ولادت
ہجرت کے بعد ۵ ہجری میں ہوئی۔آپ حسب ونسب اور طہارت وعفت اور خاندانی اوصاف
کے لحاظ سے اپنوں کے درمیان منفرد حیثیت رکھتی تھیں۔آپ علمی،اخلاقی اور
تربیتی امور میں کافی ملکہ رکھتی تھیں۔جب خاتونِ جنت سیدہ کونین سیدہ فاطمہ
زہراؓ کا وصال ہو جاتا ہے تو ایک روزحضرت علیؓ اپنے بھائی عقیل کو جو عرب
کے علم الانساب میں سب سے زیادہ ماہر تھے بلایا اور آپ نے ان سے فرمایاکہ
بھائی میرے لئے ایک ایسی بیوی کا انتخاب کیجئے جس سے ایک بہادر اور شہسوار
فرزند پیدا ہو ۔حضرت عقیلؓ نے ام البنین ؓ کا نام پیش کیا اور کہا کہ تمام
عرب میں کوئی شخص ان کے باپ اور دادا سے زیادہ شجاع اور دلیر نہیں ہے۔
حضرت ام البنینؓ نے ایک روز اپنی والدہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ
میں نے خواب میں ایک خوبصورت جوان کو دیکھا ہے اور میں نے یہ بھی دیکھا کہ
آسمان سے چاند اور تین ستارے میری گود میں اترے ہیں میں نے ان کو اپنے سینے
سے لگا یا جس سے مجھے خوشی محسوس ہو رہی تھی ایسے میں اچانک خواب سے بیدار
ہوئی تو دامن میں کوئی چیز نہیں پائی جس سے میں غمگین ہوئی۔جب خواب کی
تعبیر دریافت کی تو بزرگ نے کہا کہ تیرے لئے اور بیٹی کیلئے خوشخبری ہے کہ
اس لڑکی کا ایک شریف وعظیم ذات سے جلد رشتہ ہو گااس کے بطن سے چار بیٹے
پیدا ہوں گے۔سب سے بڑا بیٹا تیرے قبیلے کے درمیان ایسا نمایاں ہو گا جیسے
کہ ستاروں کے درمیان چمکنے والا قمر ہوتا ہے۔جب ماں بیٹی گر پہنچے تو ابھی
دیر بھی نہیں ہوئی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی دیکھا تو جنابِ عقیلؓ ہیں کہ
حضرت علیؓ کی طرف سے منگنی کیلئے تشریف لائے ہیں۔ حضرت علیؓ اور حضرت ام
البنین ؓکی شادی۲۰ ہجری میں ہوئی۔آپ کے بطن مبارک سے چار بیٹے پیدا
ہوئے:حضرت عباس علمدارؓ ،حضرت عبداﷲؓ،حضرت عمرانؓاور حضرت جعفرؓ،چاروں بیٹے
میدان کربلا میں شہید ہوئے۔
ؔ ا م البنینؓ سا کوئی ہو گا نہ نیک نام فرزند جس کے چار ہوئے فدیہ امام
شادی(نکاح)کے بعد جب حضرت ام البنینؓنے حضرت علیؓ کے بیت الشرف قدم رکھا تو
قدم رکھتے ہی آستان ِمبارک کو بوسہ دیا اور شہزادوں کی خدمت میں عرض کی
ــــــ’میں تمہاری ماں بن کر نہیں آئی ہوں بلکہ ایک خادمہ(کنیز)کی حیثیت سے
آئی ہوں‘۔حضرت ام البنینؓ حضرت علیؓ کے علاوہ صدیقہ طاہرہ سیدہ فاطمہ زہرہؓ
کی کی عظمت سے بھی باخبر تھیں اور انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ حضرت علیؓ نے
شہزادی کونین کو یہ بھی شرف عطا کیا ہے کہ ان کی موجودگی میں مولا علیؓ نے
دوسرا عقد نہیں فرمایااور یہ شرف تاریخ میں صرف دوہی خواتین کو عطا ہوا ہے
ایک سیدہ فاطمہؓ اور ایک ان کی والدہ گرامی حضرت خدیجہؓ۔
حضرت ام البنینؓ کوحسنین کریمینؓ سے بڑی محبت تھی آپ عباسؓ سے بھی زیادہ
امام حسنؓ اور امام حسینؓ کو چاہتی تھیں اور ہمیشہ اپنے آپ کو حسنین
کریمینؓوزینبؓوام کلثومؓکی کنیز(خادمہ )کہتی تھیں۔اور یہی تربیت آپ نے اپنی
اولاد کی کی تھی کہ حضرت عباسؓہمیشہ اپنے آپ کو حضرت امام حسینؓ کا خادم
کہتے تھے اور امام حسینؓ کو اپنا آقا سمجھتے تھے۔ایک دن حضرت عباسؓ نے اپنی
والدہ ام البنین سے پوچھا کہ میں بھی تو علیؓ کا بیٹا ہوں تو امام حسینؓ
میرے بھائی ہوئے تو آپؓ نے جواب دیا کہ تمہاری ماں فاطمہؓ نہیں!یہی تربیت
تھی کہ حضرت عباسؓ نے میدان ِکربلا میں ایسی وفا کی کہ وفا بھی رشک کرتی ہے
اور حضرت عباسؓ نے ہمیشہ امام حسینؓ کو آقا کہا ،شہادت کے آخری لمحات میں
امام حسینؓ کی خواہش پر ایک بار بھائی کہا۔
حضرت ام البنینؓ جب نکاح کے بعد حضرت علی ؓکے گھر میں داخل ہوئی تو ڈیوڑھی
کو بوسہ دیا اور حجرہ میں داخل ہو کر سب سے پہلے حسنین کریمینؓجو بیمار تھے
اٹھا کر بٹھایااور دونوں کے گرد تین دفعہ قربان ہوئیں پھر منہ چوما۔(زلفیں
سونگھیں)اور رو کر عرض کی ،اے میرے آقا اور اے میرے آقازادو،مجھے اپنی
کنیزی میں قبول کرومیں تم پر نثارمیں تمہاری خدمت کیلئے آئی ہوں تمہارے
کپڑے دھوؤں گی اور بہ دل وجان تمہاری خدمت کروں گی۔تم مجھے اپنی خدمت کیلئے
قبول کرو۔حضرت ام البنینؓکے اس طرزعمل سے حضرت علیؓ کے ساتھ ساتھ روح فاطمہ
زہراؓ بھی مسرور ہو گئی اسلئے کہ ان کی دلی تمنا یہی تھی کہ میرے بعد علیؓ
جو بھی عورت لائیں وہ میرے بچوں کی صیح نگراں ہو۔
جب حضرت ام البنینؓ رخصت ہو کر حضرت علیؓ کے گھر آئیں،چوکھٹ کو چوما
،دروازے کے اندر قدم رکھا اور وہیں زمین پر بیٹھ گئیں،بی بی زینب پاکؓ نے
آکے کہا کہ اماں!اندر آؤ۔۔۔بی بی کہنے لگیں فاطمہؓ کی بیٹیوں مجھے اماں نہ
کہو میں تمہاری خادمہ ہوں۔حسنینؓ آئے کہا:اماں !اندر چلو۔۔بی بی نے کہا کہ
میں تمہاری خدمت کیلئے آئی ہوں یہ گھر سیدہؓ کا گھر ہے تم سیدہ فاطمہؓ کی
اولاد ہو ۔۔۔میں تمہاری خادمہ بن کر رہوں گی۔بہرنوع،بی بی نے عقیدت کی
انتہا کر دی اور حسنینؓ نے محبت کی انتہا کر دی۔پھر آپ ؓ نے حضرت علیؓ سے
عرض کی کہ مجھے فاطمہ( جو میرا نام ہے)کہہ کر نہ پکاریں اسلئے کہ یہ
شہزادوں اور شہزادیوں کے حزن کا سبب ہو گا ۔یہ ان کی والدہ ماجدہ کا اسم
ِگرامی ہے اور اس طرح انہیں ان کی یاد تڑپائے گی۔آپؓ مجھے ام البنین
پکارئیے گا۔
حضرت ام البنینؓ کے بطن ِمبارک سے حضرت عباسؓ پیدا ہوئے۔یہ حضرت ام البنینؓ
کی تربیت کا ہی نتیجہ تھا کہ جب شمر نے جب وہ عبید اﷲ ابن زیاد سے کوفہ میں
حضرت امام حسینؓ کے قتل کرنے کی سازش کر رہا تھا اس قرابت کی بنا پر جو اس
کو قبیلہ بنی کلاب سے تھی اس نے حضرت ام البنین ؓ کورشتہ دار ثابت کرنے
کیلئے ان کے چاروں بیٹوں کیلئے جن کو وہ اپنا بھانجا بتاتا تھا امان حاصل
کی اور شب ِعاشور ان کے خیموں کے پیچھے آیا اور امان کی خبر سنائی ۔حضرت
عباسؓ نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ کی امان ابن سمیہ کی امان سے بہتر ہے۔حضرت
عباسؓ کو امام حسین سے بے انتہا محبت تھی جب امام حسینؓ سوجاتے تو عباسؓ
حفاظت کی خاطر جاگتے رہتے ،امام حسینؓ صبح کو عباسؓسے فرماتے اے میرے پیارے
بھائی تم رات کو ایک ساعت کیلئے بھی نہیں سوئے،عباسؓ کہتے آقا،غلام کو آرام
سے کیا غرض،آپ کی خدمت میں سحروشام بسر ہو جائے بس عباسؓ کیلئے یہی آرام
ہے۔آقا آپ میرے سیدوسردار،میرے مالک وآقا ہیں آپ کی خدمت میں اگر میں جاگ
رہاہوں تو یہ میں نہیں جاگ رہا بلکہ میرا مقدر جاگ رہا ہے۔اکثر امام حسینؓ
حضرت ام البنینؓ سے فرمایا کرتے تھے کہ عباس میرا جانثار،میرامحب اور میرا
مددگار ہے اور میں عباسؓ سے اسلئے بھی بہت زیادہ محبت کرتا ہوں کہ میں جب
بھی عباسؓ کو دیکھتا ہوں مجھے باباعلیؓیاد آجاتے ہیں،عباسؓ ہمارے گھر میں
گویا شیرخدا کی تصویر کی طرح ہیں۔تو جناب ام البنینؓ حضرت امام حسینؓ سے
فرماتیں کہ آپ ہمارے سردار ہیں اور میرے بچے آپ کے خادم ہیں۔تاروں کو فخر
ہے کہ وہ چاند پر سے صدقے ہو جائیں عباسؓ کا سر آپ ؓکے قدموں پرہو یہی
فضیلت ہے۔یہی فخر ہے۔میرے بیٹے نے ہمیشہ آپؓ کے قدموں کو چوما ہے اور کیوں
نہ ہو آپ نے بھی تو بیٹوں کی طرح عباسؓ کو پالا ہے۔
حضرت ام البنینؓ کے چاروں بیٹے میدان ِکربلا میں شہید ہوئے آپؓ نے چاروں
بیٹوں کی ایسی تربیت کی کہ دنیا کی تاریخ ِالفت ووفا میں ان کا نام امر ہو
گیا۔حضرت عباسؓ اور ان کے بھائیوں نے میدان کربلا میں حق کی خاطر اور امام
حسینؓ کی محبت میں جس طرح جانیں فدا کیں اور وفاداری کے جو بے مثال کارنامے
انجام دئیے ان کی بنیاد ابتداء ہی سے ماں نے ڈالی تھی۔کوئی اور ماں ہوتی تو
سب سے بڑے بیٹے کی پیدائش کا جشن مناتی اور چاہے منہ سے نہ کہتی مگر دل میں
یہ سوچتی کہ وہ اب کسی سے گھٹ کر نہیں،خود بیٹے والی ہے مگر مادر ِعباسؓ کا
کردار ہی اور تھا۔ماں نے بیٹوں کے دل میں امام حسینؓ کی محبت کا جذبہ کوٹ
کوٹ کر بھر دیا تھا۔
حضرت ام البنینؓ کو امام حسینؓ سے حضرت عباسؓ سے بھی زیادہ محبت تھی
کربلاکے واقعہ کے بعد آپ قاصد سے پوچھتی ہیں کہ امام حسین ؓکیسے ہیں؟کہاں
کہ عباسؓ شہید ہو گئے ہیں پھر پوچھتی ہیں کہ بتاؤامام حسین ؓکیسے ہیں؟قاصد
کہتا ہے کہ ابھی اپنے باقی تین بیٹوں کا بھی حال سن لیجئے وہ بھی شہید ہو
گئے ہیں ۔آپ ؓ کہتی ہیں کہ اے قاصد!میں تجھ سے امام عالی مقام امام حسینؓ
کا حال پوچھتی ہوں اور تو غلاموں کا حال آگاہ کرتا ہے ،مجھے امام حسینؓ کے
حال سے آگاہ کر،جب قاصد نے امام حسینؓ کی شہادت کی خبر سنائی تو آپ بیہوش
ہو گئیں اور جب ہوش میں آئیں تو کہا کہ مجھے ام البنین نہ کہو میرے سارے
بیٹے شہید ہو گئے۔
کربلا کے واقعہ کے بعد آپؓ کو یہی فکر تھی کہ ان کے بیٹوں نے اپنے بھائی
حسینؓ پر جان قربان کرنے میں کوئی کوتاہی یا دیر تو نہیں کی سب سے زیادہ
فکر حضرت عباسؓ کی تھی کہ کہیں اسکے لخت ِجگر نے ان کی محبت اور وفا پر تو
آنچ نہیں آنے دی۔ پھر جب انہیں پتہ چلتا ہے کہ ان کے بیٹوں نے حق کی خاطر
امام حسینؓکی محبت میں جانیں قربان کیں اور وفاداری کے بے مثال کارنامے
انجام دئیے تو آپؓ سجدہ شکر بجا لاتی ہیں کہ ان کیلئے بیٹوں کا کارنامہ
باعث فخرومسرت ہے۔
آپؓ تمام امتحانات میں سرخروہوئیں اور ۱۳ جمادی الثانی یوم ِجمعہ ۶۴
ہجری،۵۸ برس کی عمر میں آپ ؓاس دنیا سے رحلت فرماگئیں(یعنی واقعہ کربلا کے
بعد تین سال پانچ ماہ اور تین دن زندہ رہیں)۔آپؓ قرب ِجناب ِفاطمہ زہراؓمیں
مدفون ہیں،جنت البقیع(مدینہ رسولﷺ )میں دروازے کے قریب آپ ؓکی قبر ہے۔
|